قُرآن کا قانُونِ ہدایت و قانُونِ گُم راہی !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالزُمر ، اٰیت 32 تا 37 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
فمن
اظلم ممن
کذب علی اللہ
وکذب بالصدق الیس
فی جھنم مثوی للکٰفرین 32
والذی جاء بالصدق و صدق بهٖ اولٰئک
ھم المتقون 33 لھم مایشاءون عند ربھم ذٰلک
جزاء المحسنین 34 لیکفراللہ عنھم اسواالذین عملوا
ویجزیھم اجرھم باحسن الذین کانوایعملون 35 الیس اللہ
بکاف عبدهٗ ویخوفونک بالذین من دونهٖ ومن یضلل اللہ فمالهٗ من
ھاد 36 ومن یھد اللہ فمالهٗ من مضل الیس اللہ بعزیز ذی انتقام 37
اے ہمارے رسُول ! انسانی نوع میں انسانی نوع کے اُس فرد سے زیادہ ظالم کوئی نہیں ہو سکتا ہے کہ جو پہلے اللہ پر یہ بُہتان لگاۓ کہ اُس نے انسانی حاجت روائی کے لیۓ اپنی مخلوق کے کُچھ ارکان مقرر کیۓ ہوۓ ہیں اور جب اُس کے اُس جُھوٹ کو جُھوٹ ثابت کرنے کے لیۓ اُس کے پاس سَچ آجاۓ تو وہ اُس سَچ کو جُھوٹ اور اُس سَچ کے لانے والے سَچے کو بھی جُھوٹا کہے جاۓ تو اُس مُنکر انسان کا ٹھکانا صرف جہنم ہی ہو سکتا ہے اور فیصلہ کُن بات یہ ہے کہ جس انسان نے سَچ کے آجانے کے بعد اُس سَچ کو اور سَچ سنانے والے اُس سَچے کو سَچا تسلیم کرلیا ہے تو اُس سَچے انسان کو اُس سَچ کا بدلہ دینے کے لیۓ اللہ کے پاس ہر وہ نعمت و انعام ہے جس کی اُس کے دل میں خواہش ہے اور اُس خواہش کی تکمیل کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اللہ عملِ شر کو اُس سے دُور لے جاۓ اور عملِ خیر کو اُس کے قریب لے آۓ اِس لیۓ اِس اَمر میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیۓ کہ اللہ اپنے اُس بندے کی اعانت و استعانت کے لیۓ کافی ہے جس بندے کو یہ گُم راہ لوگ اپنے خیالی خداؤں سے ڈرانا چاہتے ہیں جن کو اللہ کے سوا کوئی بھی راہِ ہدایت پر نہیں لا سکتا اور اللہ اُسی شخص کو راہِ ہدایت پر لاتا ہے جو خود راہِ ہدایت پر آنا چاہتا ہے اور اللہ اُس کی ہدایت طلبی پر اُس کو ہدایت کی توفیق دے دیتا ہے اور جو شخص اپنی ہدایت طلبی کے بعد ہدایت کی توفیق پا لیتا ہے تو اُس کو اِس راہِ ہدایت سے کوئی نہیں ہٹا سکتا اور جس شخص کو اللہ اُس کی گُم راہی کی سزا دینا چاہتا ہے تو اُس کو اُس کی سزا سے بھی کوئی نہیں بچا سکتا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا میں اللہ تعالٰی کے جو دو اَزلی و اَبدی قوانین بیان کیۓ گیۓ ہیں اُن میں پہلا مُثبت قانُون وہ سَچ ہے جو سَچ اَزل سے اَبد تک خُداۓ رحیم کا وہ پسندیدہ عمل ہے جس کو خُداۓ رحیم انسانی دلوں میں راسخ کر نے کے لیۓ ہر زمانے کے اہلِ زمین میں اپنے وہ نبی و رسُول مامور کرتا رہا ہے جو اہلِ زمین کو یہ تعلیم دیتے رہے ہیں کہ اللہ تعالٰی جو اِس ارض و سما کا تَنہا خالق ہے وہی تَنہا اِس ارض و سما کی ہر ایک مخلوق کا ایسا حاجت روا و مُشکل کشا ہے جو ثرٰی سے لے کر ثریا تک اپنی ہر چھوٹی بڑی مخلوق کو براہِ راست دیکھتا ہے ، براہِ راست اُس کی فریاد سنتا ہے اور براہِ راست اُس کی داد رسی و فریاد رسی کرتا ہے کیونکہ مخلوق کی داد رسی و فریاد رسی اُس نے اپنے اُس اَزلی و اَبدی قانُون کی رُو سے لازم کی ہوئی ہے جو اَزلی و اَبدی قانُون اُس کے زمان و مکان میں ہمیشہ سے جاری ہے اور ہمیشہ کے لیۓ جاری ہے ، اٰیاتِ بالا میں سَچ کے اِس اَزلی و اَبدی قانُون کے بعد خُداۓ رحیم کے اِس مُثبت قانُون کے مقابلے بیان کیا گیا دُوسرا مَنفی قانُون شیطانِ رجیم کا وہ اَزلی جُھوٹ ہے جو اَزل سے اَبد تک شیطانِ رجیم کا وہ پسندیدہ عمل ہے جس کو شیطانِ رجیم انسانی دلوں میں راسخ کر نے کے لیۓ ہر زمانے کی ہر مُشرک قوم کے دل میں یہ خیال راسخ کرتا رہا ہے کہ اللہ تعالٰی جو ارض و سما کا خالق ہے اُس نے اپنی مخلوق میں کُچھ ایسے برگزیدہ جن و اِنس ، دیوی و دیوتا اور فرشتے و بُھتنے پیدا کیۓ ہوۓ ہیں جو اُس کی مرضی سے عالَم میں گُھوم پھر کر اُس کی مخلوق کی دیکھ بھال کرتے رہتے ہیں اور اُن کو جہان میں جہاں کہیں بھی کوئی حاجت مند نظر آتا ہے وہ فورا ہی اُس کی حاجت روائی کرنے کے لیۓ پُہنچ جاتے ہیں اور جہان میں جہاں کہیں پر بھی کوئی ضرورت مند انسان پایا جاتا ہے وہ اُس کی ضرورت پُوری کرنے کے لیۓ فورا ہی فضا میں تِھگلی لگالیتے ہیں اور آنا فانا اُس ضرورت مند کے پاس پُہنچ کر اُس کو اُس مصیبت بچا لیتے ہیں لیکن اِن خُدا رسیدہ جنوں ، پُہنچے ہوۓ انسانوں اور ماورائی طاقتوں کے حامل دیوی دیوتاؤں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیۓ اِن کی کُچھ پُوجا پاٹ کی جاتی ہے اور اُس پُوجا پاٹ کے درمیان اُن دیوی دیوتاؤں اور اُن پیروں فقیروں کو بار بار پُکارا جاتا ہے تاکہ وہ انسان کی فریاد سُن کر فورا ہی انسان کی فریاد رسی کے لیۓ پُہنچ جائیں ، چونکہ یہ سارے برگزیدہ بزرگ زیادہ تر مندروں اور مزاروں یا بت خانوں اور آستانوں کے آس پاس رہتے ہیں اِس لیۓ اگر اِن پُہنچے ہوۓ پیروں اور بزرگوں کو مندروں مزاروں یا پیروں فقیروں کے آستانوں میں تلاش کیا جاۓ تو حاجت روائی جلدی اور یقینی ہو جاتی ہے ، اگر اہلِ حاجت کے لیۓ یہ سارے پاپڑ بیلنا مُمکن نہ ہو تو پھر گھر میں ہی کوئی چھوٹا موٹا تکیہ یا آستانہ بنالیا جاۓ اور اپنے اُس خانہ ساز تکیۓ اور آستانے میں بیٹھ کر اپنے اُن مُشکل کشا دیوی و دیوتاؤں اور اپنے اُن پیروں اور اُن مُرشدوں کو بُلا لیا جاۓ تاکہ وہ پیر و مُرشد اُن مریدوں کے گھر آکر اُن کی مَنتیں اور مُرادیں بَر لائیں ، شیطان نے انسان کو دُوسرا فریب یہ دیا ہوا ہے کہ اِس جہان میں جہاں پر جس انسان کے لیۓ جو ہدایت آتی ہے وہ اللہ تعالٰی کی ذات کی طرف سے آتی ہے اور جہان میں جہاں پر جس انسان کے لیۓ جو گُم راہی آتی ہے وہ بھی اللہ تعالٰی کی ذات کی طرف سے ہی آتی ہے اِس لیۓ ہدایت و گُم راہی کے بارے میں بھی انسان کو کُچھ زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالٰی نے جس انسان کو ہدایت دینی ہوگی اُس کو ہدایت دے دیگا اور جس انسان کو گُم کرنا مناسب ہو گا اُس کو وہ گُم کردے گا اور اسی طرح انسانی نجات بھی کسی کتابِ نازلہ کے اَحکام کے تابع نہیں ہے بلکہ اللہ تعالٰی کی رحمت و مہربانی کے تابع ہے وہ جس پر مہربانی کرے گا اُس کو جنت دے دیگا اور جس پر مہربانی نہیں کرے گا اُس کو جہنم میں ڈال دے گا ، یہی وجہ ہے کہ اہلِ روایت اٰیاتِ بالا کی آخری دو اٰیات سے یہ مفہوم کشید کرتے ہیں کہ جس شخص کو اللہ تعالٰی ہدایت دے دیتا ہے تو اُس شخص کو کوئی گُم راہ نہیں کر سکتا اور جس شخص کو اللہ تعالٰی گُم راہ کردیتا ہے تو اُس شخص کو کوئی ہدایت نہیں دے سکتا ہے ، یہ بات تو یقینا درست ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالٰی ہدایت دے دے تو اُس کو کوئی گُم راہ نہیں کر سکتا اور جس شخص کو اللہ تعالٰی گُم راہ کر دے تو اُس کو کوئی ہدایت نہیں دے سکتا لیکن قُرآنِ کریم کی تعلیمات کے مطابق انسان کی ہدایت و گُم راہی سے اللہ تعالٰی کا کُچھ لینا دینا نہیں ہے ، ہدایت و گُم راہی کے بارے میں سُورَةُالرعد کی اٰیت 27 میں قُرآنِ کریم کا یہ قانُونِ مُطلق بیان کردیا گیاہے کہ { ویھدی الیه من ینیب } یعنی اللہ تعالٰی ہدایت اُسی شخص کو دیتا ہے جو ہدایت لینے میں اپنی دل چسپی دکھاتا ہے لیکن جو شخص ہدایت میں دل چسپی نہیں دکھاتا تو اُس پر زور زبردستی کی کوئی ہدایت بھی مُسلط نہیں کی جاتی اور قُرآنِ کریم نے سُورَةُالاَنبیاء کی اٰیت 35 میں اِس اَمر کی وجہ یہ بتائی ہے کہ { ونبلوکم بالشر والخیر فتنة } یہ دُنیا تُمہارا وہ کمرہِ امتحان ہے جس میں تُم نے اپنی عملی ہدایت اور اپنی عملی گُم راہی کا ہر ایک ثبوت اپنے عملِ خیر و شر سے بذاتِ خود پیش کرنا ہے ، اِس کام میں اللہ تعالٰی ہر انسان کی صرف یہ مدد کرتا ہے کہ جو انسان اللہ تعالٰی سے ہدایت چاہتا ہے تو اللہ تعالٰی اپنی ہدایت کی توفیق کو اُس کے موافقِ حال کردیتا ہے اور جو انسان گُم راہی پر ہی جینے اور گُم راہی پر مرنے کے لیۓ ہی بضد ہو جاتا ہے تو اللہ تعالٰی گُم راہی کی توفیق کو اُس کے موافقِ حال کردیتا ہے کیونکہ اللہ تعالٰی نے انسان کو آزاد ارادے اور آزاد عمل کا حامل بنایا ہے اِس لیۓ جو انسان جس مُثبت یا مَنفی عمل کا بذاتِ خود ارادہ کرتا ہے تو اُس انسان کو اُس کے اُسی ذاتی ارادے پر عمل کرنے کی ایک عملی توفیق دے دی جاتی ہے اور اِس عملی کی میزانِ عمل اللہ تعالٰی کی اُس کتاب کی وہ تعلیم ہے جو کتاب ہے آخری بار محمد علیہ السلام پر نازل ہوئی ہے ، جہاں تک اٰیاتِ بالا کے نفسِ مضمون کا تعلق ہے تو اُس میں یہ اَمر واضح کیا گیا ہے کہ جو انسان اِس کتاب کی تکذیب کرتا ہے تو وہ ایک ہی وقت میں اللہ تعالٰی کے صدقِ ذات کی ، اُس کے رسُول کے صدقِ ذات کی اور اُس کی کتاب کے صدقِ ذات کی تکذیب کرتا ہے اور وہ اپنی اِس تکذیب کے اِن تینوں حوالوں سے اللہ تعالٰی کا مُجرم اور اُس کی مقررہ سزاۓ جُرم کا مُستحق ہو جاتا ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 461073 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More