اگر انسان کے اندر احساس ہی مر جائے تو ان ٹوٹتے ، بکھرتے
رشتوں کی باریک کرچیاں ایسے زخم دے جاتی ہیں جو رستے رہتے دنیا میں بعض
رشتوں میں کڑواہٹ بھری ہوتی ہے۔ جن میں اکثر رشتے کا نام سنتے ہی ذہن میں
ایک منفی سوچ ابھرتی ہے لیکن یہ کڑواہٹ کبھی تو ہم خود اپنی ہی وجہ سے بھر
دیتے ہیں اور کبھی دوسرے اس رشتے میں کڑواہٹ بھرنے میں اہم کردار ادا کرتے
ہیں۔ پھر یہ نازک سے رشتے مثلاً ساس، بہو، نند، بھاوج ، دیورانی، جیٹھانی
اور سب سے بڑھ کر میاں بیوی کے رشتے جو ہماری ذرا سی غلطیوں سے رشتے میں
تلخی بھر جاتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ سارے رشتے بہت پیارے ہوتے ہیں۔ اگر
ہر معاملے میں عقلمندی اور سمجھداری کا مظاہرہ کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ
رشتے ہمارے خونی رشتوں سے بھی زیادہ قریب نہ ہوجائیں۔اس لئے زندگی میں
رشتوں کی نسبت اور معاشرے میں لفظوں میں احتیاط میں فہم و فراست کے استعمال
سے ہر سو محبتوںکا پیام پھیل جاتا ہے پھر یہی محبتیں رشتوں کو مضبوط بنانے
میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں جو معاشرے میں عزت و احترام کو بڑھاتی ہیں۔اسی
طرح ہم سچ اور سچائی کو بیان کرتے وقت لہجے کو میٹھا یا کڑوا بناتے ہیں۔بات
کتنی بھی بڑی یا سنگین کیوں نہ ہو اس کو باقاعدہ دلائل کے ساتھ اگر پیش کیا
جائے تو یقینا بڑی اور فکر انگیز بات بھی راکھ ہوجاتی ہے۔یہ ایک مسلمہ امر
ہے کہ بزرگوں کا لحاظ اپنوں سے محبت ، انکی عزت، انکا کہنا ماننا انکا خیال
رکھنا کبھی ہمارا وصف اور امتیاز ہوتا تھا مگر آج کے اس مشینی دور میں یہ
سب ایک خواب بن کر رہ گیا۔ یا اسے ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ اب ہمارا یہ کام
بھی اغیار نے سنبھال لیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مخلص رشتوں کی بنیاد اس
پہلی اینٹ کی مانند ہوتی ہے جو اگر ٹیڑھی رکھ دی جائے تو دیوار ٹیڑھی ہی
تعمیر ہوتی ہے ہمارے دانست میں رشتوں کو نبھاناجتنا ضروری ہے اس سے کہیں
زیادہ اس میں توازن برقرار رکھنا ضروری ہے۔ رشتے مضبوط ہوں یا کمزور وہی
انسان کو تکمیل کے مراحل تک پہنچاتے ہیں لیکن ساتھ ہی انسان کی سب سے زیادہ
نازک عارضی ناقابل اعتبار چیز انسانی رشتے ہوتے ہیں۔ بلاشبہ وقت ، دوست اور
رشتے سب کچھ ہمیں مل جاتے ہیں لیکن ہم انکی قدر نہیں کرتے انکی قدرو منزلت
کا تب پتہ چلتا ہے جب وہ ہم سے دور ہوجاتے ہیں۔ درحقیقت رشتے احساسات سے
جڑے ہوتے ہیں۔ اگر انسان کے اندر احساس ہی مر جائے تو ان ٹوٹتے ، بکھرتے
رشتوں کی باریک کرچیاں ایسے زخم دے جاتی ہیں جواپنی سانسوں تک رستے رہتے
ہیں اور پھر ان زخموں کا کوئی مداوا کرنے والا نہیں ہوتا۔ اکثر یہ بھی
دیکھا گیا ہے کہ بعض گھرانوں میں چھوٹی چھوٹی باتیں بڑے رشتوں کو سرے سے
ختم ہی کردیتی ہیں ۔ ذرا ذرا سی بات کو رائی کا پہا ڑ بنادیا جاتا ہے یعنی
معمولی معمولی باتیں رشتوں میں بدگمانی کے ایسے سوراخ کردیتی ہیں کہ انسان
تمام عمر وضاحتوں کی اینٹ لگاتا رہتا ہے اور ان خوبصورت اور حسین رشتوں کو
پھر بھی نہیں بچا پاتا۔ایسا محض اس لئے ہوتا ہے کہ تعلق اور رشتے صرف عزت و
توجہ اور اہمیت کے محتاج ہوتے ہیں۔ اس لئے انکی جتنی قدر و منزلت کی جائے
اتنے ہی وہ گہرے اور مضبوط ہوتے چلے جاتے ہیں لیکن ہم سب اپنی زندگی کے
مسائل ، مصائب اور بکھیروں میں الجھ کر اپنے ان رشتوں اور دیگر اہم خونی
رشتوں کی خدمت سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔ اس خدمت کا قرض اپنے کندھوں پر
اٹھائے پھرتے ہیں پھر اس جہاں فانی سے رخصت ہوجاتے ہیں۔رشتوں کی حقیقت یہ
ہے کہ رشتوں کی خوبصورتی ایک دوسرے کی بات برداشت کرنے میں ہوتی ہے مگر
افسوس کہ ہم سبھی میں برداشت کی برکت اب رخصت ہوچکی ہے۔ زندگی کی خوبصورتی
رشتوں کی بدولت ہوتی ہے۔رشتوں سے کنارہ کشی کرنا نہ صرف اپنے ساتھ زیادتی
ہوتی ہے بلکہ دوسروں کے ساتھ بھی زیادتی سے کم نہیں کیونکہ انسان کی سب سے
بڑی ضرورت انسان ہی تو ہے۔ انسان رشتوں کے بغیر نامکمل ہوتا ہے جہاں اسے
انہی رشتوں سے دکھ ملتا ہے وہیں یہ رشتے اسے سہارا بھی دیتے ہیں۔ جس طرح
انسان کو آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح انسان کو رشتوں کی بھی ضرورت
ہوتی ہے اسلئے رشتوں کو بنانا نبھانا اور ان کو لیکر چلنا ایک عقلمند انسان
کی نشانی ہے۔ رشتے نہ دور رہنے سے ٹوٹ جاتے ہیں نہ پاس رہنے سے جڑتے ہیں
بلکہ یہ تو احساس کے پکے دھاگے سے بندھے ہوتے ہیں۔ رشتے توجہ ، قربانی اور
وقت دینے سے مضبوط ہوتے چلے جاتے ہیں۔ شاید یہی وقت ہر آنے والے نئے رشتے
کو اپنے اند ر پرونے کی صلاحیت رکھتا ہے اور پھر نازک بھی اسی قدر ہوتے ہیں
کہ اگر ٹوٹ جائیں تو سارے رشتے ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔ کہتے ہیں انسان کی
زندگی ایک تناور درخت کی مانند ہوتی ہے جس سے جڑے سارے رشتے ہری بھری
ٹہنیوں کی طرح ہوتے ہیں۔ اگر ٹہنیاں سوکھ جائیں تو پورے کا پورا درخت ہی
سوکھ جاتا ہے۔ پھر زندگی کے اس درخت کو ہرا بھرا رکھنے کیلئے ان ٹہنیوں کو
ہرا بھر ا رکھنا ضروری ہے۔ اگر ان رشتوں میں ذرا سی بھی غلط فہمیاں جنم
لینے لگیں تو یہ ساری کی ساری ٹہنیاں آہستہ آہستہ سوکھ کر ٹوٹ جاتی ہیں اور
پھر بکھرنے لگتی ہیں۔ ان ٹہنیوں کو ٹوٹ کر بکھرنے سے بچانے کیلئے وہی انسان
جھکتا ہے جسے رشتوں کی قدر کرنی آتی ہے جنہیں رشتوں کو نبھانے کا شعور آتا
ہو۔ اپنوں کی خوشی کی خاطر ظرف کا پیمانہ بھی بلند کرنا پڑتا ہے۔ عاجزی،
انکساری اور خلوص سے ہی سامنے والے کے دل میں جگہ بنائی جاسکتی ہے۔ کبھی
بھی کسی رشتے میں مقابلے بازی نہیں کرنی چاہئے بلکہ رشتوں کو ہمیشہ برابری
کا درجہ دینا چاہئے۔ رشتے ضرورت کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ عزت اور توجہ
چاہتے ہیں۔ اگر احساس انسان کے دلوں سے ختم ہوجائے تو ان ٹوٹے ہوئے رشتوں
کی چبھن انسان کو جینے نہیں دیتی شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے غلط رویوں کی
وجہ سے رشتوں کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اگر کسی کی غلطیوں کو معاف کرنا پڑے
تو فوراً معاف کردینا چاہئے۔ معافی انسان کے دلوں کو صاف رکھتی ہے ۔ اگر
ہماری زندگی سے اعتبار کا پرندہ ایک بار اڑ جائے تو پھر وہ زندگی بھر لوٹ
کر واپس نہیں آتا۔ بڑی محنت اور اعتماد سے خلوص کے اس پودے کو اپنے پیار
اور چاہت سے سینچتے ہیں تاکہ یہ ایک مضبوط اور ہرا بھرا درخت بن جائے۔ مگر
افسوس صد افسوس برداشت، سمجھ، احساس تو آج کے دور میں ناپید ہوچکا ہے۔ اپنی
زندگی میں ان رشتوں کو بھی ساتھ لیکر چلنا چاہئے جن کے بغیر زندگی نہیں
گزاری جاسکتی ۔ ہماری زندگی ان رشتوں کے بغیر ادھوری ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں
رشتے کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
|