جمعہ نامہ: غضب ہے اپنے ہاتھوں زندگی برباد کرتے ہیں

حجاز مقدس سے حرمین شریفین کے سبب ساری دنیا کے مسلمانوں کا فطری و جذباتی لگاو ہے۔اس لیے دیگر مسلم ممالک کے مقابلے عرب دنیا اور خاص طور پر سعودی عرب میں آنے والی تبدیلیاں اہل ایمان کو فکر مند کردیتی ہیں ۔ اس تناظر میں امریکی میگزین دی اٹلانٹک کو دیئے جانے والے انٹرویو میں سعودی ولی عہدشہزادہ محمد بن سلمان نے یہ کہہ کر چونکا دیا کہ :"ہم اسرائیل کو اپنا دشمن نہیں سمجھتے۔ ہم اسے اپنا ممکنہ اتحادی سمجھتے ہیں تاکہ مشترکہ مفادات کو مل کر حاصل کیا جائے۔ مگر وہاں تک پہنچنے کے لیے ہمیں کچھ مسائل حل کرنا ہوں گے‘‘۔ قبلۂ اول بیت المقدس اور فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے تناظر میں یہ بیان بے چین کردینے والا ہے۔اس صورتحال میں یہ آیات میں رہنمائی کرتی ہیں:’’کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے کسی بستی میں نبی بھیجا ہو اور اُس بستی کے لوگوں کو پہلے تنگی اور سختی میں مبتلا نہ کیا ہو ،اس خیال سے کہ شاید وہ عاجزی پر اتر آئیں۔ پھر ہم نے ان کی بدحالی کو خوش حالی سے بدل دیا یہاں تک کہ وہ خوب پھلے پھولے اور کہنے لگے کہ "ہمارے اسلاف پر بھی اچھے اور برے دن آتے ہی رہے ہیں" آخر کار ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا اور انہیں خبر تک نہ ہوئی‘‘۔خلیجی ممالک پر یہ بات من و عن صادق آتی ہے۔

سورۂ اعراف کی ان آیات میں حضرت شعیب ؑ کی قوم کے متضادحالات ’بد حالی اور خوشحالی‘ میں مبتلا ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایسے میں دو سوالات ذہن میں آتے ہیں ۔ پہلا تو یہ کہ قومیں خوشحالی سے کیوں نوازی جاتی ہیں ؟ اور دوسرا یہ کہ ترتیب میں بدحالی پہلے کیوں آتی ہے؟ نیز تیسری حالت خوشحالی اوربدحالی بے معنیٰ کردینے والی پکڑ ہے۔ اس ترتیب کی حکمت پہلے والی آیت میں یوں بیان ہوئی ہے کہ :’’اور شعیبؑ یہ کہہ کر ان کی بستیوں سے نکل گیا کہ، "اے برادران قوم، میں نے اپنے رب کے پیغامات تمہیں پہنچا دیے اور تمہاری خیر خواہی کا حق ادا کر دیا۔ اب میں اُس قوم پر کیسے افسوس کروں جو قبول حق سے انکار کرتی ہے" ۔یہاں پرخطیب الانبیاء حضرت شعیب ؑ کا برادران قوم کہہ کر پکارنا اپنائیت کا اظہار ہے اور پیغامبری کو خیر خواہی کہہ کر یہ بات واضح کی گئی ہے کہ رسول یا داعی اپنی قوم کے خیر خواہ تو ہوتے ہیں لیکن اتمامِ حج یعنی پیغام پہنچانے کا حق ادا کردیا گیا ہواور منکرینِ حق ساری حدود کو پھلانگ چکےہوں تو پھر افسوس کا کوئی موقع نہیں ہوتا۔

خوشحالی کے بعد بدحالی میں مبتلا ہونے والی قوم ہمدردی کی مستحق لگتی ہیں اور اگر اسے ایک ایسےعذاب میں مبتلا کردیا جائےکہ جس کے بارے میں ابن کثیر لکھتے ہیں :’’ ان پر ظُلّہ، صَیحہ، رجفہ تین طرح کے عذاب آئے یعنی اول بادل نے سایہ کر لیا جس میں آگ کے شعلے اور چنگاریاں تھیں۔ پھر آسمان سے سخت ہولناک اور جگر پاش آواز ہوئی اور نیچے سے زلزلہ آیا‘‘ تو یہ افسوس کا سبب بن سکتا تھا لیکن چونکہ یہ عذاب خوشحالی کے بعد آیا تھا تو اس کا موقع نہیں رہا ۔ ایک حکمت یہ بھی ہے کہ بدحالی میں بہت ساری خباثتیں مجبوری کے سبب دب جاتی ہیں لیکن خوشحالی میں انہیں پھلنے پھولنے کا بھرپور موقع ملتا ہے اور وہ ابھر کر سامنے آجاتی ہیں ۔ اس کے بعدعبرتناک انجام سے بھی ہمدردی نہیں ہوتی ۔

خلیجی ممالک میں موجودہ حکمرانوں کو اقتدار کسمپرسی کی حالت ملا۔ دینی جھکاونے عقائد کی درستگی اور معاشرت میں حجاب کو فروغ دیا مگرپسِ پردہ بے حیائی پنپنے لگی۔ مساجد کے ساتھ بڑے بڑے سودی بنک تعمیر ہوگئے ۔ تیل کی ریل پیل کے بعد شرفاء نے اپنی اولاد کو تعلیم کے لیے یوروپ روانہ کیا جو باطل نظریات و اخلاقیات سے لیس ہوکر لوٹے اور بے دینی کو عام کردیا ۔ اس دوران سیاسی آزمائش کے لیے اسرائیل عالمِ وجود میں آچکا تھا۔ ابتدائی ایام یہ سب غاصب و ظالم ریاست کے دشمن تھے ۔ اس کے بعد مجبوری کا بہانہ بناکر چوری چھپے تعلقات استوار کیے اور اب کھلم کھلا دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں یعنی ڈھٹائی کے ساتھ عذاب الٰہی کو دعوت دی جا رہی ہے ۔ ایسے میں اگر مشیت ان کا چراغ گل کردے تو لوگ کہیں گے وہ اسی کےمستحق تھے۔ تمام تر خوشحالی کے باوجود انہوں نے غضبِ ربانی کو دعوت دی اور اس کا شکار ہوگئےتو رنج و افسوس کیا معنیٰ ؟
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1229517 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.