عالمی سطح پر ۸؍ مارچ کے دن یوم ِ خواتین کا اہتمام کیا
جاتا ہے۔ اس دن بہت ساری نمائشی سرگرمیوں کا اہتما م ہوتا ہے جن کی اہمیت و
افادیت سے انکار ممکن نہیں لیکن کیا اس سالانہ رسم کی ادائیگی کافی ہے؟ کیا
اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ یوم خواتین کےموقع پرسماج کے اندر عورتوں کی
حالت کا جائزہ اور احتساب لیا جائے؟ لیکن ایسا نہیں ہوتا کیونکہ ہمارے
اعصاب پر الیکشن سوار رہتا ہے۔ پانچ صوبوں کے انتخابات ختم ہوئے تو ایکزٹ
پول آگئے یعنی عوام کے لیے ایک نئی مصروفیت کا اہتمام ہوگیا۔ ان مضحکہ خیز
ایکزٹ پول کے مطابق اترپردیش میں بھی بی جے پی کی حکومت بن رہی ہے۔ ویسے یہ
ماضی میں غلط ثابت ہوتے رہے ہیں مگر درست بھی نکل جاتے ہیں اس لیے انہیں
پوری طرح خارج نہیں کیا جاسکتا۔ خیر ہر کھیل کا نتیجہ ہار یا جیت ہوتا ہے
اس لیے پھر سے یہی ہوگا۔ کوئی جیتے گا اور کسی کے حصے میں شکست آئے گی۔
کسی گرمی نکلے گی اور کوئی ٹھنڈا ہوجائے گا مگراس کے لیے دس مارچ تک انتظار
کرنا پڑے گا۔
بی جے پی اگر اپنی ساری ناکامیوں کے باوجود انتخاب جیت جاتی ہے تو اس کا
مطلب یہ ہوگا کہ وہ عوام کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوگئی ہے کہ ریاست کے
اندر نظم و نسق کی صورتحال بہت اچھی ہے۔ اس نےسارے مسلم جرائم پیشہ افراد
کو جیل میں بھیج کر صوبے کے لوگوں کو بے خوف کردیا ہے۔پہلے کی طرح اب مظفر
نگر کے لوگوں کو مسلمانوں کےڈر سے نقل مکانی کی ضرورت نہیں ہے ۔ پوری ریاست
کی خواتین محفوظ ہوچکی ہیں اور اپنے آپ کو آگے بھی محفوظ و مامون رکھنے
کی خاطرانہوں نے پھر ایک بار کمل کھلا دیا ہے۔ ایکزٹ پول کا درست ثابت ہونا
خواتین کے حوالے سے یہ پیغام سنائے گا مگر سوئے اتفاق سے جس دن ایکزٹ پول
بی جے پی کی کامیابی کا مژدہ سنارہے تھے ذرائع ابلاغ میں مظفرنگر ضلع سے
ایک ایسی چونکانے والی خبر آگئی کہ جس نے اس مفروضے کی ہوا نکال دی لیکن
چونکہ سبھی کے اعصاب پر انتخاب سوار تھا اس لیے کوئی اس کی جانب توجہ نہیں
دے سکا ۔
مذکورہ خبر کھتولی شہر سے آئی تھی اور اس کی تصدیق چونکہ وہاں کے ایس ایچ
او نے کردی اس لیے اسے واٹس ایپ یونیورسٹی کی افواہ قرار دے کر مسترد نہیں
کیا جاسکتا ۔دھرمیندر کمار کے مطابق میرٹھ ضلع میں سردھانہ پولس تھانے کے
تحت آنے والے ایک گاوں کی طالبہ ہر روز حصول ِتعلیم کی خاطر کھتولی آتی
تھی ۔ اس کے والدین نےوزیر اعظم کے نعرہ ’بیٹی بچاو بیٹی پڑھاو‘ کے نعرے پر
عمل کرتے ہوئے کالج میں داخل کردیا ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے ’بہت ہوا
ناری پر اتیاچار ، اب کی بار مودی سرکار‘ کے جھانسے میں آکر جے پی کو ووٹ
بھی دیا ہو اس لیے کہ گزشتہ تینوں انتخابات میں مغربی اترپردیش سے بی جے پی
کو زبردست کامیابی ملی تھی۔پولس تھانے میں درج شکایت کے مطابق اس بدنصیب
طالبہ کو کالج کے دروازے سے گاڑی میں اغواء کر کے عصمت دری کی خاطر دہلی لے
جایا گیا۔
بی جے پی کا معروف بیانیہ یہ ہے کہ ہندو خواتین کے خلاف ایسے سارے مظالم
مسلمان کرتے ہیں ۔ اس پر لگام لگانے کی خاطر اس نے ’لوجہاد‘ کی روک تھام کا
قانون بنا رکھا ہے لیکن سینئر پولس افسر یہ انکشاف کرکے اس بیا نیہ کی ہوا
نکال دی کہ یہ غلیظ حرکت شیوا، ارون ،انش ، ورون اور سومیت کمار نے کی ہے ۔
اتفاق سے ان میں کوئی مسلمان نہیں ہے ، اگرایک آدھ بدمعاش ہوتا تو اسی کو
ماسٹر مائنڈ بتاکر اس پر دیگر بھولے بھالے قصور ہندو لڑکوں کو ورغلانے کا
الزام لگا یا جاسکتا تھا۔ فی الحال سارے ملزم فرار ہیں اور پولس ان کو تلاش
کررہی ہے۔ یہ ملزمین اس طالبہ کو دہلی لے گئے اور اجتماعی آبرو ریزی کی۔
اہل خانہ کی شکایت پر انہیں نامزد کرنے کے بعد مظلومہ کو طبی جانچ کے لیے
بھیج دیا گیا۔ اس سانحہ کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ نہ صرف اترپردیش میں بی جے
پی کی حکومت ہے بلکہ دہلی کی پولس بھی وزارت داخلہ کے تحت ہے جس کے سربراہ
امیت شاہ ہیں۔
ان بدمعاشوں کے دل میں اگر بی جے پی کا خوف ہوتا تو وہ شنیع حرکت ہی نہ
کرتے اور اگر یہ جرم سرزد ہوجاتا تو دہلی کے بجائے راجستھان یا پنجاب کی
طرف نکل جاتے لیکن انہیں پتہ تھا کہ کون سی پولس ان کے کام آسکتی ہے؟ اس
لیے مظفر نگر سے نکل کر سیدھے راجدھانی دہلی پہنچے۔ بعید نہیں کہ دہلی میں
براجمان سیاسی رہنماوں کا آشیرواد بھی انہیں حاصل ہو اور وہ سوچ رہے ہوں
کہ سرکار دربار کی مدد سے جان چھوٹ جائے گی۔ ان بدمعاشوں کی دیدہ دلیری کا
یہ عالم ہے کہ اس مذموم حرکت کے بعد انہوں نے طالبہ کو دھمکی دی کہ وہ کسی
کو اس بابت کچھ نہ بتائے اور اس کے بعد دہلی سے واپس میرٹھ لاکر چھوڑ گئے۔
ان بدمعاشوں کے چنگل سے آزاد ہونے کے بعد لڑکی نے والدین کو فون کرکے اپنے
اوپر ہونے والےظلم کی داستان سنائی اور یہ بات ذرائع ابلاغ میں آگئی۔
مودی جی کو یہ خوش فہمی ہے کہ انہوں نے مسلم خواتین کی مظلومیت کے خاتمہ کی
خاطر جو تین طلاق کا قانون بنایا اس کے سبب پچاس فیصد مسلمان عورتیں بی جے
پی کی حامی بن گئی ہیں حالانکہ تین طلاق کا شکار ہونے والی خواتین کی تعداد
عشاریہ پانچ فیصد بھی نہیں ہے۔ یہ دعویٰ اگر درست ہوتو انہیں مظلوم ہندو
خواتین کے تحفظ کی خاطر بھی کوئی قانون بنانا چاہیے تاکہ وہ حقیقت میں
محفوظ نہ ہوں تب بھی ان کا ووٹ بنک کو محفوظ ہوجائے کیونکہ مودی جی صرف
اترپردیش کے نہیں پورے ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ میرٹھ کی بدنصیب طالبہ تو
اپنی عزت لٹا کرصحیح سلامت اپنے خاندان میں لوٹ آئی مگر بہار کے گوپال گنج
کی کرن کو ایک ایسے سفر پر روانہ کردیا گیا جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔
اس سانحہ کی خبر بھی اسی دن آئی جب یوم خواتین کی تیاری زوروشور سے چل رہی
تھیں۔
کوٹوا گاوں کی اس بہیمیت کا انکشاف کسی اور نے نہیں بلکہ کرن کی والدہ
کلاوتی نے کی ہے۔انہوں نے بتایا ان کی بیٹی کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ مشان
تھانہ گاوں کے ایک نوجوان سے بیاہ کرنا چاہتی تھی۔ وہ لڑکا بھی راضی تھا
مگر کرن کے والد اندر دیو رام اس کی شادی کہیں اور کرنا چاہتے تھے ۔ اس لیے
پورا خاندان بچی کے خلاف ہوگیا۔ کلاوتی کے مطابق اتوار کی رات کرن کے والد
اپنے بڑے اور چھوٹے بھائی کے ساتھ گھر آئے اور مارپیٹ شروع کردی۔ اپنی
بیٹی کرن کو بچانے کی کوشش کرنے والی ماں کو بھی زدو کوب کیا گیا لیکن اس
کے بعد جو کچھ ہوا اس کو پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کلا وتی کی مانیں
تو اپنے انا کی آگ میں جلنے والوں پر ایسا شیطان سوار ہوا کہ انہوں نے
جنگلی درندوں کو بھی مات دے دی۔ اپنی جان بچانے کی خاطر اِدھر اُدھر بھاگنے
والی کرن کو تینوں بھائیوں نے دھر دبوچا۔ اپنی بیٹی کو بچانے کے لیے مجبور
ماں گہار لگاتی رہی۔ منتیں کرکرکے کرن کی جان کی بھیک مانگتی رہی لیکن کسی
وحشی کا دل نہیں پسیجا۔
کرن کے تاؤ اراگھیا رام اور چاچا امردیو رام نے کرن کے ہاتھ پیر پکڑ لیے
اور والد اندردیو رام نے سبزی کاٹنے کے لیے استعمال ہونے والے مہسول سے اس
کا گلا کاٹ دیا۔ اس بیچاری لڑکی نے جب چھٹپٹاتے ہوئے دم توڑ دیا تو قاتل
لاش کو کھیت میں پھینک کرفرار ہوگئے۔ کرن کی ماں کا بیان درج کرنے کے بعد
لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیجا گیا۔ پولس اب ان سفاک درندوں کی تلاش کررہی
ہے۔گاوں کے ایس ڈی پی سنجیو کمار نے بتایا کہ جیسے ہی پولس کو اطلاع ملی
شہر کے انسپکٹر للن کمار کی قیادت میں تفتیش کا آغاز کردیا گیا۔ کلاوتی کے
الزام پرپولس کو اعتماد ہے اور اسے توقع ہے کہ بہت جلد مجرم گرفتار ہوجائیں
گے ۔ انتخابی گہما گہمی سے قطع نظر یہ دل دہلانے والے واقعات خواتین کے
حوالے سے ہمارے سماج کی حقیقی تصویر پیش کرتے ہیں۔ یہاں نہ تو تین طلاق کا
معاملہ ہے اور نہ حجاب کا مسئلہ ہے۔ انتخابی نعروں اور الزام تراشی سے الگ
تھلگ اس تلخ حقیقت پر توجہ دینا لازمی ہے۔ خواتین اگراس طرح کےمظالم کاشکار
ہوتی رہیں تو اقتدار کی تبدیلی ایک ڈھکوسلہ بلکہ افیون سے کم نہیں جس کے
نشے میں انسان خود اپنے سے غافل ہوکر درندہ بن جاتا ہے۔ اخبارات میں چھپی
کرن کی تصویر خون کے آنسو رلاتی ہے۔ باپ ، چچا اور تاو کرن کا حفاظت کرنے
کے بجائے ایک ماں کے سامنے اس چراغ کو بجھا کر چہار جانب ظلم و جبر کی
تاریکی پھیلا دیتے ہیں۔ اس واقعہ نے ڈاکٹر ثروت زہر ا کی نظم کو پھر سے
زندہ کردیا(ترتیب میں ترمیم کی معذرت ) ؎
مجھ میں احساس کیوں ہو کہ عورت ہوں میں
زندگی کیوں لگوں؟ بس ضرورت ہوں میں
یہ مری آگہی بھی مرا جرم ہے
اور پھر شاعری تو کڑا جرم ہے
میرا آنچل جلے اور میں چپ رہوں
ظلم سہتی رہوں اور میں چپ رہوں
جانتی ہوں مرا بولنا جرم ہے
بنت حوا ہوں میں یہ مرا جرم ہے
|