#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالشُورٰی ، اٰیت 49 تا 53
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
للہ
ملک السمٰوٰت
والارض یخلق ما
یشاء یھب لمن یشاء
اناثا ویھن لمن یشاء الذکور
49 اویزوجھم ذکرانا واناثا ویجعل
من یشاء عقیما انهٗ علیم قدیر 50 وماکان
لبشر ان یکلمه اللہ الّا وحیا او من ورآئ حجاب
او یرسل رسولا فیوحی باذنهٖ ما یشاء انهٗ علّی حکیم
51 وکذٰلک اوحینا الیک روحا من امرنا ماکنت تدری ما الکتٰب
ولا الایمان ولٰکن جعلنٰه نورا نھدی بهٖ من نشاء من عبادنا وانک لتھدی
الٰی صراط مستقیم 52 صراط اللہ الذی له ما فی السمٰوٰت وما فی الارض الا
الی اللہ تصیر الامور 53
اے ہمارے رسُول ! انسان کو اپنے پیروں تلے بچھی ہوئی زمین اور اپنے سروں پر
چھاۓ ہوۓ خلا کی صورت میں جو جہان نظر آرہا ہے یہ جہان اللہ کی تخلیق کی
ہوئی وہ سلطنت ہے جس میں اللہ نے اپنے ایک مقررہ نظامِ تخلیق کے تحت انسانی
تخلیق کا عمل اِس طرح جاری کیا ہوا ہے کہ اِس میں نر و مادہ کے کسی جوڑے کے
گھر میں پر صرف لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں تو کسی جوڑے کے گھر میں صرف لڑکے پیدا
ہوتے ہیں اور کسی جوڑے کے گھر میں لڑکیاں اور لڑکے دونوں پیدا ہوتے ہیں
جبکہ کسی جوڑے کے گھر میں کوئی بھی نرینہ یا زرینہ اولاد پیدا نہیں ہوتی ،
اللہ کے اِس تخلیقی عمل کی بُنیاد اُس کا وہی علمِ تخلیق ہے جس علمِ تخلیق
سے اُس نے انسان کی تخلیق سے پہلے زمین و آسمان کی تخلیق کی ہے ، زمین و
آسمان کے درمیان پیدا ہونے اور پیدا ہو کر مرنے والے انسان کو وہ مُختلف
زمانوں میں زندگی کا جو علم دیتا رہا ہے وہ علم اپنے اُن نبیوں اور رسولوں
کے ذریعے دیتا رہا ہے جن میں سے کسی کے دل میں ایک پُختہ خیال کی صورت میں
اُس نے اپنی وحی نازل کی ہے تو کسی پر اپنے عالَمِ غیب سے ظاہر ہونے والی
ایک صوت یا ایک صورت کے ذریعے اپنی وحی نازل کی ہے اور پھر عام انسان تک
اُن خاص انسانوں نے وحی کا یہ علم مُنتقل کیا ہے جس علمِ خاص نے خالق اور
مخلوق کے اِس علمی تعلق کو ظاہر کیا ہے ، اِس وحی کی مِن جُملہ مثالوں میں
سے ایک حاضر مثال یہ ہے کہ جس وقت تک ہم نے آپ پر قُرآن نازل نہیں کیا تھا
تو اُس وقت تک آپ یہ نہیں جانتے تھے کہ علمِ کتاب کیا ہے اور اطمینان علی
الکتاب کیا ہے لیکن اَب ہم نے ہی آپ کو اپنی اِس کتاب کے ذریعے یہ بتایا ہے
کہ یہ علمِ کتاب ہدایت کی وہ روشنی ہے جس روشنی کے ذریعے ہم اپنے جس مُنتخب
بندے کو چاہتے ہیں ہدایت کا یہ روشن راستہ دکھاتے ہیں اور پھر اِس راستے پر
چلاتے ہیں اور آپ کو تو ہم نے اِس روشن راستے کا وہ رہنما بنایا ہے جس پر
چلنے اور چلانے والے انسانوں پر یہ حقیقت آشکار ہو جاتی ہے کہ زمین و آسمان
میں جو بھی مخلوق ہے وہ اُسی ایک خالق کی تخلیق ہے جس نے اِس جہان اور
مخلوقِ جہان کو بنایا ہے اور اُس پر یہ حقیقت بھی آشکار ہو جاتی ہے کہ اُس
ایک خالق کی ہر ایک تخلیق اپنے اُسی ایک خالق کی طرف رواں دواں ہے جس خالق
نے اِس مخلوق کو اپنے علم اور اپنی قُوت و قُدرت سے تخلیق کیا ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کی اِن 50 اٰیات کا یہ وہی مربوط علمی و عملی سلسلہِ کلام ہے جو
اِس سُورت کے حروفِ مقطعات پر مُشتمل پہلی 2 اٰیات کے بعد اٰیت 3 سے چلتا
ہوا ہے اِس سُورت کی 53 تک آیا ہے اور اِس خاص حوالے سے اِس سورت کا سب سے
بڑا مضمون قُرآن کی وہ سماعت و تلاوت اور کتابت رہا ہے جس کی تلفیظ کی
بُنیاد حروفِ مقطعات کی تلفیظ پر رکھی گئی ہے ، اِس خاص مضمون کی پہلی خاص
بات یہ تھی کہ قُرآن کا یہ عربی کلام عربوں کے اُس عربی کلام سے مُختلف ہے
جس کی بُنیاد حروف کی صورت ہے کیونکہ اِس قُرآنی عربی کی بُنیاد عربی حروف
کی صورت ہی نہیں ہے بلکہ عربی حروف کی وہ صوت بھی جو حروفِ مقطعات کی
ادائگی سے سماعت میں آتی ہے اور جس انسان کی سماعت میں آتی ہے اُس کے وجدان
میں قُرآن کی تلاوت و کتابت کا وہ نُورانی مَلکہ پیدا کر دیتی ہے جو اُس
انسان کو قُرآن کی سماعت و تلاوت اور کتابت کا حامل بنا دیتی ہے جس کی علمی
مثال اِس سُورت کی اٰیت 38 میں گزر چکی ہے جس میں اہلِ ایمان کو قُرآن کے
حروف کی لفظی ادائگی کے لیۓ اُس باہمی سمعی و بصری مُشاورت اور قُرآنی
اٰیات کی کتابت کی ترغیب دی گئی ہے اور اُس علمی مثال کے بعد اِس سُورت کی
اٰیت 52 میں اُس کی عملی مثال کے لیۓ خود سیدنا محمد علیہ السلام کی اپنی
ذاتِ گرامی کو اِس دلیل و تمثیل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے کہ جس وقت تک سماعت
و تلاوت اور کتابت کے اجتماعی مُشاورتی عمل کے لیۓ آپ پر ہماری یہ کتاب
نازل نہیں ہوئی تھی اُس وقت تک آپ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ ایک مرتب کی
گئی کتاب کی صورت کیا ہوتی ہے ، اُس کتاب کا علم کیا ہوتا ہے اور اُس کتاب
کے اُس علم پر ایمان و اطمینان کی کیفیت کیا ہوتی ہے لیکن جب ہم نے آپ پر
اپنے علم کی یہ کتابِ ہدایت نازل کر کے اِس کی سماعت و تلاوت کا علم آپ کو
سکھادیا تو اَب آپ کو معلوم ہو گیا ہے کہ کتاب کیا ہے ، ایمان بالکتاب کیا
ہے اور اطمینان علی الکتاب کیا ہے ، اِس مضمون میں پہلی چیز سماعتِ کتاب ہے
جو تلاوتِ کتاب کا پہلا سمعہ ذریعہ ہوتی ہے لیکن اِس میں سب سے اہم تر چیز
اِس کتاب کی کتابت کا وہ عمل ہے جو کتاب کے اُس مضمون کو محفوظ کرتا ہے
تاکہ اِس کتاب کی جو اٰیت یا سُورت انسانی ذہن سے محو ہو جاۓ تو انسان اُس
کو کتاب سے دیکھ کر دوبارہ ذہن نشین کرلے اور کتاب کی اِس کتابت کا جو کام
بذاتِ خود سیدنا محمد علیہ السلام نے اصحابِ محمد علیہ السلام کو سکھایا
تھا اُس کا ذکر قُرآنِ کریم نے سُورَةُالفُرقان کی اٰیت 1 تا 9 میں تفصیل
کے ساتھ کیا ہے اور اُس سُورت کی اُن اٰیات میں یہ تفصیل بھی موجود ہے کہ
سیدنا محمد علیہ السلام کی طرف سے اَصحابِ محمد علیہ السلام کو سکھاۓ جانے
والے اُس عملِ کتابت کو دیکھ کر قُرآن کے وہ مُنکر اور تو کُچھ نہیں کر
سکتے تھے لیکن وہ اپنے جلتے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیۓ یہ الزام ضرور لگاتے
تھے کہ اِس کتاب میں پرانے زمانے کے لکھے ہوۓ وہی پرانے افسانے ہیں جن
افسانوں کو سننے اور سنانے والے یہ سارے لوگ صبح و شام ایک دُوسرے کو وہی
افسانے سناتے رہتے اور ایک دُوسرے کو وہی افسانے لکھاتے رہتے ہیں ، جہاں تک
خود سیدنا محمد علیہ السلام کی تلاوت و کتابت کا تعلق ہے تو آپ کے اُس عملِ
کتابت کو قُرآن نے سُورَةُالعنکبوت کی اٰیت 48 تا 52 میں اِس طرح بیان کیا
ہے کہ اِس سے پہلے آپ اِس خیال سے لوگوں کے درمیان بیٹھ کر اِس کتاب سے
کُچھ پڑھتے بھی نہیں تھے اور اپنے داہنے ہاتھ سے کُچھ لکھتے بھی نہیں تھے
کہ اگر آپ ایسا کریں گے تو اِس کتاب کے مُنکر اِس کتاب کے بارے میں شاید
اِس شک میں پڑ جائیں گے کہ یہ کتاب بھی پرانے زمانے کی پرانی کتابوں میں سے
ایک پرانی کتاب ہے جو آپ لوگوں کے درمیان بیٹھ کر لکھتے اور پڑھتے رہتے ہیں
حالانکہ اِس کتابِ مؤثر کی تاثیر یہ ہے کہ جن لوگوں کے سینوں کو ہم اِس
کتاب کے روشن علم کی روشنی سے روشن کر دیتے ہیں تو اُن انسانوں میں سے کوئی
بھی انسان اِس کتاب کی صحت و صداقت کا انکار نہیں کر سکتا بلکہ اِس کتاب کے
کُھلے مُنکر بھی اِس کتاب کا کُھلا کُھلا انکار کرنے کے بجاۓ صرف یہی ایک
بات کہتے رہتے ہیں کہ اگر اللہ نے فی الواقع ایک انسان پر یہ کتاب نازل کی
ہے تو اِس کتاب کے ساتھ اُس نے کُچھ ایسی نشانیاں کیوں نہیں نازل کی ہیں کہ
جن نشانیوں کو دیکھ کر ہمیں یقین ہو جاتا کہ یہ انسان واقعی اللہ کا نبی ہے
اور جس کتاب کو یہ پڑھتا پڑھاتا اور لکھتا لکھاتا رہتا ہے وہ کتاب بھی اللہ
کی وہ کتاب ہے جو اُس نے اِس انسان پر نازل کی ہے ، قُرآن کی سماعت و تلاوت
اور کتابت کے یہ تین قُرآنی بیانیۓ پڑھنے کے بعد اَب اِس حقیقت پر بھی غور
کر لیجیۓ کہ اگر ایک انسان ایک دُوسرے ایسے انسان کو کوئی کتاب پڑھتے
پڑھاتے اور لکھتے لکھاتے ہوۓ دیکھتا ہے جس کو اِس سے پہلے اُس نے کبھی کوئی
کتاب پڑھتے پڑھاتے اور لکھتے لکھاتے ہوۓ نہیں دیکھا ہے تو وہ اِس کے بارے
میں جب یہ کہتا ہے کہ یہ انسان پہلے تو کبھی کوئی کتاب پڑھتا بھی نہیں تھا
اور کبھی کوئی کتاب لکھتا بھی نہیں تھا تو اِس کا مطلب اِس کے سوا کُچھ بھی
اور نہیں ہوتا کہ اَب وہ انسان اپنے اوپر نازل ہونے والی یہ کتاب پڑھ بھی
لیتا ہے اور لکھ بھی لیتا ہے ، اگر اِس کا یہ مطلب نہ ہو تو پھر قُرآن کی
اِس اٰیت میں آنے والے الفاظ { من قبلهٖ } کا کوئی مطلب یا مقصد ہی باقی
نہیں رہ جاتا اور ظاہر ہے کہ قُرآن بے مقصد الفاظ کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ
بامقصد الفاظ کی ایک با مقصد کتاب ہے جو اللہ تعالٰی نے انسانی ہدایت کے
لیۓ نازل کی ہے !!
|