سپورٹس ڈائریکٹریٹ ' آ بیل مجھے مار اورنمک حلالی
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
یہ وہی حکومت ہے جس نے دس لاکھ بیروزگاروں کو روزگار دینے کا وعدہ کیا تھا اب اگر تبدیلی والی سرکار کے سپاہی جو خود وزیراعلی ہیں روزگار کرنے والے افراد کو بیروزگار کرتے ہیں تو پھردوسرے اضلاع میں ا س کا اثر کیا ہوگا- سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انتظامیہ کو جی حضوری اور سب اچھا کی رپورٹ دینے والے افسران کا پتہ کرنا چاہئیے کہ آیا وہ خود اس ڈیپارٹمنٹ میں رہنے کے قانونی طور پر قابل بھی نہیں کہ نہیں.اور ساتھ میں بڑے افسران کے " بڑے بڑے کاروباروں" پر نظر کرم بھی ڈالنا چاہئیے کہ کونسا موصوف کس کاروبار سے وابستہ ہیں.اور ان کے اثاثے کیا ہے.ان لوگوں کی بھرتی کے وقت اثاثے کیا تھے اور اب کیا ہیں. |
|
سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ نے اپنے لئے نیا پنڈورہ بکس کھولتے ہوئے پانچ اور چھ سال سے ملازمت پر کام کرنے والے ڈیلی ویجر ملازمین اورکوچز سے ان کی تعلیمی قابلیت اور سرٹیفیکیٹ طلب کرلئے ہیں تاکہ انکی قابلیت کو چیک کیا جاسکے. ڈیپارٹمنٹ میں کام کرنے والے تمام ملازمین کو اپنے ڈاکومنٹس دوبارہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں جمع کرنے کی ہدایت کی گئی ہیں . یہ اقدام کوچز اور ڈیلی ویجز ملازمین کی تعلیمی قابلیت دیکھنے کے بعد انہیں دوبارہ تعیناتی کا اعلامیہ دیا جائیگا.تاہم سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انتظامیہ کی جانب سے جاری ہونیوالے اس نئے اعلامیے نے تمام ملازمین میں خوف کی لہر دوڑا دی ہیں کیونکہ ان میں بیشتر ملازمین گذشتہ پانچ سالوں سے زائد عرصے سے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے کیساتھ ڈیلی ویجر کے طور پر کام کررہے ہیں اور وہ پندرہ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر کام کرتے رہے ہیں جبکہ ایک ماہ قبل ہی صوبائی حکومت کی جانب سے اکیس ہزار روپے کی تنخواہیں دینے کا آغاز ہوا ہے.ڈیلی ویجز اور کوچز اس بات سے خوف کا شکار ہیں کہ کہیں انہیں سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی نئی انتظامیہ فارغ ہی نہ کریںاور انہیں بیروزگاری کا سامنا نہ کرنا پڑے.
ان ملازمین کی قابلیت و اہلیت کی چیکنگ کیلئے طرف سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ نے ایسی کمیٹی قائم کی ہے جس کا نوٹیفیکیشن بھی نہیں ہوا اورنہ صحیح طریقے سے اس کے ممبران کو کو لیا گیا ہے کمیٹی کی چیئرمین شپ ایسے شخص کو دی گئی ہیں جو کبھی کسی بھی سپورٹس میں پروفیشنل کھلاڑی نہیں رہے نہ ہی انٹر کلب ' ڈسٹرکٹ ' صوبائی اور قومی سطح کے کسی مقابلوں میں حصہ لیا ہے مزے کی بات یہ ہے نہ تو اس کمیٹی کا باقاعدہ نوٹیفکیشن کیا گیا اور نہ ہی اس کی منظوری سیکرٹری سپورٹس خیبر پختونخواہ سے لی گی جبکہ اس کمیٹی میں جن دو ممبران کو لیا گیا ہے ان میں ایک اتھلیٹکس جبکہ دوسرے ہاکی کے کوچ ہیں وہ صرف اپنے مخصوص کھیلوں کو ہی سمجھتے ہیں ایسے میں دیگر کھیلوں سے متعلق ان کی اہلیت کی ہوگی یہ وہ سوال ہیں جو اس کمیٹی کے بننے کے بعد تمام کوچز کررہے ہیں. کیا دیگر کھیلو ں کے کوچز اپنے کھیلوں کو نہیں سمجھتے یا ان کی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں کوئی اوقات نہیں .یا پھر ہاکی کے کوچ سکواش کے کوچ ' سمیت دیگر کھیلوں سے وابستہ افراد کی کیا سکروٹنی کرینگے یہ بڑا سوالیہ نشان ہے.لیکن لگ یہی رہے کہ کمیٹی کے ممبران " جی حضوری " اور آگے پیچھے ہونے کی بناء پر شامل کیا ہے اورشنید یہی ہے کہ اب یہی افراد سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ڈیلی ویجر ملازمین سمیت کوچز کے مستقبل کا فیصلہ کرینگے .
اس صورتحال میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کے چھ سال سے کام کرنے والے ملازمین کے چنائو میں اپنے من پسند افرا د کو داخل کرنے کیلئے بعض ایسوسی ایشنز سے وابستہ افراد نے صبح و شام سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے مخصوص کمروں کے سامنے کرسیاں ڈال ہیں اور آنے جانیوالے ہر افسر کو " سلام سر جی" کرکے اپنے بچوں اور مخصوص افراد کوبھرتی کیلئے کوشاں ہوگئے ہیںجس کا اندازہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ملازمین نے بھی کرلیا ہے کیونکہ ایسے افراد بھی اب سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کے چکر لگا رہے ہیں جو گذشتہ کئی ماہ سے غائب تھے لیکن اپنے مقصد براری کی حصول کیلئے انہوں نے سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں ڈیرے ڈال دئیے ہیں اور خوشامدی سلام شروع کردئیے ہیں تاکہ ان کے بچے اور من پسند افراد کو ڈیلی ویجر اور کوچز کے عہدوں پر بھرتی کیا جاسکے.
سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے نکالے جانے کی اطلاعات پر بعض ملازمین نے بھی وکلاء سے رابطے شروع کردئیے ہیں تاکہ وہ عدالت میں صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے خلاف جاسکیںاور اپنے ساتھ گذشتہ چھ سال کی ملازمت کے حوالے سے عدالت سے انصاف لے سکیں..اس وقت سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے افسران کے ریڈار پر ایسے اہلکار اور کوچز بھی شامل ہیں جن کے شاگردوں نے انڈر 21 انڈر 16 سمیت قومی اور صوبائی سطح کے مقابلوں میں نمایاں پوزیشن حاصل کی مگر ابھی انتظامیہ نے انہیں کھڈے لائن لگانے کیلئے ان کی اہلیت پر سوالیہ نشان اٹھایا ہے. مزے کی بات یہ ہے کہ جو کمیٹی قائم کی گئی ہے اس کی سربراہی بھی ایسے شخص کو دی گئی ہیں جنہیں اسلام آباد کی مخصوص مافیا کی آشیرباد حاصل ہے اور وہ اپنے دو رشتہ داروں کو مستقل بھرتی کرنے کیلئے کوشاں ہیں. جو اس سے قبل کے ڈائریکٹر جنرل سپورٹس نے نہیں کی تھی . خیرصورتحال جو بھی بنتی ہے اگر یہی صورتحال رہی تو امکان ہے کہ محکمہ تعلیم اور پویس کے بعد سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ دوسرا محکمہ بن جائیگا جس کے ملازمین اپنے حقوق کیلئے عدالتوں کا رخ مجبور ا کررہے ہیںاور جس کا خمیازہ ڈیپارٹمنٹ سمیت وزیراعلی خیبر پختونخواہ کو ہی بھگتناپڑے گا کیونکہ وزارت انہی کے ہے جس میں تجربوں پر تجربے کئے جارہے ہیں.
ویسے وزیراعلی اور سیکرٹری سپورٹس کوچز اور ڈیلی ویجز ملازمین کی حیثیت جانچنے والی افراد کی حیثیت بھی تو جان لیں.اور اگردیکھ لیں کہ کنفلیکٹ آف انٹرسٹ کے تحت کمیٹی کے چیئرمین کس کھیل سے وابستہ ہیں اور انکی سرپرستی میں کون کونسے افراد کام کررہے ہیں سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انتظامیہ کو اپنے ملازمین کے بارے میں پتہ کرنا چاہئیے کہ آیا وہ صوبائی حکومت کی اپنی اوپر پالیسی کو بھی مانتے ہیں کہ نہیں کیونکہ ایک طرف سرکار کی ملازمت اور دوسری طرف مخصوص کھیل کی صدارت سمیت کئی عہدے ' کیا یہ کھلا تضاد نہیں ' . قانون اگر لاگو ہے تو پھر سب کیلئے قانون بھی یکساں ہی ہونا چاہئیے نہ ہی گریڈ سترہ سے اوپر افسران کیلئے الگ قانون ہو اور ان سے نیچے والوں کیلئے الگ قانون.
ویسے ہمارے ہاں ایک مقولہ مشہور ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ "نوے تھانیدار دا تھانے دیوال نہ ھم منڈا اوباسی" شائد یہی صورتحال سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی بھی بن رہی ہے لیکن سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انتظامیہ کو ان حالات میں جب کھیلوں کی سرگرمیاں دو سالوں کے کرونا کی بعد خیر خیر سے شروع ہوئی ہیں اس صورتحال سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ اگر ہیڈ کوارٹر پشاور میں ا س طرح کی صورتحال بنتی ہے اور ملازمین اپنی ملازمتیں بچانے کیلئے عدالتوں کا رخ کررہے ہیں حالانکہ یہ وہی حکومت ہے جس نے دس لاکھ بیروزگاروں کو روزگار دینے کا وعدہ کیا تھا اب اگر تبدیلی والی سرکار کے سپاہی جو خود وزیراعلی ہیں روزگار کرنے والے افراد کو بیروزگار کرتے ہیں تو پھردوسرے اضلاع میں ا س کا اثر کیا ہوگا- سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انتظامیہ کو جی حضوری اور سب اچھا کی رپورٹ دینے والے افسران کا پتہ کرنا چاہئیے کہ آیا وہ خود اس ڈیپارٹمنٹ میں رہنے کے قانونی طور پر قابل بھی نہیں کہ نہیں.اور ساتھ میں بڑے افسران کے " بڑے بڑے کاروباروں" پر نظر کرم بھی ڈالنا چاہئیے کہ کونسا موصوف کس کاروبار سے وابستہ ہیں.اور ان کے اثاثے کیا ہے.ان لوگوں کی بھرتی کے وقت اثاثے کیا تھے اور اب کیا ہیں.
چلتے چلتے ایک ضمنی بات نئے سال کے موقع پر سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ میں پیش آنیوالے واقعے سے بھی پتہ چل گیا کہ " کھیلوں کی وزارت میں کیا کھیل"ہورہے ہیں. نشہ سٹرینگ کا ہو ' سٹرینگ کے بوتل میں پڑے کسی اور چیز کا ' کرسی کا ' طاقت کا یا کسی اور چیز کا کسی کو بھی راس نہیں آتا .ہمارے ہی کچھ ساتھی جو قبضہ مافیا ہیں اور کھلاڑیوں کی چینجنگ روم پر عرصہ دراز سے قابض ہیں نے "نمک حلالی" کرتے ہوئے یکم جنوری 2022کے واقعے کو دبانے اور ایف آئی آر کے برعکس رپورٹنگ کرنے میں اپنا کلیدی کردا ر ادا کیا تاکہ ان کا قبضہ چلتا رہے اور کھلاڑی خوار ہوتے رہے اس قبضہ مافیا کے خلاف سابق ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خیبر پختونخواہ نے بھی کچھ نہ کرسکے نہ ہی امید ہے کہ موجودہ نئی انتظامیہ کچھ کرسکے گی - کیونکہ بقول ایک صاحب کہ "ہم تو یہاں پر تاش کھیلنے او ر انجوائے"کرنے آتے ہیں . قبضہ ختم ہوگا تو پتہ چل سکے گا کہ کون لوگ کھیلوں کا فروغ چاہتے ہیں اور کون کھیلوں اور کھلاڑیوں سے مخلص ہیں. ویسے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انتظامیہ کو سچ کا سامنا کرنا چاہئیے نہ کہ " او بہ شی ' او مونگ ئی درلہ کوو" کی گردان کرنے والے افراد پر یقین کرنا چاہئیے کیونکہ وہ جھوٹ بول کر صرف اپنی دکانداری چلانے کے چکروں میں مصروف عمل ہیں اور وہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ اورانکی انتظامیہ کو " خدا "سمجھتے ہیں.
|