گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ صحافت جس
میں الیکٹرانک اورپرنٹ میڈیا دونوں شامل ہیں ریاست کے سب سے اہم ستون کاروپ
دھارتی چلی جا رہی ہے۔اور اس وقت صحافت ایک ایسے مقام پر پہنچ چکی ہے کہ
جہاں لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے تک کا کارنامہ بھی سرانجام دینے میں کوئی شرم
اورجھجھک محسوس نہیں کی جارہی ۔میرا مطلب یہ نہیں کہ صحافت پر پابندی لگادی
جائے بلکہ میرا مقصد یہ ہے کہ صحافت کو بھی کچھ قومی، اخلاقی ومعاشرتی حدود
کاپابند ہوناچاہئے ۔صحافی کاکام کسی بھی وقوعہ کی رپورٹنگ کرنایازندگی کے
مختلف شعبہ جات سے منسلک افراد پر کڑی نظر رکھ ان کی غیر قانونی و غیر
اخلاقی سرگرمیوں کوپرکھنا اور اسے ضبط تحریر میں لانااورعوام الناس و
حکمرانوں کو اس سے آگاہ کرناہے ۔دوسرے لفظوں میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایک
صحیح صحافی کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے پر چیک اینڈ بیلنس کے نظام کے تحت
نظر رکھے جہاں جو خرابی دیکھے اس کی رپورٹنگ کرے ،اس پر اپنے تاثرات یا
اپناتبصرہ تحریر کرے اوراسے متعلقہ اشخاص ،عوام الناس اورحکومت کے ایوانوں
تک پہنچانے کی کوشش کرے۔ اس طرح صحافی اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر اپنے
ادارہ کی خدمت کے ساتھ ساتھ ایک عظیم قومی خدمت بھی سرانجام دے
سکتاہے۔کیونکہ صحافی کی ذمہ داریوں میں یہ شامل ہے کہ وہ کسی بھی بات کو
یاغیر معمولی کاروائی کو اپنی ذاتی نظر سے دیکھنے کی بجائے قومی ذمہ داری
کی نظر سے دیکھے ،اُسے اجتماعی مفادات کی کسوٹی پر پرکھے اوراصلاح احوال کی
نیت سے اس کی رپورٹنگ کرے، اس پر تبصرہ کرے اور لوگوں کو دعوت فکر دے ۔بجز
اس کے کہ وہ ذاتی مفادات ،اپنی پسند وناپسند اور وقتی فوائد کے حصول کیلئے
کسی بھی معاملہ میں فریق بناپھرے،لوگوں کی پگڑیاں اچھالتاپھرے یا پھرناجائز
طورپر الزامات تراشیوں اوربہتان بازیوں کاایک لامتناہی سلسلہ شروع کر دے جس
کااختتام کچھ لے دے کے اصول کے تحت ہو۔کیونکہ دیکھاگیاہے کہ ایسا کردار
اپنانے والے صحافی وقتی طورپرتوخوش حال ہوجاتے ہیں مگر وہ اپنا کردار کھو
دیتے ہیں ۔انکی پہچان ایک بلیک میلر سے زیادہ کبھی بھی نہیں ہوپاتی ۔ایسے
صحافیوں سے بیگانے توبیگانے اپنو ں کو بھی گھن آنے لگتی ہے ۔اورایسی کالیں
بھیڑیں جہاں اپنی ذاتی رسوائی کاباعث بنتی ہیں وہاں وہ صحافت جیسے مقدس
پیشہ کو بھی بدنام کروانے اورلوگوں کو صحافت پر انگلیاں اٹھانے کاموقع دینے
کاسبب بنتی ہیں ۔
صحافی اورصحافت درحقیقت عوامی ترجمان ہوتے ہیں۔آج سے کچھ عرصہ قبل اخباری
نمائندے،رپورٹرز ، کالم نگار یاتبصرہ نگار اتنی اہمیت رکھتے تھے کہ ان کی
تحریر یں حکومتی پالیسیوں کوبدلنے اورعوامی رویوں میں تبدیلی لانے کاباعث
بنتی تھیں۔مگر جیسے جیسے صحافت میں کالی بھیڑیں وارد ہوتی گئیں یا ماضی کے
صحافیوں کی سوچیں بدلتی گئیں اور ان کے دل ودماغ قومی واجتماعی احساسات سے
نابلد ہوتے گئے۔ مشترکہ مفادات کی جگہ ذاتی مفادات اورحق گوئی وحق بیانی کی
جگہ دولت کی ہوس نے لے لی تو اس کے ساتھ ہی صحافت اپنی اہمیت کھوتی چلی گئی
۔باوجود اس کے کہ ملک میں بے شمار اخبارات ،روزانہ و ہفتہ وار شائع ہوتے
ہیں ،لاتعداد پندرہ روزے اورماہنامے چھپتے ہیں،درجنوں ٹی وی چینلز آن ائیر
ہوتے ہیں ،اوران اخبارات و رسائل اورچینلزکے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں
صحافی وابستہ ہیں۔ روزانہ سینکڑوں مضامین ،کالم،رپورٹس اورخصوصی رپورٹس
شائع ہوتی ہیں، آن ائیر چلتی ہیں۔ جن میں عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کی
کوشش کی جاتی ہے ۔عوامی مسائل سے لوگوں اورحکام بالاکوآگاہ کرنے کی کوشش
ہوتی ہے،رپورٹرز اورنمائندے بڑی محنت اورجفاکشی کے ساتھ ایسی رپورٹس تیار
کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ مگر ان تمام ترکاوشوں کے باوجود عوام الناس کے
مسائل حل ہونے کی بجائے مزید سے مزید پیچیدہ ہوتے چلے جارہے ہیں ۔آخر کیوں
؟کیوں ایسا ہورہاہے کہ ہم صحافی دن رات محنت کرنے کے بعد جب کسی بھی معاملہ
کو ہائی لائیٹ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں توپھر بھی اس کاسدباب نہیں
ہوتا۔عوامی مسائل حل نہیں ہوسکتے ۔لوگوں کی مشکلات کم نہیں ہوپاتیں۔آخر
کیاوجہ ہے کہ ملک کے ہزاروں بلکہ لاکھوں صحافی اپنے تئیں محنت کوشش کرنے کے
باوجود عوامی مسائل حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوپارہے؟اس کی ایک وجہ توصحافی
برادری کے اپنے اندر موجود کالی بھیڑیں ہیں۔جو حکام کی توجہ اصل مسائل سے
ہٹاکر دوسری طرف مرکوز کرنے کی ذمہ داریاں نبھانے میں اتنے مشتاق ہیں کہ
صحیح صحافی سوچ اورسمجھ بھی نہیں سکتے کہ ان کی محنت ودن رات کی انتھک
کوششوں سے تیار کی گئی رپورٹس اتنی جلدی کیسے غیر مؤثر ہوگئیں۔
یہ ساری تمھید لکھنے کی وجہ ایک اشتہار ہے جو کافی دنوں سے ایک قومی اخبار
میں چھاپاجارہاہے اوروقفے وقفے سے چھپتارہتاہے ملاحظہ
فرمائیے:اشتہارمیںلکھاہے ”ہم صرف دو فیصد پاکستانی اپنی آمدنی پر ٹیکس ادا
کرتے ہیں اورستم ظریفی یہ کہ سو فی صد لوگ آزاد اورخود مختار پاکستان
کاخواب دیکھتے ہیں۔قول اورفعل کے اس تضاد کے ہوتے ہوئے ہم ایک مضبوط اور
آزاد قوم کیسے بن سکتے ہی؟ذرا سوچئے !“اس عبارت کو ذہن میں رکھیئے
اورملاحظہ فرمائیں کہ حقیقت کیاہے۔
گھریلواستعال کی بجلی کابل ہو یاگیس کابل اس پر جی ایس ٹی لاگوہے۔کمرشل
بلوں میں انکم ٹیکس شامل ہے ۔آپ اپنی روزمرہ کی ضروریات کی خریداری کیلئے
بازار جائیں ۔آٹا خریدیں یاچینی ،ٹوتھ پیسٹ خریدیں یا چاکلیٹ ،دال خریدیں
یاکسٹرڈ پاﺅڈر ،اس کی پیکنگ کاریپر ملاحظہ فرمائیں۔قیمت فروخت یا خوردہ
قیمت کے کالم میں اس کی قیمت کی تفصیلات درج ہوں گی ۔وہاں اصل قیمت کے ساتھ
ساتھ ٹیکس کی رقم شامل ہوگی۔موبائل فون ایک ضرورت کے طورپر اس وقت ہماری
پوری قوم کے گلے میں فِٹ ہوچکاہے ۔آپ کے پاس کسی بھی کمپنی کی موبائل سِم
ہے ،آپ نے دس روپے کالوڈ بھی کروایاتواس پر بھی ٹیکس کٹوتی ہوگی ۔آپ نے
اپنی بچت (اگر کسی طرح کرنے میں کامیاب ہوبھی گئے )سے موٹر سائیکل خریدی
تولائف ٹائم ٹوکن کے نام پر ٹیکس اداکرناپڑے گا۔حتیٰ کہ اگر آپ کے پاس
سائیکل ہے اوروہ پنکچر ہوگئی ہے اور آپ ٹائروں والے کے پاس پنکچر لگوانے
چلے جائیں توپنکچر لگانے کیلئے استعمال ہونے والاسلوشن بھی ٹیکس سے مستثنیٰ
نہ ملے گا ۔حکومت نے ٹیکس جس پر بھی لاگو کیاہے ،چاہے وہ مینوفیکچرر
ہویاٹریڈر۔اس ٹیکس کی رقم بالآخر صارف کو ہی اداکرناپڑتی ہے۔پاکستانی
صارفین نہ جانے کس کس مد میں اورکس کس شکل میں کیسے کیسے ٹیکس اداکرنے پر
مجبور کردئے گئے ہیں اورکر رہے ہیں ۔اس ساری ظلم وزیادتی کے باوجود اگر یہ
بحث چل پڑے کہ پاکستان کے دوفی صد افراد انکم ٹیکس اداکرتے ہیں تواس میں
کوئی حقیقت نہیں بلکہ بجٹ کی طرح یہ بھی الفاظ کاگورکھ دھندہ ہی کہلائے
گا۔اس کے باوجود اگر میڈیا یعنی صحافت عوامی ترجمانی کرنے کی بجائے اشرافیہ
کی زبان بولنے لگے گی تووہ اپنا اصل مقام کھودے گی ۔پھر آپ اسے صحافت کی
بجائے کوئی بھی نام دے سکتے ہیں۔اورویسے بھی پاکستان کے غریبوں کی ایسی
کونسی آمدن ہے جس پر ٹیکس نہ دینے کاآپ کو افسوس ہے؟اگر کبھی آپ کو کسی
غریب گھرانے میں رہنے کاموقع ملے توآپ کو صحیح اندازہ ہوسکے گاکہ پاکستانی
غریب کتناغریب ہے ۔پھر دیکھاجائے گا کہ یومیہ مزدوری کرنے والے مزدور پر
انکم ٹیکس کیسے لاگوکیاجاتاہے۔ریڑھی بان ،ٹھیلہ فروش ،بھٹے کے مزدور،چھابڑی
والے کی انکم کااندازہ کرنے کے بعد ہی ٹیکس کی رقم کاتعین کیاجاسکتاہے۔چلیے
ذرا ایک ایک دن ہی سہی ان غریبوں کی کٹیامیں گزار کر دیکھو کہ یہ لوگ انکم
ٹیکس کیوں ادا نہیں کرتے ۔ |