پانی یا تعلیم؟

پانی جیسی کوئی نعمت نہیں، اس کا کوئی نعم البدل نہیں۔

بعض اوقات آپ کو کسی جگہ ایسے لوگ میسر آ جاتے ہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ انہی لوگوں سے ملنے ہی تو آئے تھے، اللہ نے انہی سے ملانے کے لیے آپ کو یہاں بھیجا تھا۔ ایسی ہی ایک شخصیت مجھے جامعہ کراچی میں میسر آئی۔ انتہائی مشفق اور قابلِ احترام معلمہ میڈم تبسم افضل، جو اکثر اپنے تجربات کی روشنی میں بہت کچھ سکھاتی رہتی ہیں اور ان کے الفاظ کی بازگشت کلاس کے بعد بھی سماعت میں گونجتی رہتی ہے۔ ایک دن تعلیمی منصوبہ بندی کے مختلف نظریات زیرِ گفتگو تھے۔ دورانِ بحث وہ ہمیں اپنے ماضی میں لے گئیں اور ان علاقوں کی بابت بتانے لگیں جہاں وہ تعلیمی سہولیات مہیا کرنے کے لیے سفر کرتی رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سندھ میں ایسے لوگ موجود ہیں جو کشتیوں پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ لوگ پانی میں ہی زندہ ہیں اور ان کی حیات کا دار و مدار اسی پانی پر ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ پانی آلودہ ہوتا جا رہا ہے۔ جنوبی سندھ اور جنوب مغربی بلوچستان سے بڑی مقدار میں فاضل مادہ اس جھیل میں بہا دیا جاتا ہے جس کے باعث پانی خراب ہوتا جا رہا ہے اور پانی میں زندہ رہنے والے ان انسانوں کی زندگیاں خطرات کا شکار ہو گئی ہیں۔ آلودہ پانی کی وجہ سے مچھلیاں نا پید ہوتی جا رہی ہیں جس کے سبب اس جگہ کے لوگوں کی آمدنی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ مزید یہ کہ آلودہ پانی پینے کے باعث یہاں بسنے والے لوگ جلد اور معدے کے مختلف امراض کا شکار ہیں۔ ایسے لوگوں کو تعلیم پر آمادہ کرنا از حد مشکل امر ہے۔ میں نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ 2020 میں اکٹھی کی جانے والی معلومات کے مطابق اس جگہ تقریباً 450 افراد آباد ہیں جن میں سے صرف تین زیرِ تعلیم ہیں۔ تعلیم حاصل کرنے کے لیے انہیں سیہون کے علاقے میں جانا پڑتا ہے اور آنے جانے کے سفر میں اچھا خاصہ وقت صرف ہو جاتا ہے۔

میڈم کی گفتگو کو ذہن میں رکھتے ہوئے ذرا سوچیے، پانی کا ہم سب کی زندگی میں کیا مقام ہے؟ کبھی ایک دن اگر ایسا آ جاۓ جب پانی نہ ملے تو زندگی دو بھر ہو جاتی ہے۔ طرح طرح کے جتن کیے جاتے ہیں کہ کسی طور پانی میسر آ جاۓ۔ روزے میں ہمت بے شک اللہ رب العزت کی جانب سے ہوتی ہے مگر افطار کرتے ہی اکثر لوگ پانی کے جگ کے جگ پی جاتے ہیں۔ یہ ہے اس نعمت کا مقام، پانی جیسی کوئی نعمت نہیں، اس کا کوئی نعم البدل نہیں۔

یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اگر کل دنیا کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا جاۓ تو اس کے دو حصے صرف پانی سے گھرے ہوۓ ہیں اور باقی ماندہ ایک حصہ خشکی ہے۔ ایک تحقیق یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ پورے کرہء ارض پر 71 فیصد پانی ہے۔ اتنی وافر مقدار میں پانی موجود ہونے کے باوجود بھی یہ بات اپنی جگہ موجود ہے کہ دنیا کی اکثر آبادی پانی جیسی عظیم نعمت سے محروم ہے۔ اور اگر ان لوگوں کی بات کی جاۓ جو صاف پانی سے محروم ہیں تو تعداد اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ مگر اس موضوعِ گفتگو کو آج چھیڑنے کی کیا وجہ ہے؟ کیا آج پانی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے؟ نہیں۔ لیکن یہی ہمارا اصل مسئلہ ہے۔ ہر چیز کی بات اس کے دن کی مناسبت سے کی جاۓ۔ اگر ماؤں کا عالمی دن ہے تو ماں سے محبت کا اظہار کیا جاۓ، اگر باپوں کا عالمی دن ہے تو باپ کو سلام پیش کیا جاۓ، استاد کا عالمی دن ہے تو استاد کی تعریف و تحسین کی جاۓ اور اگر پانی کا عالمی دن ہے تو پانی کی ایک ایک بوند کو ترسنے والوں کے غم کو سمجھا جاۓ اور ان کا دکھ بانٹا جاۓ۔ افسوس ہے، وہ لوگ جو سارا سال پانی کے مختلف مسائل کے باعث تڑپتے رہتے ہیں، صرف ایک دن ان کی خبر گیری کرنے سے ان کے مسائل میں کیا کمی آ سکتی ہے؟
گزشتہ چند ماہ سے میں ایک ایسے پروجیکٹ کی منصوبہ بندی کے لیے جد و جہد کرنے میں مصروف ہوں جو تھر پارکر میں پانی کی فراہمی سے متعلق ہے۔ اس میں شمولیت کے بعد سے اکثر اوقات یہ خیال ذہن میں جڑ پکڑنے لگتا ہے کہ ہم کیسے اپنی زندگیوں میں مصروف ہیں اور اس بات سے بالکل ناواقف ہیں کہ ارد گرد موجود اللہ کے بندے کس اذیت میں زندگی گزار رہے ہیں؟ تھر پارکر میں ایسے گاؤں موجود ہیں جہاں دور دور تک پانی کا کوئی نام و نشان نہیں ہے اور رہائشیوں کو پانی کے حصول کے لیے میلوں چلنا پڑتا ہے۔ یہ مشقّت اکثر عورتیں اور بچے اٹھاتے ہیں۔ یہ آواز ضرور اٹھائی جاتی ہے کہ بچوں سے کام نہ کرائیں، انہیں تعلیم سے آراستہ کریں۔ بات سو فیصد درست ہے۔ لیکن بھلا غور فرمائیے، اگر کسی انسان کو پانی ہی میسر نہ ہو تو اس کے لیے یہ تعلیمی سندیں کیا معنی رکھیں گی؟ اگر اس کے ارد گرد لوگ آب کی ایک ایک بوند کو ترسیں تو تعلیم یا ترقی کے دیگر معاملات میں اس کی کیا دلچسپی رہ جاۓ گی؟ اگر کسی کے ارد گرد لوگ آلودہ پانی کی وجہ سے مختلف امراض کا شکار ہو رہے ہوں تو وہ تعلیم کو زیادہ اہم جانے گا یا ان لوگوں کی تکلیف دور کرنے سے متعلق سوچے گا؟ یقیناً اس کا ذہن ان تراکیب پر ہی غور کرے گا جو صاف پانی کے حصول میں اس کی مدد کر سکیں۔ پانی جیسے مسئلے کے تعلیم سے تعلق کی نفی کرنا یا اس مسئلے کے تعلیم پر اثرات کو نظر انداز کرنا ایک حماقت کے سوا کچھ نہیں۔
گو کہ پانی کا عالمی دن نزدیک ہی ہے مگر اس کا انتظار کیے بغیر اس مسئلے کے بہتر حل کے لیے کوشش آج سے ہونی چاہیے اور سارا سال ہونی چاہیے۔ پانی کا حصول اور صاف پانی کا حصول دونوں ہی ایسے مسائل ہیں جو مزید کئی مسائل کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے کئی اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ مثلاً تھر پارکر کے دیہاتوں میں کنویں کھدوانے کا مناسب انتظام کیا جا سکتا ہے اور آلودہ پانی کو صاف پانی میں تبدیل کرنے کے لیے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ اس شے کو یقینی بنانے کی سعی کی جا سکتی ہے کہ فاضل مادے جھیلوں اور سمندر کے پانی میں شامل نہ کیے جائیں۔ حکومت کے بعد یہ ذمہ داری سماجی فلاحی اداروں اور ہر شہری پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق کچھ نہ کچھ ضرور کرے۔ عام شہری اگر مالی طور پر کچھ نہ کر سکیں تو اتنا ضرور کریں کہ اس عظیم نعمت کو ضائع ہونے سے بچائیں۔ روز کتنے ہی لیٹر پانی نلوں اور پائیپوں سے رِس رِس کر ضائع ہو جاتا ہے۔ کتنی ہی بار پانی کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے اور وہ بے مقصد بہتا رہتا ہے۔ جو نعمت انسان کو آسانی سے حاصل ہو جاۓ اس کی قدر کا خیال لوگوں کے ذہنوں سے محو ہو جاتا ہے۔ آپ کچھ نہ کریں، صرف اس نعمت کو ضائع ہونے سے بچائیں۔ خود کو اور دوسروں کو اس کی قدر کا احساس دلائیں۔ اگر ہم پانی جیسے بنیادی مسائل کو حل نہ کریں تو بقول میڈم کے، ہم ارتعاش تو پیدا کر سکتے ہیں مگر مکمل طور پر سوچوں کو تعلیم کے لیے آمادہ نہیں کر سکتے۔ آپ کی کی ہوئی ایک ایک چھوٹی سے چھوٹی کوشش اللہ کے ہاں بہت بڑا اجر بن جاۓ گی۔ اللہ سے زیادہ قدر دان کون ہو سکتا ہے؟ یاد رکھیے،
کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر
خدا مہرباں ہو گا عرشِ بریں پر
 

Unaiza Ghazali
About the Author: Unaiza Ghazali Read More Articles by Unaiza Ghazali: 12 Articles with 6379 views Studying at university of Karachi, teaching Tajweed and various subjects, contributing in social work projects and living with the passion of writing .. View More