مرکزِ تبلیغ کے بند ہونے سے کھل جانے تک روشنی کا سفر

ملت اسلامیہ ہند کی سب سے بڑی جماعت کے مرکز پھرسےپوری طرح کھل جانا یقیناً بڑے مسرت کا مقام ہے۔ لاک ڈاون کے بعد مارچ 2020 میں تبلیغی جماعت پر کورونا وبا سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی کا جھوٹا الزام لگا کرمرکزکو بند کر دیا گیا تھامگرامسال 16؍ مارچ کو دہلی ہائی کورٹ نے نظام الدین مرکز میں بنگلہ والی مسجد کی چار منزلوں کو شب برأت سے دوبارہ کھولنے کی اجازت دے دی ۔ مسجد میں نماز ادا کرنے والوں کی تعداد پر عائد تمام پابندیاں بھی ہٹا دی گئیں۔ پچھلے دو سالوں میں حکومت نے اس معاملہ میں رکاوٹ ڈالنے کے سارے ہتھکنڈے استعمال کرلیے مگر بالآخر اس کو ہتھیار ڈالنا پڑا ۔ یہ کام دو مراحل میں ہوا ۔ ایک دن قبل پولیس نے دہلی وقف بورڈ کی درخواست کو شب برأت کے پیش نظر نماز کی ادائیگی کے لیے مرکز کو دوبارہ کھولنے کی اجازت دی تو ایس ایچ او نظام الدین نےوہاں بیک وقت زیادہ سے زیادہ 100 افراد کی نامعقول شرط لگا دی ۔

اگلے دن سماعت کا آغاز ہوا تو جسٹس منوج کمار اوہری نے نمازیوں کی تعداد کو محدود کرنے کی وجہ دریافت کرتے ہوئے پوچھا کہ یہ کس کا اندازہ ہے؟ کیا (دہلی میں کہیں ) لوگوں کی تعداد پر کوئی پابندی لگائی گئی ہے؟ تعداد کی پابندی کا حکم کہاں ہے؟ اس کے بعد وہ بولے جب وہ کہتے ہیں کہ کووِڈ پروٹوکول کی پیروی کریں گےتو ٹھیک ہے۔ اسے نمازیوں پر چھوڑ دینا چاہیے۔ فاضل جج نے اپنے حکم میں کہا کہ نمازیوں کو کووڈ پروٹوکول اور سماجی دوری پر عمل کروانے کا فیصلہ انتظامیہ کرے گی۔ اس معاملے میں مرکزی حکومت کا رویہ انتہائی منفی تھا اس نے اپنےحالیہ حلف نامے میں مرکز کو دوبارہ کھولنے کی مخالفت کرتے ہوئے آنے والے مذہبی مواقع پر کچھ لوگوں کو نماز پڑھنے کی اجازت دینے پر رضامندی ظاہر کی تھی ۔

گزشتہ ہفتہ 11؍ مارچ کو ہائی کورٹ نے مرکزی حکومت سے نظام الدین مرکز کو مکمل طور پر دوبارہ کھولنے پر اپنے اعتراض اور اپنا موقف واضح کرنے کا حکم دیا تھا ۔ دہلی ہائی کورٹ نےمرکزی حکومت سے پوچھا تھا نظام الدین مرکز کی مسجد کو پوری طرح سے کیوں نہیں کھولا جا سکتا ہے؟ اس وقت جسٹس منوج کمار اوہری کی بنچ دہلی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی ایم اے) کے ذریعہ جاری حالیہ گائیڈلائنس پر غور کرتے ہوئے مذہبی مقام کو پھر سے کھولنے کے لیے وقف بورڈ کی عرضی پر غور کر رہی تھی۔ بورڈ نے مذہبی مقاصد کے لیے شب برأت اور رمضان کے آنے والے مہینے کے مدنظر احاطہ کو پھر سے کھولنے کی خاطر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا ۔

تبلیغی جماعت کے ساتھ انتظامیہ اور ذرائع ابلاغ کے مقابلے عدلیہ کا رویہ ہمدردی و غمخواری کا رہا ہے۔ 16 جون 2020کو ایک ا ہم فیصلہ میں مدارس ہائی کورٹ نے حکم دیا تھا کہ تبلیغی جماعت سے وابستہ 31 غیر ملکیوں کے خلاف فارینر ایکٹ کے تحت قائم مقدمہ ختم کرکے انہیں جلد از جلد ان کے ملک روانہ کیا جائے کیونکہ یہ لوگ پہلے ہی بہت زیادہ پریشانی برداشت کرچکے ہیں،واپس اپنے ملک جانا ان کا حق ہے۔ کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ آئین ہند کے آرٹیکل 21 کے تحت ان کی مزید قید رکھنا وبا میں انہیں حاصل آزادی کی خلاف ورزی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ تو اچھا ہوا کہ عرض گذار کرونا پازیٹیو نہیں ہوا لیکن کیاپتہ کل ان کی جانیں خطرے میں پڑ جائیں اس لیے انہیں جیل میں رکھنا غیر معقول، غیر ضروری اورغیر منصفانہ ہے۔اسی طرح کا فیصلہ نوح کی چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ نے 22؍مئی کو اور سہارنپور کی چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ عدالت نے 10؍جون کو دیا تھااور ان دونوں عدالتوں نے سبھی ممالک کے غیر ملکی تبلیغی جماعتیوں کو بری کردیا تھا اور انتظامیہ کو فوراً انہیں واپس بھیجنے کا حکم دیا تھا ۔

اگست کے اواخر میں بامبے ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ نے تبلیغی جماعت سے متعلق اختیار کیے جانے والے رویہ پر انتظامیہ اور میڈیا کو سخت نکتہ چینی کرکے پولس کی تحویل سے کارکنان جماعت کو رہا کردیا ۔ بمبئی ہائی کورٹ کے اورنگ آباد ڈویژن بینچ نے 29 غیر ملکی تبلیغی جماعت کے معاملے کی سماعت کرتے ہوئے جماعت پر دائر ایف آئی آر کو رد کرتے ہوئے کہا تھاانتظامیہ نے ’اتیتھی دیوو بھوا‘کی عظیم روایت پر عمل کرنے کے بجائے غیر ملکی مہمانوں پر ظلم کیا“ ۔عدالت نے کہاکہ ہماری ثقافت میں ’اتیتھی دیوو بھوا‘کی کہاوت مشہور ہے، جس کا مطلب ہے کہ مہمان ہمارے بھگوان جیسے ہیں۔ مگر موجودہ حالات نے اس پر یہ سوال کھڑا کردیاہے کہ کیا ہم واقعی اپنی اس عظیم روایت اور ثقافت پر عمل کر رہے ہیں؟“ تبلیغی جماعت کے خلاف پروپیگنڈہ کے لئے عدالت نے میڈیا کے رویے پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ تبلیغی جماعت کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔جسٹس ٹی وی نلواڈے اور جسٹس ایم جی سیولیکر کے ڈویژن بنچ نے اپنے تاریخی فیصلے میں لکھا کہ”ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ریاستی حکومت نے سیاسی مجبوری کے تحت کام کیا‘‘۔

وقت کے ساتھ ملک بھر میں تبلیغی جماعت کے حوالے سے بہت کچھ بدل گیا مگر مرکز کا معاملہ اپریل 2021 تک ٹھنڈے بستے میں پڑا رہا۔پچھلے سال رمضان سے قبل عدالت نے نظام الدین مرکز میں مقررہ گائیڈلائن اور ایس او پی کے تحت 50؍ افراد کوایک ماہ کے لیے 5 وقتہ نماز پڑھنے کی اجازت دی۔ اس کے بعد جولائی 16، 2021 کو دہلی ہائی کورٹ نے وقف بورڈ کی طرف سے نظام الدین مرکز کو کھولنے کے لیے داخل کی گئی عرضی پر جسٹس مکتا گپتا نے کہا تھاکہ مرکز نے اب تک اس درخواست کی خوبی یا خامی پر کوئی جواب داخل نہیں کیا ہے اور پوچھا تھاکہ اس کا کوئی جواب داخل کرنے کا ارادہ ہے بھی یا نہیں ؟ فاضل جج نے مرکز کو جواب دینے کے لیے دو ہفتوں کا وقت دیا ۔مرکز کی جانب سے پیش ہونے والے ایڈوکیٹ رجت نائر نے عدالت سے ایک اور موقع دینے کی اپیل کی تو عدالت نے انہیں حکومتی جواب پر اپنا جوابی حلف نامہ داخل کرنے کے لیے تین ہفتے کی مہلت دی ۔ اگلی سماعت اگست 23، 2021 کو ہوئی جس میں ہائی کورٹ نے دہلی پولیس کو پھٹکار لگا کر دو دن کے اندر مولانا سعد کے گھر کو ان کی والدہ کے حوالے کرنے کا حکم دےدیا۔ ساتھ ہی ہائی کورٹ نے اپنے حکم میں مولانا سعد کی والدہ کو ہدایت دی کہ وہ مرکز کے کسی دوسرے حصے میں نہ جائیں ۔اس معاملے میں بھی پولس نے بدمعاشی کی ۔ مولانا سعد کی والدہ کے حق میں جب نچلی عدالت کا فیصلہ آگیا تو دہلی پولیس نے اسے سیشن کورٹ میں چیلنج کردیا اور وہاں نچلی عدالت کے فیصلے پر روک لگا دی گئی۔ بالآخر ہائی کورٹ نےان کے حق میں مندرجہ بالا فیصلہ سنایا۔

امسال مارچ 12( 2022) کومودی سرکار نے مرکز کی پہلی منزل نماز کے لیے کھولنے کی پیش کش کی مگر اس پر دہلی وقف بورڈ کے وکیل نے اعتراض کرتے ہوئے کہاکہ ڈی ڈی ایم اے کے رہنما خطوط کے تحت مسجد کو پوری طرح سے کھولا جانا چاہیے کیونکہ دہلی کو کورونا کی تمام بندشوں سے آزاد کردیا گیا ہے۔ دہلی وقف بورڈ کے وکیل وجیہ شفیع نےپوچھا کہ پوری مسجد کو کیوں نہیں کھولا جانا چاہیے؟ اس معاملے میں باضابطہ طور پر دس اپریل کی تاریخ مقرر ہوئی تھی مگر شب برات اور رمضان المبارک کے پیش نظرمذکورہ تاریخ سے پہلے مسجد بنگلہ والی کو کھولنے کے لیے اجازت طلب کی گئی۔ مارچ 15؍ کو دہلی ہائی کورٹ نے وقف بورڈ سے کہا ہے کہ وہ مسجد میں نماز کے تعلق سے اجازت اور اس کا طریقہ کار معلوم کرنےکے لیے مقامی پولیس اسٹیشن یعنی تھانہ حضرت نظام الدین میں درخواست دے اور اختلاف کی صورت میں 16؍ مارچ کودہلی ہائی کورٹ اس معاملے کی سماعت کرے گا۔
یہ اضافی درخواست چونکہ عارضی حل کے لیے تھی اس لیے مرکز کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل رجت نایر تو صرف یہ چاہتے تھے کہ پہلے کی طرح پانچ لوگوں کو اس سال بھی مذہبی تہوارکے موقع پر نماز پڑھنے کی اجازت مل جائے لیکن جج صاحبان کا ارادہ کچھ اور ہی تھا ۔ اس لیے بنچ نے ازخود سوال کردیا ’’مسٹر نایر، اگر پہلی منزل کو کھولنے میں کوئی اعتراض نہیں ہے، تو بقیہ حصہ کو کھولنے میں کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ ‘‘۔ اس سے آگے بڑھ کر اہم سوال یہ تھا کہ ’’آپ کی اس گزارش کے مطابق مذہبی تہواروں کے موقع پر کوئی اعتراض نہ ہوتو آخر روزانہ کے لیے کیوں (اجازت ) نہ ہو ؟ ‘‘ یہ اس بات کا عندیہ تھا کہ عدالت پوری طرح مرکز کو کھولنے کے موڈ میں ہے۔ حجاب کے معاملے میں کرناٹک کے حوصلہ شکن فیصلے کہ بعد مرکز کے کھلنے کی خوش کن خبر ایسی ہے گویا درخواست گزار سے کہا جارہا ہے ؎
تُو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گُلشن میں علاجِ تنگیِ داماں بھی ہے


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1228685 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.