" />

سپورٹس ڈائریکٹریٹ ' سیانے اور سلام سرجی

بادلوں کی اس فہرست میں بعض مخصوص لوگ جن کے بار ے میں سب کو پتہ ہے کہ ہر آنیوالے کی شان میں اتنے قصیدے اور مکھن لگاتے ہیں کہ نیا آنیوالا ہرافسر اسی مکھن پر لازما پھسل جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی نظریں ان مخصوص افراد پرنہیں پڑتی جنہیں اب ہر کوئی سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کے مافیا سے تعبیر کررہا ہے اسی مافیا نے اپنے مخالف لوگو ں کو ٹرانسفرکر دیا لیکن اپنے من پسند افراد کو اہم عہدوں پر تعینات کردیا ہے تاکہ ان کا ہولڈ بھی سپورٹس ڈائریکٹریٹ پر قائم و دائم رہے چلیں یہ بات بھی قابل برداشت ہے لیکن یہ قانون "سلام سرجی "کرنے والوں پر لاگو نہیں جو اپنے رشتہ داروں کیساتھ سپورٹس ڈائریکٹریٹ پر قابض ہیں.


سیانے کہتے تھے کہ اگر کوئی کام آپ کی گھر یا دفتر میں ہورہا ہے اور آپ کو اس کا پتہ نہیں تو اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ یا تو انتہائی نااہل ہیں کہ اپنے گھر یا دفتر میں ہونیوالی سرگرمیوں کا پتہ نہیں یا پھر دوسری صورت میں آپ ان سے ملے ہوئے ہیں یعنی آپ خود بھی اس کام کا حصہ ہیں.تاہم جان بوجھ کر اپنے آپ کو انجان ظاہر کرتے ہیں.لکھنے کا آغاز سیانے کی باتوں سے اس لئے کیا کہ ہمارے وزیراعلی خیبر پختونخواہ بھی سیانے ہیں ' اب اندازہ نہیں کہ انہیں اپنی دوسری وزارت یعنی وزارت کھیل میں ہونیوالے کھیل کا پتہ نہیں یا پھر وہ جان بوجھ کر انجان بنے ہوئے ہیں.لیکن اتنا یقین ہے کہ انجان بن کر کام چلانا انہیں مستقبل میں بہت بڑا نقصان دے سکتا ہے جس کی طرف یقینا تحقیقاتی اداروں کی توجہ ہے کیونکہ جس طرح بھاگتے چور کی لنگوٹی کو لوگ مال غنیمت سمجھتے ہیں اس لئے تبدیلی والی سرکار کی آخری کم و بیش ڈیڑھ سال میں تحقیقاتی اداروں نے اپنی رپورٹیں مرتب کرنا شروع کردی ہیں تاکہ بوقت ضرورت کام آئے اور .. وہی پرانی باتیں..وزارتیں آنی جانی چیزیں ہیں اور پارٹیوں کے ساتھ وزیر بھی بدلتے ہیں تاہم بیورو کریٹ نہیں بدلتے یہ الگ بات کہ بیوروکریٹ وقت اور ہوا رکا رخ دیکھ کر چلتے ہیں اور ہر آنیوالے حکمران کواپنا آقا سمجھ کر اور بنا کر رکھتے ہیں تاکہ ان کا کام بھی چلتا رہے.

کام کے چلنے کی رفتار وزیراعلی خیبر پختونخواہ کی وزارت کھیل میں بھی انتہائی سست ہے اتنا سست کہ گذشتہ دنوں ہونیوالے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ہیڈ کوارٹر کے تبادلوں میں کئی افراد کو کھڈے لائن لگا دیا گیا بعض کو دوردراز پھینک دیا گیا تاکہ ہیڈ کوارٹر میں نئے لوگ آسکیں. تبادلوں کی اس فہرست میں بعض مخصوص لوگ جن کے بار ے میں سب کو پتہ ہے کہ ہر آنیوالے کی شان میں اتنے قصیدے اور مکھن لگاتے ہیں کہ نیا آنیوالا ہرافسر اسی مکھن پر لازما پھسل جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی نظریں ان مخصوص افراد پرنہیں پڑتی جنہیں اب ہر کوئی سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کے مافیا سے تعبیر کررہا ہے اسی مافیا نے اپنے مخالف لوگو ں کو ٹرانسفرکر دیا لیکن اپنے من پسند افراد کو اہم عہدوں پر تعینات کردیا ہے تاکہ ان کا ہولڈ بھی سپورٹس ڈائریکٹریٹ پر قائم و دائم رہے چلیں یہ بات بھی قابل برداشت ہے لیکن یہ قانون "سلام سرجی "کرنے والوں پر لاگو نہیں جو اپنے رشتہ داروں کیساتھ سپورٹس ڈائریکٹریٹ پر قابض ہیں.

دو ہفتے قبل ہونے والے تبادلوں کی وجہ سے صوبے کی واحد وزارت میں کمپیوٹر آپریٹرز کو ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر کے عہدوں پر تعینا ت کیا گیا جنہیں فائل ڈیلنگ کا تجربہ تھا لیکن چونکہیہ خیبر پختونخواہ ہیں اور اسے تجربوں کی سرزمین کہا جاتا ہے شائد یہ تجربہ بھی یہی پر کامیاب ہو لیکن یہ دوسرے ڈیپارٹمنٹ کے کمپیوٹر آپریٹرز کیلئے ایسی پالیسی کیوں نہیں. دوسری طرف مخصوص افراد کی مفادات کی وجہ سے تجربے نہیں کئے جارہے کیونکہ وہاں پر " تبدیلی والی سرکار" کی اہم شخصیت کا دبائو ہے جس کے سامنے وزیراعلی خیبر پختونخواہ بھی کمزور ہیں . گھوڑے دوڑانے سے بننے والا تعلق ڈی آئی خان میں بہت زیادہ ہے یہی تعلق ڈیرہ میں ہونیوالے ڈیرہ جات میلے کیلئے مختص کئے جانیوالے چھ کروڑ کو ٹھکانے لگانے کیلئے کام ہورہا ہے گذشتہ سال ڈیرہ جات میلے کیلئے ایک کروڑ بیس لاکھ روپے رکھے گئے تھے جبکہ امسال چھ کروڑ روپے لگنے ہیں ان چھ کروڑ کے پیش نظر ڈیرہ میں تعینات سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ملازم چارج چھوڑنے کے باوجود بھی چارج نہیں چھوڑ رہے کیونکہ بات کروڑوں کی ہے جبکہ ظاہر یہ کیا جارہا ہے کہ ضلعی انتظامیہ امسال ہونیوالے ڈیرہ جات میلے کو بہترین کراانا چاہتی ہیں اور ان میلہ جات کو گذشتہ سال اچھے انداز میں کروایا گیا تھا اس لئے ڈیرہ جات کے میلے کے بعد تبادلہ ممکن ہوگا.اس لئے اب تبادلے کے باوجود بھی وزیراعلی کی سپورٹس ڈائریکٹریٹ سمیت سیکرٹری سپورٹس اور ڈی جی سپورٹس بھی تبادلوں پر خاموش ہیں اور یہ خاموشی صرف ڈیرہ اسماعیل خان تک محدود ہیں. سوشل میڈیا پر ڈیرہ کے مقامی کھلاڑیوں کے احتجاج کی بڑی باتیں آئی کہ ایک مخصوص شخصیت کے کہنے پر مبینہ طور پر چھ کروڑ روپے کو ہضم کرنے کیلئے تبادلے کے ااحکام پر عملدرآمد نہیں کروایا جارہا ہے .جس میں بیورو کریسی بھی ملوث ہے.

یہی صورتحال پشاورسپورٹس کمپلیکس میں بھی تبادلے کے بعد بنی ہے ہیڈ کوارٹر میں اکائونٹ کے شعبے سے وابستہ شخصیت کو ایڈمنسٹریشن کی طرف تو بھیج دیا گیا مگراکائونٹ کا کام خراب ہونے کی وجہ سے تبدیل ہونیوالے شخصیت کو یہ کہہ کر واپس بلا لیا گیا ہے کہ آپ بے شک اکائنٹ میں کام کریں لیکن یہ ظاہر کریں کہ آپ ایڈمنسٹریٹر کے طور پر کام کررہے ہیں. واقفان حال یہی بتاتے ہیں کہ نئے ڈائریکٹر جنرل کو کام ٹھیک کرنے کے نام پر مخصوص افراد اپنے مقاصد کیلئے استعمال کررہے ہیں اور ڈی جی سپورٹس خیبر پختونخواہ استعمال ہورہے ہیں .اور نزلہ کلاس فور پر گر رہا ہے لیکن ان کلاس فور پر جن کا کوئی پوچھنے والا نہیں جن کے رسائی مخصوص مافیا تک ہے وہ آج بھی مزوں میں ہیں.

استعمال تو لاکھوں روپے حیات آباد سپورٹس کمپلیکس میں بھی ہوئے جس کی آمدنی کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں اسی بناء پر سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ چھ ماہ میں سال 2018-19 اور سال 2019-20 کی آمدنی کا کوئی ریکارڈ فراہم ہی نہیں کرسکی ہیں. اور اس پر ابھی تک خاموشی چھائی ہوئی ہیں .لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ سال 2018-19 میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخوہ سے حیات آباد سپورٹس کمپلیکس میں مینٹیننس کے نام پر چار لاکھ اسی ہزار روپے جبکہ سال 2019-20 میں مینٹیننس کے نام پر چار لاکھ چار ہزار چار سو ستائیس روپے نکالے گئے تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ مینٹننس کہا ں پر ہوئی اور اس کی تفصیل کیا یہ معلومات بھی رائٹ ٹو انفارمیشن کے تحت آئی ہیں اور وہ بھی اگست 2021 کو دی جانیوالی درخواست کے بعد متعدد ریمائنڈر کے بعد ملی ہیں اور یہ بھی ادھوری ہے.

ادھورا چارسدہ کا عبدالولی خان سپورٹس کمپلیکس ہے جہاں پر متعدد کھیلوں کے کوچز ڈیوٹی دینے سے گریزاں ہیں کام چلائو پالیسی کی وجہ سے اوپر سے نیچے تک خاموشی چھائی ہیں کیونکہ اس خاموشی میں سب کا کام چل رہا ہے . حالانکہ چارسدہ کے عبدالولی خان سپورٹس کمپلیکس کو ڈی جی سپورٹس خیبر پختونخواہ خود آئیڈیل قرار دے چکے ہیں لیکن اس آئیڈیل کمپلیکس میں کوچز نہیں اور جو ہیں ان سے کام لینے کی کسی میں ہمت نہیں ' ہاکی کے آسٹرو ٹرف پر کروڑوں روپے لگے ہیں لیکن کوچ موجود نہیں ' فٹ بال کا کوچ نہیں ' لان ٹنیس ' بیڈمنٹن اور سکواش کے کھلاڑیوں کی تربیت کیلئے کوچ ہے مگر وہاں پر شائد جانا ان کے شان میں گستاخی ہے ہاں یہ الگ بات ہے کہ بیڈمنٹن کے پچاس سے زائد ممبرجو چارسدہ میں ہیں وہ منتیں کررہے ہیں کہ انہیں کوچ فراہم کیا جائے سکواش اور لان ٹینس کے کھلاڑی کم ہیں مگر یہ وہاں کی انتظامیہ اور کوچز کی ذمہ داری ہے جو نئے کھلاڑیوں کو لائیں مگر انہیں یہ ڈیوٹی کون سمجھائے .ان کے مقابلے میں ہری پور جہاں پر بہت زیادہ خاموشی تھی میں نئے تعینات ہونیوالے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے اہلکار نے ایک ماہ سے کم وقت میں مختلف کھیلوں کی سرگرمیاں شروع کردی ہیں جس سے وہاں پر کھیلوں کی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں اور نوجوان مثبت سرگرمیوں کی جانب راغب ہورہے ہیں جو قابل تحسین ہے.
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 498015 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More