وجود کے بعد زندگی کا سفر شروع ہوتا ہے ماں کی گود سے وہ
گود جس کی مَمتا رحمت و نعمت دونوں کیلیۓ يكساں سی ہے اور یہ انصاف رب
للعالمین کے بعد ماں ہی کرنے سے واقف ہے -
جب انسان اپنی زندگی کے پہلے حصّے میں ہوتا ہے تو وہ نہ تو بولنے کی
استطاعت میں ہوتا ہے نہ تو چلنے کی۔ اگر سادہ الفاظ میں کہوں تو وہ پورا کا
پورا والدین کی شفقتوں کا محتاج ہوتا ہے۔ ایک چلنے سے بولنے تک سب ہی کچھ
ہمیں عظیم والدین کی انتھک محنت سے ہی حاصل ہوتا ہے ۔
چلنے و بولنے کے سکھانے کا سفر جوں ہی ختم ہوتا ہے سلیقہ داری اگلے ہی منزل
پر تیار بیٹھی ہوتی ہے اور پھر والدین اپنی اولاد کو اس منزل سے بھی پار
لگاتا ہوا اِن کی زندگی کی ناؤ کو اگلی مراحل کی جانب رواں دواں کرتا ہوا
آہستہ آہستہ انہیں زندگی کے تمام اچھے ، بُرے کا سبق دیتا ہوا اس کنارے پر
لاکھڑا کرتا ہے کہ جو تربیت کی صورت میں ہمیں اور آپکو دکھائ دیتی ہے۔
یوں ہی گھڑی کا کانٹا ایک بار پھر اپنا دورانیہ مکمل کرتا ہوا شروع ہوتا ہے
مگر اب سفرِ امتحان اولاد کے لیۓ ہے کہ وہ اپنے والدین کی خدمات کا صلہ کس
صورت میں واپس کرتا ہے۔
والدین کی محنت کا صلہ انہیں تب ملتاہے کہ جب وہ اپنے سکھاۓ ہوئے تمام عمل
کو اولاد کے اندر پائیں اور اُن پر عمل پیرا ہوتا ہوا دیکھیں اور والدین كے
رخصتی فرائض تک اولاد کس قدر ہر اچھے و بُرے وقتوں کا سامنا کرتا ہوا اپنے
فرائض کی ادائیگی سے جنّت کا دروازہ و پوری جنّت اپنے نام کرتا ہوا اس بات
کا ثبوت دے کہ والدین کی خدمت کا صلہ واقعی جنّت ہے ۔
آج یہ جو راحتیں دِکھ رہیں ہیں تم کو شان
یہ سب ایک دو دن کی کاوش کا صلہ نہیں ہے |