اللہ تعالی نے انسان کو تخلیق کیا تو اس کی ہدایت و رہنماٸی کابندوبست کیا
انبیا ٕ و رسل کو بھیجا انسان کو علم عطا ٕ کیا اللہ رب العزت کی عطا کردہ
نعمتوں میں سے علم ایک عظیم نعمت ہے جس کی اہمیت و افادیت سے کسی کو انکار
نہیں لیکن اس کو حاصل کرنے میں جن مصائب و آلام اور دشوارگزارگھاٹیوں کا
سامنا کرنا پڑتاہے۔ اسے وہی جانتے ہیں جن کے قدم اس راہ میں پڑے ہوں۔ العلم
نور علم ایک نور ہے۔ علم قیمتی موتی ہے۔ علم ایک ایسی دولت ہے جس کے حاصل
کرنے کے بعد انسان خود کو دوسرے انسان سے قدآور محسوس کرتا ہے۔
علم کی ترویج و اشاعت میں صدیوں سے مدارس کا کردار اہم رہا ہے مدارس
اسلامیہ اور دینی تعلیم لازم و ملزوم ہیں۔ مدرسہ کا نا م سنتے ہی ذہن و
دماغ میں ایک خوشبو سی محسوس ہو تی ہے اور دل بھی خوشی محسوس کرتا ہے۔ دینی
تعلیم ہی ایک ایسی تعلیم ہے جو انسان کو انسان بنا تی ہے۔ ہر زمانے اور ہر
معا شرے میں تعلیم کا حصول ایک جزولاینفک ہے ۔مدارس اسلامیہ صفہ کے مشعل کی
وہی شمعیں ہے جہاں قال اللہ و قال الرسول کی روشنی بکھیری جاتی ہے، جہاں
دینِ اسلام، علم و عمل کے تحفظ اور بقا کی فکریں گردش کرتی رہتی ہیں، جہاں
مادیت کے اس تاریک دور میں شمعِ ایمانی کا چراغ روشن رہتا ہیں، شرعی احکام
و اقدار اور اسلامی روایات کی حقیقی روح کو برقرار رکھا جاتا ہے
تعلیم کو ایک منفرد بنیادی مقام حاصل ہے۔ تعلیم کی اہمیت شاید مسلمانوں کو
بتانے کی ضرورت نہیں ؟ جس کی مذہبی کتاب قرآن کریم کی شروعات ہی’’
اِقْرَاْ بِا سْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَق‘‘ ہوئی۔ اللہ کی لاریب کتاب قرآن
کریم کی با اعتبار نزول سب سے پہلی آیت کریمہ یہی ہے اور سب سے پہلی نعمت
بھی جو اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب اور اپنے بندوں پر انعام کی اور یہی وہ
پہلی رحمت ہے جوارحم الر احمین نے اپنے رحم وکرم سے ہمیں دی۔ تعلیم کی
اہمیت و فر ضیت کا اندازہ سورہ الر حمن کی ابتدا ئی آیات سے آپ بخوبی لگا
سکتے ہیں۔ سورہ کا آغاز’’الرحمٰن‘‘ سے کیا گیا۔ معاً بعد اپنی بے شمار
نعمتوں اور نواز شوں کا ذکر کیا گیا۔ ان میں سب سے پہلی نعمت’’علم القر
آن‘‘ یعنی تعلیم قرآن کو کہا۔ پھر انسان کی تخلیق وپیدائش کے ذکر کے بعد
تعلیم القرآن کا دور آتا ہے۔تعلیم کے بغیر انسان کی تخلیق بے معنیٰ وبے
مقصد ہے۔ رب العالمین نے غار حرا کے تا ریک گو شوں میں سب سے پہلے علم کا
درس دیا۔
ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا،
آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا۔
آج اس صاحب کردار کی باتیں ہوں گی
ان کی گفتار ان کی رفتار کی باتیں ہوں گی
جو جلاتا تھا اندھیوں میں محبت کے چراغ
آج اس روشنی کے مینار کی باتیں ہوں گی
اس دنیا فانی میں ایسی شخصیات وجود پذیر ہوتی رہتی ہیں کہ جن کا زندگی کا
اکثر وقت دنیا کی فلاح و بہبود کے لئے گزرتا ہے وہ جو رحمت بن کر آتی ہیں
جو اپنوں سے ،مساکین سے ، غرباء سے اور یتیموں سے غموں کو دور کرتی ہیںجن
کی زندگی کا مقصد دوسروں کی زندگی کے لئے آسانیاں پیدا کرنا ہوتاہے۔ مشکلات
کو دور کرنا ہوتا ہے۔جو ہر ایک سے خندہ پیشانی سے پیش آنے والے ہوتے ہیں۔جو
ہر مصیبت ،آفت و بلا پریشانی میں دوسروں کی مدد کرنے والے ہوتے ہیں جو
اپنوں سے کیا بلکہ غیروں سے بھی حلم و برد باری سے پیش آنے والے ہوتے ہیں۔
جن کے وجود میں اخلاص و محبت کوفضلاء و مدرسین کے سروں پر دست شفقت رکھنے
والے ہوتے ہیں۔انہی شخصیت میں ایک عظیم شخصیت خادم العلم والعلماء،
منظورنظرِ اولیاء، محبوبِ صوفیاء، محبِ اتقیاء، صاحبِ وفا، فقر کا بادشاہ،
حقیقی دیندار، مرشد کی آنکھ کا تارا اور دعاؤں کا مرکز، غیروں کی محفل میں
بھی جن کا ذکرِ خیر ہوتا ہے، میری آنکھوں نے اپنے دیکھنے کے قابل رشک لمحات
میں جن شخصیات کو دیکھا اورسماعتوں نے اپنے ذخیرہ شنوائی میں جن آوازوں کو
مقید کرنے پہ ناز کیا ان میں ایک شخصیت اور ایک سچی ، بے لوث شخصیت جامعہ
کے عظیم محافظ، عزم و استقلال کا پہاڑ، روحانی اولاد سے حقیقی اولاد کی طرح
محبت کرنے والے، فقیر حاجی محمد رفیق وارثی رحمة اللہ علیہ جہنوں نے ساری
زندگی طلبا ٕ کے لیے وقف کی جہنوں نے ہمیشہ طلبا ٕ اور اساتذہ کی ضرورتوں
پورا کرنے میں مگن رہے ادارے اور علاقے کی ترقی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے ان
کی با کمال شخصیت کو آپ کی روحانی اولاد کی طرف سے خراج عقیدت و محبت پیش
کرنے کے لیے 12 فروری 2022 کو مرکزِ علم و عرفان جامعہ قادریہ وارثیہ میرا
شمس تحصیل گوجرخان میں خوبصورت علمی و روحانی سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔
جس میں طلبا ٕ کی کثیر تعداد معززین علاقہ اور مقتدر و جید علما کرام کی
کثیر تعداد نے شرکت کی
محفل کا آغاز تلاوت کلامِ ربّانی سے ہوا، مختار کون و مکاں خاتم النبیین
امام المرسلین صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے دربار گوہر بار میں عقیدتوں و
محبتوں کا نذرانہ پیش کیا گیا۔ بعد ازاں سر زمینِ مصر سے تشریف فرما
الدکتور محمد مجاھد حفظہ اللہ اور الدکتور خالد عبد النبی عبد الرزاق حفظہ
اللہ جو کہ علم و حکمت کی درسگاہ انٹرنیشنل اسلامی الازھر یونیورسٹی میں
ڈاکٹریٹ ڈگری کے لیکچرار ہیں؛ نے عربی زبان کے انتہائی شُستہ لہجے میں علم
کی اہمیت و فضیلت اور انسانی زندگی کے روحانی پہلؤوں پر مسحور کُن گفتگو
فرمائی۔
اردو زبان و ادب میں عوام الناس کو زندگی کا حقیقی مقصد سمجھانے کے لیے
ہردلعزیز اور محبوب مبلّغِ اسلام جناب قبلہ علامہ حفیظُ اللہ مصطفائی صاحب
(ادارة المصطفٰی انٹرنیشنل) کا انتخاب بہت بامقصد رہا، جناب نے احسن انداز
میں مقصد تخلیق انسانی کو بیان کیا
مصطفاٸی صاحب نے ادارہ کا وزٹ کیا اور معاملات دیکھنے کے بعد ناقابلِ بیان
مسرّت کا اظہار فرمایا۔
ادارے کی کارکردگی کو سراہا ادارے کے لیے دعاوں سے نوازا
آخر میں یادگارِ اسلاف علم و حکمت کے بحر بیکراں پیکراخلاص و محبت استاذ
العلما ٕ استاذی المکرم علامہ فیاض احمد نظامی (پرنسپل جامعہ قادریہ
وارثیہ) نے عالمِ اسلام کی امن و سلامتی کے لیے خصوصی دعا فرمائی۔
چادر پوشی اور لنگر کے ساتھ یہ پروگرام اختتام پذیر ہوا۔
محفل میں جامعہ کے اساتذہ، طلباء، شاہین صفت علماء، علاقہ بھر کی مقتدر
اہلِ علْم شخصیات اور دور دراز سے بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم،
تو نے وہ گنج ہاۓ گراں مایہ کیا کیے؟
اللہ کریم حاجی صاحب کے درجات بلند فرمائے اور حضور ضیاء الاُمّت، بابا
اللہ شیر شہید اور فقیر عزت شاہ وارثی رحمھم اللہ کے اِس گلستاں کو ہمیشہ
سر سبز و شاداب رکھے، آمین
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کر ے
|