چُھٹی کا دن اور لزبن شہر کا رومانٹک موسم۔ دل مچلنے لگا
کہ چل نندنی کہیں باہر جایا جائے سو میں چڑیا گھر کی سیر کو چلی گئی، تو
وہاں کچھوے سے ملاقات ہوئی، وہ اسی رفتار سے چل رہا تھا جس رفتار سے کئی
سال سے ہماری تنخواہ چل رہی ہے، یعنی ایک ہی جگہ کھڑا تھا۔
میں نے پوچھا، بھائی کہانی میں تو آپ مستقل مزاجی سے چلتے رہتے ہیں اور ریس
جیت جاتے ہیں، یہاں خرگوش کی طرح لمبی تان کر کیوں سو رہے ہیں؟
کچھوا مایوسی سے بولا، نندنی میڈم! میں چلتا رہوں یا رک جاؤں۔ منزل مجھے
ملنی ہے نہ ہی خرگوش کو۔
قریب کے پنجرے میں خرگوش بھی ہماری باتیں سن رہا تھا۔ کہنے لگا، منزل چاہے
نہ ملے لیکن چھلانگیں وغیرہ لگانے سے بندے کی ٹور شور بن جاتی ہے۔
ساتھ والے پنجرے سے بندر بولا، چھلانگیں تو میں بھی بڑی بڑی لگاتا ہوں،
میری ٹور کیوں نہیں بنتی؟
خرگوش نے کہا، جو ایک ہی جگہ کھڑا ہو کر چھلانگیں لگاتا رہے، اس کی ٹور
نہیں بنتی، جو چھلانگ لگا کر آگے بڑھ جائے اس کی بن جاتی ہے۔
|