”ابّا پریشان ہیں، گھر میں جاکے کچھ مانگنا
نہیں۔“ کسی بچّی کی آواز میں یہ جملہ سُن کر مَیں چونکا، پلٹ کر دیکھا تو
ایک آٹھ نو سال کی بچّی اپنی پانچ چھ سال کی چھوٹی بہن کو بڑوں کی طرح
سمجھا رہی تھی۔ چھوٹی بچی اسکول یونی فارم میں تھی، جس سے سمجھ میں آرہا
تھا کہ وہ اسے اسکول سے گھر لے جا رہی تھی۔.... غور کیجیے تو یہ ہمارے گھر
گھر کا المیہ ہے، گھر گھر کی کہانی ہے۔ ہر گھر کے ابّا پریشان ہیں۔ وجوہات
مختلف ہوسکتی ہیں، لیکن ان سب کی جڑ بنیاد مہنگائی کا عفریت ہے، جو ہر ابّا
کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ حال ہی میں گورنمنٹ نے سوئی گیس، ڈیزل، کیروسین کی
قیمتیں بڑھا کر پریشانیوں میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ کسی بھی حکومت کا کام
عوام کی فلاح و بہبود ہوتا ہے، لیکن ہندوستانی حکومت کا کام غریبوں کو
لوٹنا اور امیروں کی جیبیں بھرنا ہے۔ دھن، دھونس اور دھاندلی کے حربے
استعمال کرکے نیتا بننے والے لوگ جب کرسی پر قابض ہو جاتے ہیں تو ان کا ایک
نکاتی پروگرام یہی ہوتا ہے کہ کس طرح لوٹ کھسوٹ، گھپلوں اور گھوٹالوں کے
ذریعے جلد سے جلد اپنے بینک بیلنس میں اضافہ کیا جائے۔
آج ضروریاتِ زندگی، علاج اور تعلیم اس قدر مہنگے ہوگئے ہیں کہ عام آدمی کے
لیے جینا دشوار ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئے دن خود کشی کے واقعات سامنے
آرہے ہیں۔ ....ایک طرف یہ عالم ہے تو دوسری طرف حکومت تعیشّاتِ زندگی سستی
و ارزاں کرتی جارہی ہے۔ موبائل فون، ٹی وی، ریفریجریٹر، ائیر کنڈیشنر، لیپ
ٹاپ، موٹر بائیک، کار وغیرہ الیکڑانک کی جدید مصنوعات اس قدر ارزاں اور سہل
الحصول ہوگئی ہیں کہ پیسے نہیں تو آسان قسطوں پر یعنی قرض میں بھی دستیاب
ہیں۔ جبکہ روٹی کھانے کے لیے کوئی اِدارہ یا فرد آپ کو ایک پیسہ اُدھار
دینے کو تیار نہیں ہوگا۔ حکومت کی یہ دوغلی پالیسی آخر کب تک؟ حکومت کے
انہی کرتوتوں نے آج ہندوستان کو دنیا بھر میں غریبی میں دوسرے نمبر لاکھڑا
کیا ہے۔
ان سب حالات کے باوجود وطنِ عزیز کی جنتا بے حد صابر و شاکر واقع ہوئی ہے۔
وہ حکومت کی طرف سے لادے گئے ہر بوجھ کو برداشت کرنے کی بڑی اعلیٰ صلاحیت
رکھتی ہے، اور برداشت کرلیتی ہے۔ اور کچھ دن مظاہروں اور نعروں کے بعد
دوبارہ سے اپنے کام پر لگ جاتی ہے۔ یہاں انّا ہزارے جیسے بیسیوں سماج سدھار
کا ”برت“ بھی وقتی اُبال سے زیادہ کوئی اثر نہیں دکھا سکتا۔ ایسے میں ہم یہ
مشورہ تو نہیں دے سکتے کہ مصر، لیبیا .... مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کی طرح
عوام حکومت کے خلاف کمر کس لیں اور تختہ پلٹنے کی کوشش کریں۔ اس لیے کہ
یہاں نام نہاد ”جمہوریت“ ہے، جس میں حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو، کام وہی
کرے گی جو پہلے سے ایک طے شدہ ڈھانچہ بنادیا گیا ہے۔
اس لیے ہم عوام کو، جنتا کو، ہر ابّا کو یہی مشورہ دیں گے کہ وہ اپنی زندگی
میں سادگی کو اپنائیں۔ بلکہ یہ مشورہ ہمارا نہیں، چودہ سو سال پہلے دینِ
فطرت عطا کرنے والے، جینے کا صحیح ڈھنگ سکھانے والے، انسانیت کو اعلیٰ
معراج پر پہنچانے والے ہم غریبوں کے غم خوار ، دوجہاں کے تاجدار ﷺ کا فرمان
ہے۔ اس لیے اس میں کسی شک و شبہے کی گنجائش ہی نہیں کی جاسکتی۔
آج ہمارے معاشرے میں مادیت پرستی اور ریاکاری بہت عروج پر ہوگئی ہے۔ گھر
میں کھانے پینے کی تکلیف ہوگی، لیکن ٹی وی اور کیبل کے بغیر زندگی گزارنا
گویا ناممکن ہے، مہنگے سے مہنگے جدید موبائل فون بلاوجہ ہماری زندگی کی
ضرورت کیوں بن گئے ہےں؟ موبائل کا اصل مقصد اور استعمال صرف دور دراز کے
لوگوں سے رابطے کے لیے ہے، اس کے لیے چار پانچ سو کے موبائل فون بھی کافی
ہیں۔ آج عام گھروں میں بھی ایئر کنڈیشن لگے نظر آتے ہیں، جبکہ ۰۵ سال قبل
ہمارے اجداد بجلی کے بغیر (جس سے پنکھا چل سکے) مزے سے زندگی گزارتے تھے۔
ٹی وی پر فضول ڈرامے دیکھ دیکھ کر عورتیں آئے دن اپنے فیشن بدلتی رہتی ہیں
اور بلاوجہ پیسوں کا ضیاع کرتی رہتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر ہمارے یہاں شادی
بیاہ میں اس قدر فضول خرچی بلکہ عیاشیاں ہوتی ہیں جس کی کوئی حد نہیں، غریب
سے غریب آدمی بھی اپنی شان دکھانے کے لیے پیسے نہیں تو قرض لے کر اسرافِ
بیجا کرتا نظر آتا ہے، پھر زندگی بھر قرض کی ادائیگی کے لیے کولہو کے بیل
کی طرح زندگی کی گاڑی گھسیٹتا رہتاہے۔
آپ سادہ زندگی اپناکر اپنی تمام دنیاوی پریشانیوں سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔
پھر کسی بچی کو یہ کہنے کا موقع نہیں ملے گا کہ ”ابّا پریشان ہیں“۔ |