ایک دوسرے کے کام آنا ایک اچھے معاشرہ کی تشکیل کا نقطہ
آغاز ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں اکثریت خط غربت سے نیچے ز ندگی بسر کر رہی ہے،
بنیادی حقوق تک سے محروم ہیں۔ ا نسان کی ضروریات میں صحت، تعلیم، لباس اور
طعام و قیام ہے مگر ہمارے ملک میں زیادہ تعداد ان سے بھی محروم ہے، آج کے
پرُ فتن دور میں ایسے اداروں کا قیام بے حد ضروری ہے جو خدمت خلق فلاحی اور
سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، اسلام کے عملی تعارف کے لئے خدمت خلق
کا میدان سب سے پسندیدہ اور موثر عمل ہے۔ ایسے میں قابل تحسین ہیں وہ لوگ
جو لوگوں کے دُکھ درد سمیٹنے اور ا ن میں آسانیاں بانٹنے کے لئے عملی طور
پر سرگرم رہتے ہیں۔ سلمٰی بہادرایک ایسی خاتون، جنہوں نے معذوروں کی دیکھ
بھال کو اپنی ز ندگی کا مشن بنایا ہواہے۔ جب وہ تین سال کی تھیں تو ا نہیں
پولیو ہوگیا تھا یہی وجہ تھی کہ وہ زیادہ عرصے تعلیم حاصل نہیں کرسکیں۔ وہ
میٹرک کے فوراًبعد اپنے آپ کو مصروف رکھنے کیلئے سماجی کاموں میں حصہ لینے
لگی تھیں اور پھرانہوں نے ارادہ کیاکہ اپنا پورا وقت اپنے جیسے لوگوں کیلئے
وقف کردیں گی۔
سلمی بہادر کے مطابق انہوں نے اپنی ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد انہوں نے ری
ہیبلٹیشن ٹریننگ سیشنزمیں حصہ لیا اس دوران وہاں پر دوسرے ممالک سے بھی لوگ
آئے ہوئے تھے جب انہوں نے میرا جذبہ دیکھا اور میری دلچسپی دیکھی تو اپنے
ساتھ کام کرنے کی پیشکش کی۔ بس وہ دن اور آج کا دن ہے میں نے کبھی پلٹ کر
نہیں دیکھا۔ میرا پہلاکام کراچی کے محتلف علاقوں کا سروے کرنا تھا کچھ
علاقے ایسے تھے جہاں جا نا بھی مشکل تھا وہ علاقے جرائم و منشیات مافیاز کے
زیر اثر تھے۔ وہ سماجی کام کرنے والوں کو آنے بھی نہیں دیتے تھے وہاں سماجی
کام کر نے والوں کو تنگ کیا جاتا تھا۔جہاں سے ہم نے کام شروع کیا ان میں
عیسی نگری،دستگیر، لیاری، سعیدہ آباد، ملیرجیسے متوسط طبقے کے علاقے تھے
یہاں کہ لوگ ذہنی و جسمانی معذور بچوں کو بیکار سمجھتے تھے ان کو کسی ادارے
میں تعلیم و تربیت کیلئے نہیں بھیجتے تھے۔ ہم نے یہاں سروے کرنا شروع کیا
کہ یہاں کتنے لوگ ہیں جو کسی نا کسی معذوری کے ساتھ زندگی گزاررہے ہیں۔ ہم
نے محلہ محلہ جاکر معلومات حاصل کی اور پھر کام شروع کیا۔ فیلڈ میں ہمیں
منشیات فروشوں کے علاوہ عام لوگوں کی طرف سے بھی مثبت رسپانس نہیں ملتا تھا
کیو نکہ اس وقت ہم کم عمر تھے لوگ ہماری بات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے تھے
شروع میں مشکلات کا سامنا ہوا، لوگ غلط غلط باتیں کرتے تھے بری نظروں سے
دیکھتے تھے ہمیں لاچار سمجھ کر فائدہ اٹھا نے کی کوشش کرتے تھے مگر میں نے
کبھی کسی جگہ ہمت نہیں ہاری، بسوں میں سفر کیا لوگوں کے طعنے سنے، کئی بار
اتنی دلبرداشتہ ہوئی کہ دل چاہ سب کچھ چھوڑ دو کیو کہ مجھے اپنی بے بسی پر
خود ترس آ ے لگتا تھا لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں تھا۔ اسکے بعد ہم نے سعیدہ
آباداور بلدیہ ٹاؤن میں کام شروع کیا کئی بار ایسا ہوا کہ لوگوں نے ہمیں
ڈرایا دھمکایا کہ آئندہ اس علاقے میں نہ آنا ور نہ واپس نہیں جا سکوگی لوگ
سمجھتے تھے کہ ہم ان کے بچوں کو ان سے چھین لے گے کئی بار لوگوں نے الزام
لگایا کہ ہم بچوں کو لے جاکربیچ دے گے مگر میں صرف اسپیشل بچوں کے مستقبل
کے لئے سب کچھ سہتی رہی، اوراپنے کام سے مخلص رہی، اسی دوران کئی بار مجھے
راستے میں روک کر لوگوں نے ڈرایا دھکمایابولا کہ تم این جی او والوں کے
ساتھ نہ آیا کرو مگر ہم نے اپنا کام کرنا نہیں چھوڑا صرف ان بچوں کی ز ندگی
بہتر کر نے کے لئے دھمکیوں اور مشکلات کے باوجود اپنے مقصد کو نہیں چھوڑا۔
اسی دوران ٹریننگ کیلئے مختلف ممالک بھی گئی۔ انہوں نے اپنے ادارے کی بنیاد
رکھی اور" امید گاہ "کے نام سے اپنا ادارہ قائم کیا۔ آج امید گاہ میں 55
طالبعلم ہیں ا ن کا ماننا ہے کہ اسپیشل بچے جوہوتے ہیں انہیں ہمیشہ توجہ
چاہیے ہوتی ہے۔ امید گاہ میں پڑھ ے والے بچے پڑھائی کے ساتھ ساتھ غیر نصابی
سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ ان کے ادارے کی اچھی بات یہ ہیکہ وہاں
والدین اور نوجوانوں کی بھی ذہن سازی کی جاتی ہے جس کیلئے محتلف سیشنز کا
انعقاد کیا جاتا ہے۔ جس میں نوجوانوں کو ایک دوسرے کے ثقافت کو سمجھنے اور
ا ن کے احترام کی ترغیب بھی دی جاتی ہے کیو نکہ معاشرے میں جب تک عدم
برداشت کو کم نہیں کیا جائیگا تب تک مساوات و رواداری جگہ نہیں بنا سکتی۔
سلمی بہادر اب تک بین الاقوامی اداروں کےساتھ ملکرسینکڑوں نوجوانوں کی
تربیت کرچکی ہیں۔ ان کے متعدد طالب علم اسپیشل اولمپک میں بھی حصہ لے چکے
ہیں جبکہ شہر میں ہونے والی دیگر سرگرمیوں کا بھی حصہ بنتے رہتے ہیں، ان کا
کہنا تھا کہ یہ میری کامیابی ہے کہ اپنی محنت اور لگن سے اس ادارے کو چلا
رہی ہوں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میری جو زندگی ہے وہ کسی اور کی زندگی بہتر
بنانے میں کام آرہی ہے۔ آج بہت سارے نوجوان ہیں جو اپنی زندگی کو بہتر
طریقے سے گزار رہے ہیں اور اپنی نئی زندگی شروع کرچکے ہیں اور یہ میرے لئے
ایک بڑے اعزاز کی بات ہے کہ میں نے ان علاقوں سے نوجوانوں کو نکال کر تربیت
کی جہاں منشیات و دیگر جرائم کی وجہ سے لوگ وہاں جانا بھی مشکل سمجھتے تھے
اور آج وہی نوجوان اپنے مستقبل ملک و قوم کیلئے مصروف عمل ہیں۔
|