آج سے 10 سال پہلے جن محفلوں میں جانے اور جن اداروں اور
احباب سے ملنے ملانے پر GB کے کئی علماء اور ان کے خودساختہ مشیران اور
چمچے، مجھے گالیاں دیتے، عجیب عجیب طعنے دیتے ،واللہ! بعضوں نے بہت دل
دکھایا، نام لینا مناسب نہیں ورنا ان کو برا لگے گا اور وہ ایکسپوز ہونگے.
میں ایسا قطعاً نہیں چاہتا.
خدا کی قدرت دیکھیے! آج وہی لوگ وہ کچھ کررہے ہیں جو ہم روز اول کررہے تھے.
اور اس پر نہ اتراتے تھے نہ ہی شرمندہ ہوتے تھے بلکہ اس کو ایک سماجی تعامل
اور معاشرتی ضرورت سمجھتے تھے.
مجھے ان علماء و حضرات پر اعتراض نہیں جو ایسا کچھ کررہے ہیں. یقینا انہیں
سماجی تعامل سمجھ آگیا ہوگا. ان کو مسلکی رواداری کی بھی ضرورت آن پڑی ہوگی
یا کسی مصلحت کا شکار ہوئے ہونگے. جو بھی وجہ ہے مجھے اعتراض نہیں ان کے
اعمال و اقوال اور مسلکی و علاقائی رواداری پر. بلکہ خوشی ہورہی ہے. دیر
سویر انہیں سمجھ تو آگئی ہے.
تاہم خصوصیت سے ان لوگوں کی خدمت میں عرض کرنا ہے جو خوامخواہ دین، علماء،
مدارس، مسلک اور اپنی روایات کے نام پر ہر معتبر آدمی کی خبر لینا اور ایسی
کی تیسی کرنا ضروری سمجھتے ہیں.
آپ پلیز! ایسی ہفتوات سے گریز کریں، کل کہیں آپ کو وہی کچھ کرنا پڑے جس پر
آپ نے دسیوں شریف لوگوں کی پگڑیاں اچھالی تھی. پلیز احتیاط کیجے.
احباب کیا کہتے ہیں؟
|