گزشتہ چند دہائیوں سے ہر سال 14؍ فروری کو دنیا کے
بیشتر ممالک میں وینٹائن ڈے دھوم دھام سے منانے کا سلسلہ چل رہا ہے ۔مغربی
ممالک کے بعد مشرقی ملکوں میں بھی وینٹائن ڈے منایا جانے لگا ہے ۔ یہ سلسلہ
ایک مسیحی راہب سینٹ وینٹائن کے نام سے منسوب ہے ۔ لیکن کئی چرچ کے راہبوں
نے ایسے خرافات یادگار دن کی مذمّت کی ہے ۔اس لئے کہ اس یوم کے نام پر جنسی
بے راہ روی اور فحاشی بڑھتی ہے ۔ ویلنٹائن ڈے کے سلسلے میں بہت ساری
روایتیں اور حکایتیں پیش کی جاتی ہیں ۔ کئی کہانیاں مشہور ہیں لیکن ان میں
سے کو ئی بھی مستند نہیں ہے ۔ دراصل وینٹائن ڈے کے نام پر امریکہ ، یوروپ
اور مشرقی ممالک میں 1700 سال قبل کی ایک قدیم روایت کو زندہ رکھنے اور یاد
رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ کئی واقعات میں کون سا واقعہ حقیقت سے قریب ہے
، یہ حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا ہے ۔ ویسے ویلینٹائن ڈے جو لوگ منا رہے
ہیں وہ اس کی حقیقت سے واقف ہیں اور نہ ہی اس کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔
روایت ہے کہ رومن بادشاہ کلاڈیس کا یہ خیال تھا کہ چونکہ شادی کر نے سے مر
دوں کی طاقت، جسم‘ عقل اور قوت، فیصلہ کرنے میں کمی کا باعث بنتی ہے، اس
لئے اس کے فوجیوں کو شادی نہیں کرنی ہے۔ لیکن سینٹ ویلنٹائن نے اس حکم کے
بر خلاف ہزاروں فوجیوں کی شادی کرادی۔جس کی پاداش میں14؍ فروری کو راجہ نے
اسے پھانسی کی سزا دے دی۔ اسی طرح کی ملتی جلتی ایک کہانی یہ بھی مشہور ہے
کہ رومی بادشاہ کلاڈیس کو جنگ کے لئے اپنا لشکر تیار کرنے میں مشکل پیش آ
رہی تھی ۔ اس نے اس کا سبب معلوم کرنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ شادی شدہ
لوگ اپنے اہل و عیال اور گھر بار چھوڑ کر جنگ میں جانے کو تیا نہیں ہوتے
ہیں ۔ اس بات سے خفا ہو کر بادشاہ نے شادی ہی پر پابندی لگا دی ۔ لیکن سینٹ
ویلنٹائن نے اس شاہی حکم نامے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بہت سارے لوگوں کی نہ
صرف شادی کرا دی بلکہ خود بھی شادی کر لی ۔ جس کی پاداش میں بادشاہ نے اسے
پھانسی کی سزا دے ڈالی ۔ اس سزا سے لوگ متاثر ہوئے اور ہر سال سینٹ
ویلنٹائن کی سزا کومحبت کی یاد گار کے طور پر منا یا جا نے لگا۔ بعد میں
اُسے لو سیلیبریشن (Love Celebration) کا نام دے دیا گیا ۔اسی مغربی تہذیب
کی بھونڈی نقالی گزشتہ کچھ برسوں سے مختلف ممالک کے نوجوان کر رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پیار و محبت احساس کا نام ہے۔ دو جسم کا ملن پیارنہیں۔ Love
Celebration کے لئے ہمارے ملک مثالیں بھری پڑی ہیں، مجنوں فرہاد‘ قیس اور
سب سے بڑھ کر پوری دنیا کیلئے ہمارے یہاں محبت کی عظیم نشانی’ تاج محل ‘ہے۔
لیکن مغربی تہذیب کی بھونڈی نقالی ہمارے ملک کا شیوہ بن گیا ہے اور اس
نقالی میں اخلاقی زوال کا پورا منظر نامہ ہم اپنے ملک میں بہت قریب سے دیکھ
رہے ہیں ۔ ویلنٹائن ڈے کے موقع پر ملک کے کروڑوں روپئے کے قیمتی تحفے ،
تحائف ، پھول اور گلدستے نوجوان لڑکے ، لڑکیوں کے ذریعہ پیش کیا جاتا ہے ۔
بڑے شہروں کے چھوٹے ،بڑے ہوٹلوں میں کروڑوں روپئے کی شراب کی سرمستی کا
رومانی جوڑے لطف اٹھاتے ہیں ۔ ساتھ ہی ساتھ نائٹ کلبوں میں وہ سب کچھ ہوتا
ہے ۔جس کی مہذب ملک میں بہر حال اجازت نہیں ہوتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ عہد
حاضر کی consumar society میں پیار محبت کے پاک اور مقدس رشتے کو بھی
صارفیت کی نذر کر دیا گیا ہے ۔ محبت کے تقدس کو ایسی بھوندی نقالی کے نام
پر پامال اور رسوا کیا جا رہا ہے ۔ جب کہ سچائی یہ ہے کہ عشق احساس اور جز
بہ ہے اس کی کو ئی شکل و صورت نہیں اسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے، معشوق کے
چہرے کی تاز گی اور شادابی کو دیکھنا ہے، تو کھِلے ہوئے خوبصورت پھو لوں کو
دیکھو، اس کی آواز کو سننا ہو تو گر تے جھر نے کی متر نم آواز کو سنو۔اس کی
انگڑا ئیوں میں جو مد ہو شی ہو تی ہے، اس کی اداؤں میں جور دلفریبی ہو تی
ہے، اس کی مخمور نگاہوں میں جو سحر ہو تا ہے، اس کی آمد کے انتظار میں جو
اضطراب ہو تا ہے اور اس کے آتے ہی با غوں میں باد صبا کا ایسا احسا س ہو تا
ہے،جس سے پوری ففا ایک خاص خوشبو سے معطر ہو جاتی ہے، اس کے صندلی جسم کی
خوشبو ہواؤں میں بکھر جا تی ہے۔ دو د ھیا چاندنی میں نہایا اس کا پیکر۔ جس
لمحہ شر ما تے ہو ئے، گبھرا تے ہو ئے سامنے آکر کھڑا ہو جا تا ہے، ان لمحوں
کو اپنی آنکھوں میں ‘اپنے دل و دماغ میں قید کر نے کو جی چاہتا ہے۔لیکن عشق
و محبت کے نام پر فحاشی جس طرح فروغ پا رہی ہے ، وہ کم از کم ہمارے ملک کے
تہذیبی اقدار کے برعکس ہے ۔کہا جا رہا ہے کہ نفرت میں محبت کے نام پر یہ دن
اہمیت رکھتا ہے ۔ تو اس کا جواب یہ دیا سکتا ہے کہ محبت کسی ایک دن کی
محتاج نہیں ہے ۔ محبت تو وہ جذبہ ہے جسے جتنا لُتاؤ اس میں اس سے کہیں
زیادہ اضافہ ہوتا ہے ۔ امریکہ اور یوروپ میں وینٹائن ڈے کی معنویت کو ضرور
وسعت سے دی گئی ہے اور اسے میاں بیوی یا عاشق اور معشوق تک محدود نہیں رکھا
گیا ہے بلکہ آپسی رشتوں میں بھی اسے شامل کر لیا گیا ہے ۔ لیکن مشرقی ملکوں
میں عام طور پر اس یوم کو عاشق و معشوق تک ہی محدود ہے ۔ جس کی وجہ کر
ویلنٹائن ڈے کے موقع پر’ لو سیلیبریشن ‘کے نام پر جس طرح فحاشی اور عریانیت
عام ہو رہی ہے ۔ جو یقینی طور پرملک کے تہذیبی اقدار کے خلاف ہے ۔ ملک کی
چند سیاسی جماعتیں بجرنگ دل اور ہندو مہا سبھا وغیرہ مخالفت ضرور کر رہی
ہیں ۔ لیکن ان کی مخلفت کا جو انداز ہے ، وہ غنڈہ گردی کی حد تک بڑھ جاتی
ہیں ۔ جس کے باعث نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کے درمیان ان برائیوں سے دور
ہونے کی بجائے ان کے اندر مذید برحمی اور احتجاج کی کیفیت پیدا ہو تی ہے ۔
یوں بھی ہمارے ملک میں فحاشی عام ہوتی جا رہی ہے ۔ حجاب لگانے پر پہرے
بٹھائے جا رہیں اور ہما قریشی اور ان جیسی عورتوں کی تصاویر عام ہو رہی ہیں
۔ ابھی چند روز قبل میں دہلی گیا تھا ، جہاں کی دہلی یونیورسٹی سے دوسری
جگہ جانے کے لئے میٹرو ریل پر سوار ہونے کے لئے جب میں میٹرو کی سیڑھیوں سے
اتر رہا تھا ، تو دیکھا کہ ہر سیڑھی پرنوجوان لڑکا ، لڑکی کا جوڑا بوس و
کنار میں مشغول ہے ۔ یہی صورت حال میٹرو کے اندر بھی دیکھنے کو ملا ۔ آج کی
نوجوان نسل میں شرم و حیا بھی مفقود ہو چکی ہے ۔ اپنی تہذیب ، ثقافت ،
قدروں کا انھیں ذرا بھی پرواہ نہیں ہے ۔ بے حیائی، بے شرمی اور فحاشی عام
ہے ۔ جن کے منفی نتائج اکثر وبیشتر قتل اور خودکشی کی شکل میں ہمارے سامنے
آ رہے ہیں ۔
ایسے ہی منفی اثرات دیکھ کر پاکستان کے اسلامآباد ہائی کورٹ نے عوامی
مقامات پر ویلنٹائن ڈے منانے پر پابندی عاید کر دی تھی ۔ لیکن اس پابندی کا
اثر وہاں بھی کم ہی دیکھا جا رہا ہے ۔ دوسری طرف سعودی عرب میں جہاں
وینٹائن ڈے پر پابندی کی سختی تھی۔ لیکن اب سختی کو نرمی میں بدل دیا گیا
ہے اور 2020 ء سے ولی عہد محمد بن سلیمان کا سعودی عرب مو معتدل بنانے کے
عزم کے تحت اب ویلنٹائن ڈے سے بھی آگے نکلنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
اس بہت نازک ، لیکن سنگین مسئلہ پر بہت سنجیدگی سے غور و فکر کرتے ہوئے ان
پر قد غن لگانے کی کوشش بہت ضروری ہے ۔ ورنہ جو صورت حال ہے ، وہ مغربی
ممالک کی برباد ہوتی ہوئی قدروں اور تہذیب سے بہت قریب ہو جائینگے ، جو
مشرقی ممالک کی شاندار تہذیبی روایا ت اور قدروں کے منافی ہوگا ۔
|