شہرت انفرادیت سے حاصل کیجئے


تحریر: ذوالفقار علی بخاری
ہر انسان کی خواہش ہے کہ دوسرے انسان اُس کے بارے میں جانیں۔ ہم انسانوں کے معاشرے میں رہتے ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے سے کچھ الگ کرنے پر ہی مخصوص شناخت مل سکتی ہے۔
ارسطو کہتا تھا کہ انسان سماجی جانور ہے، تو پھر ہمیں سماج میں رہنے کے طور طریقے بھی خوب آنے چاہئیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بارے میں لوگ جانیں تو پھر ہمیں کچھ منفرد کر کے دکھانا پڑے گا۔ ہم جس بھی شعبے میں کام کرتے ہیں وہاں کچھ ایسا کرنا ہو گا کہ لوگ ازخود ہمارے بارے میں جاننے کے لئے بے تاب ہو جائیں۔ جس طرح سے مختلف کھیلوں میں چند کھلاڑی مخصوص کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو اپنی ایک الگ پہچان بنا لیتے ہیں تو اسی طرح سے کوئی بھی شخص کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ ہو کر بھی اپنی مخصوص پہچان بنا سکتا ہے۔
اگر آپ کسی دفتر میں کام کرتے ہیں تو اپنی فرض شناسی سے بھی خود کو دوسروں سے بہترین ثابت کر سکتے ہیں۔ اگر آپ لوگوں کے مسائل کو حل کراتے ہیں تو بھی آپ ایک نیک دل فرد کہلائے جا سکتے ہیں۔ آپ حکیم محمد سعید مرحوم اور عبدالستار ایدھی مرحوم کی مثالیں سامنے رکھیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ یہ کس قدر قدآور شخصیات تھیں جنہوں نے اپنے کام سے رہتی دنیا تک اپنا نام روشن کر دیا ہے۔ آپ اس میں قائداعظم محمد علی جناح کی مثال بھی سامنے رکھ لیں کہ ہم کہتے ہیں کہ فرد واحد کچھ نہیں کر سکتا ہے مگر ایک خود اعتمادی سے بھرپور شخصیت نے برصغیر کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ اگر آپ لکھاری ہیں او رلکھ رہے ہیں اور لکھتے جا رہے ہیں تو یہ بہت خوشی کی بات ہے۔ لیکن یہ ضرور پریشانی والی بات ہے اگر برسوں لکھنے کے باوجود بھی آپ اپنی الگ اور منفرد پہچان نہیں بنا سکے ہیں۔ ہر لکھاری کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ کچھ ایسا لکھے جس کو خوب سراہا جائے اور اُس کے حوالے سے ادبی محفلوں میں بات ہو۔ اس کے لئے ضروری یہ ہوتا ہے کہ آپ کچھ ایسا لکھیں یا کوئی ایسا ادبی کام کریں جس سے آپ ادبی حلقوں میں ''منفردشخصیت'' کے طور پر جانے جا سکیں۔
اگر آپ انفرادی طور پر اپنی ذات کی پہچان نہیں بنوا سکیں گے تو پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کے بعد آنے والے ادیب/لکھاری آپ سے آگے نکل جائیں اور آپ تب یہ سوچیں کہ آپ سے ایسی کیا غلطی سرزد ہوئی ہے جو آج تک آپ نامور ادیبوں کی فہرست میں شامل نہیں ہو سکے ہیں۔ آپ ایسے موضوعات پر لکھنے کی کوشش کریں جس پر کوئی کم لکھتا ہے۔ اس سے یہ ہو گا کہ ایک خا ص حوالے سے آپ کو یاد رکھا جا سکے گا اور اسی کی بدولت آپ نظروں میں آ جائیں گے کہ سب سے پہلے اس حوالے سے آپ نے کام کیا تھا۔ راقم السطور اکثر ادیبوں کو اسی حوالے سے اکثر بیشتر یہی عرض کرتاہے کہ ''انفرادیت کے حامل بنیں۔'' شاعری ہو یا افسانہ نویسی یا تبصرہ نگاری آپ اُن شخصیات اورکتب پر اپنی رائے دیں، جو واقعی شاندار ہوں جس کو پڑھنے سے لوگوں کوکچھ حاصل ہو سکے تاکہ قارئین اُن کے حوالے سے پڑھ سکیں۔ آپ کی سوچ بھی آپ کو اُجاگر کرتی ہے۔ اس حوالے سے مختلف موضوعات پر اپنی رائے کا اظہار کرتے رہیں۔ یہ اظہار بے لاگ ہونا چاہیے اگر اس میں غیرجانبداری کا عنصر شامل ہو گا تو یہ آپ کی ایک مخصوص پہچان بھی بنوا سکتی ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اگر آپ نے جانبداری سے کسی بھی موضوع پر کام کیا تو پھر آپ کی وہ قدروقیمت نہیں ہو گی جو کہ غیرجانبداری سے ادبی کام کرنے پر آپ کو حاصل ہو سکتی ہے۔ یہ بھی ایک اہم نقطہ ہے کہ جانبداری سے اپنی رائے کا اظہار بھی آپ کو ایک مخصوص حلقے میں قید کر دیتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ آپ آزاد رہیں اور اپنی آزادی سے تخلیقی کام کرتے رہیں۔ آپ دوسروں کو باتیں کرنے دیں، چاہے وہ جو بھی آپ کے خیالات اور کام کے بارے میں کہتے رہیں۔
آپ نقاد حضرات کی مثبت باتیں جو آپ کے کام آ سکتی ہیں اُن کو اہمیت دیں، دیگر کو نظر انداز کر دیں۔ آپ کے ادبی میدان میں کارہائے نمایاں ازخود آپ کے مقام کو متعین کر دے گا آپ کو اس حوالے سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگرچہ شہرت کا حصول آج کے دور میں آسان نہیں ہے مگر چند مخصوص طریقہ کار ایسے ہیں جن کی بدولت آپ رفتہ رفتہ مشہور ہو سکتے ہیں۔ اس کی ایک مثال کچھ یوں بتاتے ہیں کہ کراچی سے شائع ہونے والا ماہ نامہ ''انوکھی کہانیاں'' اور ''نٹ کھٹ'' دیگر بچوں کے رسائل سے آپ بیتیاں شائع کر کے بازی لے گئے۔ ''پھول'' اپنی منفرد شناخت اور معیار کی وجہ سے آج ایک ایسا رسالہ بن چکا ہے جس میں کہانی یا مضمون شائع ہونا قابل فخر بات ہے۔ اسی طرح سے آپ مخصوص کردار پر حامل کہانیاں لکھ کر بھی اپنی ایک پہچان بنا سکتے ہیں۔ آج سب عمران سیریز کے کرداروں، عمرو عیار، ٹارزن، سند باد جہازی کو یاد کرتے ہیں تو اُن کے خالق کون تھے کی بات بھی ہوتی ہے۔ اسی طرح سے ''جی بوائے''، ''باکسر بھیا'' کے کرداروں کے خالق امجد جاوید صاحب کا تذکرہ ہوتا ہے۔ آج کے مشہور کردار ''ہیری پوٹر'' کی مثال تو آپ کے سامنے ہے کہ اُس پر فلمیں تک بن رہی ہیں۔ اسی طرح سے ہالی ووڈ میں ''جیمز بانڈ'' کا کردار بھی مشہور ہے۔ آپ شاعری کے میدان میں ''جون ایلیا'' اور ''راحت اندوری'' کے مشاعرے میں اشعار پڑھنے کے انداز کو دیکھیں تو آپ کو محسوس ہو گا کہ دونوں ایک ہی شعبے یعنی شاعری میں اپنے اپنے فن میں کتنی فنکاری کا مظاہر ہ کرتے تھے جس کی وجہ سے ایک دنیا اُن کی دیوانی تھی۔ آپ اداکاری کے شعبے میں دیکھ لیں ''ندیم'' اور ''امیتابھ بچن'' کے مقابلے میں کس طرح سے ''نوازالدین صدیقی'' اپنی ذات کو اُجاگر کرکے فلمی دنیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ایک زمانے میں وحید مراد اورراجیش کھنہ نے لاکھوں دلوں پر خوب راج کیا ہے ، وجہ صاف ظاہر ہے کہ وہ اپنی منفرد شناخت قائم کرنے میں کامیاب رہے تھے۔
آج سے سوچ لیں کہ آپ نے اب تک جو لکھا ہے اُس کے بعد آپ ایسا کیا لکھیں کہ آپ کی پہچان آج سے لاکھ درجہ اچھی اورتادیر قائم رہنے والی ہو سکے۔ آپ خود کو اُجاگر رکھنے کے لئے نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ دیگر ذرائع ابلاغ کا بھی خوب استعمال کیجئے۔ یہ آپ کی صلاحیتوں کو نہ صرف سامنے لائے گی بلکہ ایک مخصوص پہچان دلوائے گی۔ اگرکتب شائع کرنے والے ناشران بھی انفرادیت کے حامل قلم کاروں کی کتب سامنے لائیں تو وہ بھی انہی کی بدولت مزید ساکھ مستحکم بنا سکتے ہیں۔ آپ کو یہ بات بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ نامور ادارے محض آپ کو تب ہی بھرپور مواقع فراہم کرتے ہیں جب کچھ ایسا سامنے لاتے ہیں جو کہ اُن کو بھی خوب نمایاں کرنے والا ہوتا ہے یعنی آپ کی بدولت دوسروں کا بھی بھلا ہو رہا ہو تو پھر آپ کی بھی خوب حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اس لئے یہ نہ سوچیں کہ آپ میں کچھ خاص نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو چند مخصوص صلاحیتیں عطا کی ہوئی ہیں جس کو اچھی طرح سے استعمال کرلیا جائے تو انسان اپنا مقام ازخود اُونچا کر سکتا ہے۔ آپ اس کی مثال یوں بھی دیکھ سکتے ہیں کہ جس طرح سے گلاب کی خوشبو دیگر پھولوں سے جدا ہوتی ہے اور وہ اپنے رنگ سے دور سے پہچان لیا جاتا ہے تو اسی طرح سے انفرادیت کا حامل فرد بھی نمایاں ہو جاتا ہے۔ اس لئے اپنی انفرادیت قائم کیجئے تاکہ شہرت بھی ملے اورکامیابی پر بھی لوگ رشک کریں۔

بشکریہ روزنامہ شہباز، پشاور
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 394 Articles with 526158 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More