ریوڑیا ں ' اندھا ' سپورٹس ڈائریکٹریٹ اور میوزیکل نائٹ کے پوسٹرز

بات اندھوں کی ریوڑیاں بانٹنے شروع کی تھی جو کہیں اور نکل گئی ریوڑیاں سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں تعینات اہلکاروں کی من پسند اور لنگوٹیوں میں بانٹی جارہی ہیں جس میں مخصوص افراد کو دیگر اضلاع کے تبادلوں کیلئے نئی سمری بھجوائی گئی ہیں تاہم حیرت انگیز طور پر سمری اتنی جلدی میں بنائی گئی ہیں اور یہ نہیں بتایا گیا کہ دو سال کا عرصہ کتنے افسران و اہلکاروں نے پورا کیا ہے بس تبادلوں کی فہرست تیار کی گئی ہے جس میں لنگوٹیوں اور مخصوص علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو بالکل ہی نظر اندا ز کیا گیا کیونکہ لکھنے میں قانون تو اندھا ہے مگر سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں کانا قانون ہے کیونکہ دو سال کی ٹرانسفر پالیسی تو سب پر لاگو ہوتی ہیں اسی طرح ایسے افراد جن کی ٹیکنیکل معلومات بالکل بھی نہیں انہیں بھی تکینکی شعبوں میں گھسیڑا جارہا ہے

اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنوں میں ' یہ اردو کی ایک مشہور مثل ہے ' پتہ نہیں کس وقت اور کس موقع پر کسی دل جلے نے یہ مثل بنائی تھی لیکن اس کی مثال ہمیں وزیراعلی خیبر پختونخواہ محمود خان کے وزارت سپورٹس میں ہی نظر آرہی ہیں . کبھی کے دن بڑے اور کبھی کی راتیں بڑی .. کے مصداق وزیراعلی خیبر پختونخواہ کی جانب سے نئے تعینات ہونیوالے ڈائریکٹر جنرل کا تعلق چونکہ انڈسٹریز ڈیپارٹمنٹ سے رہا ہے جبکہ نئے آنیوالے سیکرٹری سپورٹس بھی کھیل اور کھیلوں کے میدان سے نابلد ہیں اس لئے ان کی آمد کیساتھ ہی چند مخصوص لوگوں نے ان کے گرد گھیرا ڈال دیا ہے اور ان کی شعبہ سپورٹس سے ناواقفیت کی بناء پر وہ ان سے ایسے کام کروا رہے ہیں جو ابھی ظاہری طور پر طاقت کے نشے میں مصرو ف مخصوص مافیا کو ٹھیک نظر آرہا ہے کیونکہ ان لوگوں کو اسی ڈیپارٹمنٹ سے نکل کر اسلام آباد کے ایوانو ں تک رسائی حاصل ہے جہاں سے مخصوص افراد پریزینٹیشن بنا کر وزیراعلی خیبر پختونخواہ کو پیش کردیتے ہیں جس کی بناء پر اوپر سے آنیوالی کال اور رابطوں پر کارروائی کی جاتی ہیں .کوئی یہ نہیں جانتا کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے مخصوص افراد کی گاڑیاں اسلام آباد میں ہی کیوں نظر آتی ہیں اور اسلام آباد کے ایوانوں کے آشیرباد سے وہ کیسے غیر قانونی طور پر وفاق سے صوبے کی طرف شفٹ ہوگئے ہیں.یہ وہ سوال ہیں جو وزیراعلی خیبر پختونخواہ کے کرنے کا ہے. مگر وہ یہ سوال کب کرینگے .خدا ہی جانے..
وزارت کھیل و ثقافت و یوتھ خیبر پختونخواہ کی نئی انتظامیہ نے خاتون سپورٹس ڈائریکٹر یس جن کی پروموشن کئی ماہ سے التواء کا شکار ہیں اور پی ایم ایس افسری نہ ہونے کی وجہ سے انہیں ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر تعینات نہیں کی جارہا جس میںان کی بھی غلطی ہے کیونکہ ایک وقت میں صوبے کی ایک بڑی شخصیت کو انہوں نے سیاسی افراد کوغیر قانونی طور پر بھرتی کرنے سے انکار کیا تھا جس کی سزا اب وہ بھگت رہی ہیں تاہم انہیں ایڈجسٹ کرنے کیلئے ابھی وزارت کھیل نے ایک نئی پوسٹ تخلیق کرنے کی سمری بھیج دی ہے جو امکان ہے کہ اگلے چند دنوں میں منظوربھی ہو جائیگی کیونکہ متعلقہ خاتون نے قانونی کاروائی کرنے کا عندیہ دیا ہے اور عدالتی کاروائی کرنے کیلئے بھی رابطے کئے تھے تاہم وزارت سپورٹس کی انتظامیہ نے انہیں ان کا حق دینے کیلئے خاتون ڈائریکٹریس کی آسامی گریڈ بیس کی تخلیق تو کردی ہے مگر اب اس پر ایک مخصوص افسر جو غیر قانونی طور پر اسی ڈیپارٹمنٹ میں تعینات ہیں کی نظریں لگ گئی ہیں اور انہوں نے اپنی تعیناتی کیلئے اسلام آباد کے ایوانوںمیں بیٹھے مخصوص شخصیات سے رابطے شروع کردئیے ہیں تاکہ انہیں اس جگہ پر ایڈجسٹ کیا جاسکے.تاکہ اسے کنٹریکٹرز سے لین دین میں آسانی رہے کیونکہ ہر وقت موٹر وے پر لین دین تو ہونے سے رہی.
بات اندھوں کی ریوڑیاں بانٹنے شروع کی تھی جو کہیں اور نکل گئی ریوڑیاں سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں تعینات اہلکاروں کی من پسند اور لنگوٹیوں میں بانٹی جارہی ہیں جس میں مخصوص افراد کو دیگر اضلاع کے تبادلوں کیلئے نئی سمری بھجوائی گئی ہیں تاہم حیرت انگیز طور پر سمری اتنی جلدی میں بنائی گئی ہیں اور یہ نہیں بتایا گیا کہ دو سال کا عرصہ کتنے افسران و اہلکاروں نے پورا کیا ہے بس تبادلوں کی فہرست تیار کی گئی ہے جس میں لنگوٹیوں اور مخصوص علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو بالکل ہی نظر اندا ز کیا گیا کیونکہ لکھنے میں قانون تو اندھا ہے مگر سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں کانا قانون ہے کیونکہ دو سال کی ٹرانسفر پالیسی تو سب پر لاگو ہوتی ہیں اسی طرح ایسے افراد جن کی ٹیکنیکل معلومات بالکل بھی نہیں انہیں بھی تکینکی شعبوں میں گھسیڑا جارہا ہے ' ریجنل سپورٹس آفیسرز کیلئے سروس سٹرکچر کے بجائے انہیں دو دو جبکہ بعض من پسند افراد کو تین تین عہدے دئیے جارہے ہیں . حیرت انگیز طور پر پشاور کے ہیڈ کوارٹر میں مخصوص افراد کیلئے لابنگ کی جارہی ہیں اور اس میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے باہر سے ڈیپوٹیشن پر آنیوالے افراد ہی بہت سرگرم نظر آرہے ہیں .ایک اور بات جو کہنے اور لکھنے کی قابل ہے ایسے افراد کار خاص بننے کیلئے کوشاں ہیں تاکہ " مونگ دا کرپشن خلاف جہاد کوو" کے نعرے تو لوگوں کو سناتے رہیں مگرحقیقت میں کچھ اور ہوں.
وزارت سپورٹس جن کے پاس کلچر بھی ہے نے نئے سال کی خوشی میں منعقد ہونیوالے ایک پروگرام جس میں میوزیکل شو بھی شامل ہیں کے پوسٹرز سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں لگانے شروع کردئیے تاکہ یہاں پر آنیوالے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو جو بنیادی طور پر کھلاڑی ہیں اسی طرف راغب کرسکے.متعلقہ پروگرام کہنے کو تو ایک پرائیویٹ ادارے کی جانب سے کروایا جارہا ہے تاہم سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے مین گیٹ سمیت ڈائریکٹر جنرل کے دفتر کے سامنے اور قیوم سپورٹس کمپلیکس کے فٹ بال گرائونڈز کے انٹری پوائنٹ پر پوسٹرز لگائے گئے ہیں جس میں بتایا جارہا ہے کہ " لمیٹڈ سیٹس " ہے اور پہلے آئیے پہلے پائیے والا حساب ہی چلے گا.سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک پرائیویٹ ادارے کے پوسٹرز کھیلوں کی وزارت میں کیسے لگائے گئے' کیا اس کی ادائیگی سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کو کرائی گئی ہیں یا پھر مخصوص لوگوں کی کارستانی ہے.
یہاں پر ایک لطیفہ یاد آرہا ہے کہتے ہیں کہ نیویارک میں ایک شراب خانے پر لکھا تھا کہ اگر پینا چاہتے ہو تو یہاں آجائو جبکہ دوسری طرف ایک خاتون کا نمبر لکھا گیا تھا اور تیر کا نشان دیکر کہا گیا تھا کہ اگر پینا نہیں چاہتے تو دئیے گئے فون نمبر پر رابطہ کرکے آجائو. بس یہی صورتحا ل اس وقت سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کی بھی لگ رہی ہیں جس میں کھیلنے کے میدان تو ہیں مگر ساتھ میں نیو ائیر نائٹ کے میوزیکل پروگرام کے پوسٹرز لگاکر بتایا جارہا ہے کہ اگر صحت چاہتے ہو تو سٹیڈیم آجائو اور اگر صحت اورپیسے کا ضیاع چاہتے ہو تو وہ نئے سال کے میوزیکل پروگرام میں آجائو. اب مرضی جوانوں کی بھی ہے کہ جس طرف جائے . ویسے خیبر پختونخواہ ' تبدیلی والی سرکار کی مدینہ کی ریاست کا صوبہ ہے اور وزیراعلی خیبر پختونخواہ کے پاس وزارت کی اضافی چارج بھی ہے.
چلتے چلتے قیوم سپورٹس کمپلیکس کے باسکٹ بال گرائونڈ میں ہونیوالے فل کنٹیکٹ کراٹے چیمپئن شپ میں ایک کھلاڑی کے زخمی ہونے کے حوالے سے بات کریں چیمپئن شپ تو اوپن ہورہی تھی لیکن حیرت انگیز طور پر زخمی ہونے والے کھلاڑیوں کی مرہم پٹی کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے کھیل کے دوران زخمی ہونیوالے کھلاڑی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اس کی فائٹ روکنی پڑ گئی کیونکہ ناک پر لگنے والے پنچ نے کھلاڑی کی ناک سے خون کا فوارہ نکال دیا تھا جسے آرگنائزر کبھی گندے کپڑے سے روکنے کی کو شش کرتے رہے اور کبھی سر پر پانی ڈال کر روکنے کی ناکام کوشش کرتے رہے ' بعد میں کبھی کھلاڑی کو سیدھا لٹاتے اور کبھی سر نیچے کرنے کاکہتے رہے تاکہ خون روکا جاسکے . حیرت انگیز طور پر نہ تو سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی جانب سے کسی نے میڈیکل ایڈ کیلئے فون کیا او ر ہی چمپئن شپ منعقد کرانے والوں کو اس خیال آیا . یہ ذمہ داری کس کی ہے .یہ وہ سوال ہیں جو سپورٹس ڈائریکٹریٹ ْخیبر پختونخواہ کی انتظامیہ کو خود سے کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر یہی کھلاڑی ان کا اپنا بچہ ہوتا تو ان کا رد عمل کیا ہوتا.

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 637 Articles with 498855 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More