سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کی تاریخ میں پہلی کھلی کچہری
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
خیبر پختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کھیلوں سے وابستہ افراد کی شکایات کے ازالے کیلئے پشاور سپورٹس کمپلیکس میں کھلی کچہری کا انعقاد کیا گیا سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کے زیر اہتمام ہونیوالے اس کھلی کچہری میں ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خیبر پختونخواہ خالد خان سمیت آر ایس او پشاور عزیز اللہ ' ڈی ایس او پشاور جمشید بلوچ ' ڈی ایس او چارسدہ تحسین اللہ ' ایڈمنسٹریٹر جعفر شاہ ' چیف کوچ سمیت چارسدہ 'اور پشاور سے تعلق رکھنے والے عام افراد اور کھلاڑیوں سمیت کوچز نے شرکت کی جنہوں نے اپنی شکایات براہ راست ڈائریکٹر جنرل سپورٹس سے کی. تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت قراک پاک سے کیاگیا جبکہ قومی ترانے کے بعد تقریب کاباقاعدہ آغاز کیا گیا.کھلی کچہری میں بیڈمنٹن ' ٹیبل ٹینس ' سکواش ' کرکٹ ' تائیکوانڈو سمیت دیگر کھلاڑیوں نے شرکت کی.ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خیبر پختونخواہ خالد خان نے افتتاحی خطاب میں کھلی کچہری کے اغراض و مقاصد بیان کئے اور کہا کہ بنیادی مقصد کھیلوں کی وزارت کی بہتری ہے اور کھلاڑیوں اور دیگر افراد کوجو اس شعبے سے وابستہ ہیں کی شکایات کے خاتمے کیلئے کھلی کچہری کا انعقاد کیا گیا ہے ان کا کہنا تھا کہ کھلی کچہری حکومت کی طرف سے شہریوں کی سہولت کیلئے دیگر محکمے کرواتے ہیں تاہم سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں پہلی مرتبہ کروائی جارہی ہیں جس کے بہتر نتائج برآمد ہونگے.
کھلی کچہری کا آغاز تجاویز سے ہوا اور وہ بھی ایک سرکاری اہلکار کی جانب سے ' جوقبل ازیں کرکٹ اکیڈمی میں مہمان بن کر آئے تھے اور کھلاڑیوں کو شاباش دیتے رہے ' بعدازاں انہوں نے اپنے مخصوص لہجے میں کسی بھی سوال کے بجائے اپنی تجاویز دی فزیکل ایجوکیشن انسٹرکٹر کی حیثیت سے فرائض انجام دینے والی شخصیت نے کھیلوں کے مقابلوں کے ڈراز سمیت ایسوسی ایشن کے کردار پر اعتراض اٹھایا قبل ازیں انہوں نے ڈائریکٹر جنرل کی تعریف بھی کی .تاہم ان کی تجاویز پر ڈائریکٹر جنرل نے سوالات کرنے اور اپنے شعبے کے حولے سے سوال کرنے پر زور دیا .امریکی شہری فلاڈلفیا میں حال میں سکواش کے عالمی مقابلوں میں حصہ لینے والے کھلاڑی کے والد نے شکایت کی کہ اپنے اخراجات پر بیٹے کو امریکہ بھجوایا ' بیٹے نے عالمی سطح پر پاکستان اور صوبے کا نام روشن کیا تاہم ایک ماہ گزرنے کے باوجود ابھی تک کسی نے بھی ان کا نہیں پوچھا ' اگر ایسی صورتحال رہی تو پھر کیسے لوگ کھیل کی طرف آئیں گے جس پر ڈائریکٹر جنرل نے سکواش کے کوچ کو بلایا اور ان سے بات کی انہوں نے والد کو یقین دہانی کرائی کہ اسی جگہ پر ان کے بیٹے کے اعزاز میں تقریب منعقد کی جائیگی اور یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ سکواش کے کھلاڑی نے عالمی سطح پر ہونیوالے مقابلے میں پاکستان کا نام روشن کیا.
سکواش کے دیگر کھلاڑیوں نے بجلی کی لوڈشیڈنگ اور من پسند افراد کو زیادہ پریکٹس سمیت باتھ رومز کی صفائی نہ ہونے کی شکایت کی اور کہا کہ بعض لوگوں کی اپروچ ہونے کی وجہ سے انہیں زیادہ وقت ملتا ہے جبکہ جن کی اپروچ نہیں ہوتی انہیں کم وقت ملتا ہے ' ڈائریکٹر جنرل سپورٹس نے انہیں لوڈشیڈنگ کے مسئلے کیلئے جنریٹر لگانے کی یقین دہانی کرائی انہوں نے ساتھ میں یہ بھی کہا کہ بعض کھلاڑیوں کیساتھ والدین آتے ہیں جس کی وجہ سے مسئلہ بنتا ہے انہوں نے کھلاڑیوں کیساتھ لوگوں کی آمد سے متعلق بات بھی کی اور کہا کہ انتظامیہ کبھی اس طرح نہیں چاہے گی کہ جن کی اپروچ ہو انہیں زیادہ وقت ملے اور جن کی اپرو چ نہ ہو انہں یکساں موقع نہ ملے بلکہ تمام کھلاڑیوں کو برابری کی بنیاد پر یکساں سہولیات فراہم کرنے کے حوالے سے بات کی.جبکہ کھلاڑیوں کو یکساں وقت دینے اور صفائی کی صورتحال پر ایڈمنسٹریٹر سے بات کی. ایڈمنسٹریٹر پشاور سپورٹس کمپلیکس جعفر شاہ نے صفائی کی صورتحال بہتر کرنے اور پی اے ایف سکواش کورٹ کی طرز پر ہر کھلاڑی کو پینتالیس منٹ دینے پر سے متعلق بات کی اور کہا کہ اس طرح ہر ایک کو یکساں موقع ملے گا
تنگی سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ شخصیت اور چارسدہ کے اتھلیٹکس سے وابستہ کھلاڑی نے چارسدہ میں جمنازیم اور واکنگ ٹریک کے حوالے سے سوال کیا اور کہا کہ انڈر 16 انڈر 23 سمیت انڈر 21 کے مختلف مقابلوں میں چارسدہ کے کھلاڑی ٹاپ پر ہیں تاہم جمنازیم نہ ہونے سے کھلاڑیوں کو مشکلات کا سامنا ہے اس طرح واکنگ ٹریک نہ ہونے سے لوگ سڑکوں پر واکنگ کرتے نظر آتے ہیں. چارسدہ کے علاقے تنگی سے تعلق رکھنے والے بزرگ شخصیت نے اپنے علاقے کے سٹیڈیم کی حالت پر توجہ دینے کی بات کی او ر کہا کہ سہولیات صرف پشاور اور چارسدہ کاحق نہیں بلکہ تنگی بھی اس صوبے کا حصہ ہے او ر وہاں کے نوجوانوں کو منفی سرگرمیوں اور نشے کی لعنت سے کھیلوں سے دور رکھا جاسکتا ہے. خالد خان ڈائریکٹر جنرل سپورٹس نے چارسدہ میں جمنازیم کی سہولت کیلئے سامان فراہم کرنے سے متعلق یقین دہانی کرائی جبکہ ٹریک سے متعلق بھی بات کی اور کہا کہ دیگر علاقوں میں ٹریک پر کام جاری ہے انہو ں نے بزرگ شہری کی جانب سے کئے جانیوالے سوال پر کہا کہ تنگی کی خوش قسمتی ہے کہ وہاں پر ستاون کنال زمین پر سٹیڈیم ہے جبکہ دیگر جگہوں پر چالیس کنال ہے اتنی بڑی سٹیڈیم کو بنانے میں وقت لگتا ہے اور ابھی کام جاری ہے نکاسی آ ب کا مسئلہ حل کیا گیا ہے او ر کام جلد مکمل کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی.
بیڈمنٹن ' ٹیبل ٹینس کے کھلاڑیوں نے اپنے کھیل کے دورانیے میں اضافے اور شٹل فراہم کرنے کے حوالے سے بات کی اسی طرح کرکٹ اکیڈمی سے متعلق سینئر کرکٹر کی کمرے کی ڈیمانڈ اور سامان کی فراہمی سمیت پچ کی بہتری کیلئے نندی پور کی مٹی کی بات کی گئی ایک کرکٹر نے یہا ں تک کہہ دیا کہ ایک سو پچاس کی سپیڈ سے بال آتی ہے اور نیٹ خراب ہے جبکہ ان ان کا سامان قیمتی ہے اس لئے ہمیں کمرہ دیا جائے .کھیلوں کی وزارت کے ڈائریکٹر جنرل نے بیڈمنٹن اور ٹیبل ٹینس کے کھلاڑیوں کو نارمل انداز میں جواب دیا اور کہا کہ دورانیے کے حوالے سے متعلق ان کی شکایت کا ازالہ کیا جائیگاجبکہ سامان کی فراہمی کے حوالے سے بھی یقین دہانی کرائی گئی . خالد خان نے کرکٹرکی جانب سے اٹھائے جانیوالے سوالات پر حاضری دماغی سے اسے جوا ب دیا اور پوچھا کہ پہلے تو یہ بتایا جائے کہ ایک سو پچاس کی سپیڈ سے کونسا کھلاڑی بال پھینکتا ہے جس پر کوئی بھی جواب نہیں دے سکا البتہ کرکٹر کے کئے جانیوالے سوال پر ہال میں سب سے زیادہ تالیاں معاذ اللہ خان کرکٹ اکیڈمی میں تربیت حاصل کرنے والے کھلاڑیوں نے بجائی تھی تاہم ڈی جی سپورٹس ڈائریکٹر کی جانب سے کئے جانیوالے سوال پر خاموشی بھی چھا گئی .ڈی جی نے کرکٹر کو کمرے سمیت دیگر سہولیات کی فراہمی کی یقین دہانی بھی کرائی.
تائیکوانڈو کے کھلاڑی نے ہال میں وقت کی کمی اور کوچ پر اعتراض اٹھایااور کہا کہ فیڈریشن اس کوچ کو نہیں مانتی. اسی طرح ویٹ لفٹنگ کیلئے جگہ کی فراہمی کی بات کی گئی اور کہا کہ گیا کہ ویٹ لفٹنگ گرائونڈ پر نہیں ہوتی.جس پر سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ڈی جی نے کرونا کی صورتحال کے حوالے سے آگاہ کیا اور کہاکہ وہ قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرتے ہیں جبکہ ویٹ لفٹنگ کیلئے جگہ پرکہا کہ وہ دیکھیں گے کیوں ویٹ لفٹنگ گرائونڈ فلور پر نہیں ہوتی اس کیلئے کیا کوئی خاص ماحول اور ہوا کی ضرورت ہوتی ہے.جس پر بھی خاموشی چھا گئی . ایک موقع پر تائیکوانڈو وزیرستان کے کھلاڑی نے خیبر پختونخواہ کے تائیکوانڈو ایسوسی ایشن پر انڈر 21 کے دوران کھلاڑیو ں کو کٹس نہ دینے کا کہا انہوں نے صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انتظامیہ کو سراہا اور کہا کہ اگر وہ اپنے کوچز کو کٹس فراہم کرتے جو وہ کھلاڑیوں کو دیتے تو بہتر ہوتا.جس پر ڈی جی سپورٹس نے کٹس کھلاڑیوں کو نہ دینے کی تحقیقات کرانے کی یقین دہانی کرائی.کھلاڑیوں کی نیوٹریشن سے متعلق بھی اسلامیہ کالج کے سپورٹس ڈائریکٹر نے بھی سوال اٹھایا جس پر ڈی جی نے ان سے مستقبل میں " فری آف کاسٹ"خدمات حاصل کرنے کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ کوچز کو اس معاملے کو خود دیکھنا چاہیے اور ڈائریکٹر جرمن ادارے جی آئی زیڈ کے تعاون سے تربیتی سلسلہ شروع کررہی ہیں .سکواش کے ایک خاتون کھلاڑی کے والد کی جانب سے خواتین کھلاڑیوں کیلئے کچھ نہ کرنے کے حوالے سے ڈی جی سپورٹس سے سوال کیا گیا جس پر ڈی جی نے بتایا کہ برابری کی بنیاد پر مرد و خواتین کھلاڑیوں کیلئے مقابلے کروائے جاتے ہیں.ساڑھے تین بجے شروع ہونیوالی کھلی کچہری خیبر پختونخواہ کی پہلی کھلی کچہری تھی جو تقریبا ڈیڑھ گھنٹے جاری ہی ' پشاور سپورٹس کمپلیکس کے ایرینا ہال میں منعقد ہونیوالے کھلی کچہری میں پولیس کی بھاری نفری بھی منعقد رہی.اپنی نوعیت کے پہلے کھلی کچہری کی اچھی بات یہ تھی کہ صوبے ڈپٹی کمشنر او ر پولیس کے بعد سپورٹس ڈائریکٹریٹ پہلی ڈیپارٹمنٹ بن گئی جنہوں نے شکایات کے ازالے کیلئے کھلی کچہری منعقد کروائی. یہ الگ بات کہ جو سوال کوچز کے کرنے کے تھے وہ کوچز نے اپنے کھلاڑیوں کے ذریعے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انتظامیہ سے کروائے بعض کھلاڑی ' ان کے والدین اور کوچز سمجھتے ہیں کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ پر ان کا حق ہے اور اپنے آپ کو بہتر کھلاڑی اور اپنے کھیل کو بہترین قرار دینے کی کوشش کرتے رہے اسی باعث بعض نہ کرنے سے متعلق سوال بھی اٹھائے گئے. جن میں نوشہرہ میں ہاکی آسٹرو ٹرف کا لگانا تھا سوال اٹھانے والے سکواش کے خاتون کھلاڑی کے والد تھے.تاہم یہ بھی قابل تحسین ہے کہ ڈائریکٹر جنرل سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے کھلے دل سے سب کی باتیں سنی اور مستقبل میں ان ایشوز کو حل کرنے کی یقین دہانی کرائی . |