رمضان پٹھان‘ ریل کا سست ترین کراچی کا سفر
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
ریلوے کی سیٹوں پر بیٹھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے تندور میں بیٹھ کر سفر کرنا پڑ رہا ہوں‘ ہمار ے ہاں کہا جاتا ہے چی غریب خدائے کڑے نو دلا چا کڑے‘ یعنی غریب اگر اللہ نے پیدا کیا تو کمینہ تمھیں کس نے کیا ہے‘ انگریز کی بچھائی ہوئی ریل کی پٹڑی پر پرانے انجن چلا کر ریلوے کی وزارت یہ سمجھتی ہے کہ ہم تیر مار رہے ہیں‘ ریلوے کے نظام کو اگر ٹھیک کرنا ہے تو ائیر کنڈیشنر دفاتر اور بنگلوں میں رہائش پذیر اس ڈیپارٹمنٹ کے افسران کو ان گاڑیوں میں روزانہ سفر کرنے کی ہدایت کی جائے تاکہ انہیں لگ پتہ جائے کہ جس کام کی وہ تنخواہیں لے رہے ہیں وہ کس پوزیشن میں ہیں‘ پٹھی ہوئی سیٹیں‘ گند پھیلا ہوا‘ باتھ میں لوٹے تک نہیں ہوتے‘ جس وقت ہم جارہے تھے اس وقت اپوزیشن اور حکومت کے مابین لوٹوں کی جھگڑے تھے ہم یہ سمجھتے کہ ریلوے کے باتھ رومز کے لوٹے شائد پارلیمنٹ گئے ہوں اس لئے ہم نے کسی سے شکایت نہیں کی‘ بھلا شکایت بھی کس سے کرنی ہے |
|
سنتے آتے تھے کہ رمضان جانے اور پٹھان جانے‘ لیکن اس کا عملی تجربہ گذشتہ دنوں رمضان المبارک میں کراچی کے سفر میں ہوا‘ ایک دوست کے توسط سے کراچی جانے کا پروگرام بنا‘ ویسے رمضان میں گھر سے باہر افطاری کرنا خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے کیونکہ جو مزا اپنے گھر کے درستخوان پر آتا ہے وہ کہیں پر بھی نہیں آتا‘ لیکن جب اللہ کی طرف سے رزق کہیں اور لکھا ہو تو پھر انسان لاکھ چاہے اس نے اپنے رزق کے پیچھے جانا ہوتا ہے.پشاور سے ساتھیوں کے ہمراہ رحمان بابا ایکسپریس میں گیارہ بجے بیٹھ تو گئے اور صوابی تک سفر کے مزے لے ایک طرف رمضان اور دوسرے طرف ریل کی پٹڑیوں کے ہلکورے اور جھٹکے مزے دے رہے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ جھٹکے برے لگنے شروع ہوگئے‘ پشاور میں موسم کسی حد تک بہتر تھا جبکہ اٹک کے اس پار جاتے ہوئے گرمی کی شدت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے اور یوں ٹمپریچر کیساتھ برداشت بھی ختم ہونے لگی.
ْسرکار کی چیزوں پر کسی کا دل نہیں دکھتا‘ یہ جملہ اس لئے لکھا ہے کہ پشاور سے لیکر کراچی تک ہر ریلوے سٹیشن پر ریلوے کا سامان بکھرا پڑا ہے تختوں سے لیکر انجن اور مختلف قسم کی اشیاء پڑی ہوئی ہیں جو زنگ الود ہورہی ہیں لیکن مجال ہے جو یہاں پر بیٹھے افسران کو نظر آرہا ہو کہ بتا دیں کہ نہ صرف یہ زنگ الود ہورہاہے بلکہ اس کی چوری کا بھی خطرہ ہے مگر. اٹک کے اس پارہوتے ہی ریلوے سٹیشن پر چادر کے بنے کیبن دیکھے جہاں پر ہر کوئی " زہ مسافر یم" یعنی مسافر کہہ کر داخل ہو کر پیٹ کی پوجا کرسکتا ہے‘ نہ کسی کا ڈر نہ کسی کا خوف‘ چلیں یہ بھی کسی حد تک بہتر رہی‘ وزیر آباد میں افطاری کا وقت آیا اور پانی اور کھجور سے افطار تو کروایا گیا یہ بھی اللہ کا شکر ہے لیکن جس حال میں بھی ہوا نہ بتانے کے قابل ہے‘ سب سے افسوسناک بات یہ تھی کہ ریلوے کے باتھ رومز میں بیٹھ کر پیشاب کرنا بڑے دل گردے کی بات ہے کیونکہ جس طرح کے جھٹکے لگتے ہیں اس سے پیشاب خواہ وہ ایک انگلی والا ہو یا دو انگلیوں والا‘ متعلقہ جگہ پر نہیں پہنچتا‘ ریل کی پٹڑیوں سے ہوتا ہوا واپس آتا ہے اور یوں واش رومز استعمال کرنے والا اپنے کپڑے گندے کر جاتا ہے. ہم نے بڑی کوششوں سے اپنے آپ کو بچایا لیکن پھر بھی ڈر کے مارے اضافی پانی کپڑوں پر اور پاؤں پر ڈالتے رہے کہ کہیں رمضان کے مہینے میں ریلوے کی وجہ سے نمازیں ضائع نہ ہوں‘ ماشاء اللہ ریلوے کے باتھ رومز میں آنیوالا پانی بھی اتنا گرم ہوتا ہے کہ اگر آپ نے بغیر پانی کو چیک کئے اپنی صفائی کیلئے استعمال کیا تو لازما درد کے مارے آواز نکلتی ہیں.
پنجاب کی حدود میں داخل ہوتے ہی ہر سٹیشن پر "دال کرارے " سے لیکر "ٹھنڈے کھیرے" اور "ٹھنڈا ٹار جوس" کے نعرے لگنے والے لوگ ریل کے ڈبے میں گھس آتے ہیں اور ہر مسافر کو یوں دیکھتے ہیں جیسے قصائی جانور کو دیکھتا ہے ساتھ میں مسافر کے سامان پر بھی نظریں ہوتی ہیں پتہ نہیں کہ یہ کونسا فارمولہ ہے لیکن ان سب کے ساتھ ڈیل بہت مشکل ہے‘ وہ تو شکر ہے کہ ہمارے صحافی کے ایک دوست صحافی نیند کے معاملے میں بہت سخت تھے اور انہوں نے سامنے کی کھڑکی پرقبضہ جما رکھا تھا اور خود بھی نہیں سورہے تھے اور ہر قسم آنیوالے بھکاری اور سودا بیچنے والے کو ڈانٹ ڈپٹ کر نکالتے کہ بھائی ہمارا روزہ ہے‘ وہ صحافی غصے کے اتنے تیز تھے کہ ان کے سامنے ایک شخص نے سگریٹ نکالا اور پینے لگے صحافی دوست نے سمجھایا کہ ہمارا روز ہ ہے ہمارے سامنے مت پیو باہر جا کر پی لو لیکن وہ بھی وہاں سے اٹھ کر دوسرے سیٹ پر بیٹھ گیا اور پھر ہمارے دوست ان کو مارنے کیلئے دوڑے شکر ہے کہ دوسرے صحافی دوستوں نے زبردستی پکڑا چی پریگدہ کوم کوم بہ سموئے‘ یعنی چھوڑ دو کس کس کو ٹھیک کرو گے‘ جنہیں خوف خدا نہیں انہیں ڈنڈے کے زور سے نہیں ٹھیک کیا جاسکتا. پتہ نہیں کہ یہ بھکاری اور سامان بیچنے والے ریلوے پولیس اور اہلکاروں کو کیا دیتے ہیں جو انہیں فری میں ڈبے کے اندر لے جاتے ہیں اور پھر بہت کچھ ہوتا ہے.
ریلوے کی سیٹوں پر بیٹھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے تندور میں بیٹھ کر سفر کرنا پڑ رہا ہوں‘ ہمار ے ہاں کہا جاتا ہے چی غریب خدائے کڑے نو دلا چا کڑے‘ یعنی غریب اگر اللہ نے پیدا کیا تو کمینہ تمھیں کس نے کیا ہے‘ انگریز کی بچھائی ہوئی ریل کی پٹڑی پر پرانے انجن چلا کر ریلوے کی وزارت یہ سمجھتی ہے کہ ہم تیر مار رہے ہیں‘ ریلوے کے نظام کو اگر ٹھیک کرنا ہے تو ائیر کنڈیشنر دفاتر اور بنگلوں میں رہائش پذیر اس ڈیپارٹمنٹ کے افسران کو ان گاڑیوں میں روزانہ سفر کرنے کی ہدایت کی جائے تاکہ انہیں لگ پتہ جائے کہ جس کام کی وہ تنخواہیں لے رہے ہیں وہ کس پوزیشن میں ہیں‘ پٹھی ہوئی سیٹیں‘ گند پھیلا ہوا‘ باتھ میں لوٹے تک نہیں ہوتے‘ جس وقت ہم جارہے تھے اس وقت اپوزیشن اور حکومت کے مابین لوٹوں کی جھگڑے تھے ہم یہ سمجھتے کہ ریلوے کے باتھ رومز کے لوٹے شائد پارلیمنٹ گئے ہوں اس لئے ہم نے کسی سے شکایت نہیں کی‘ بھلا شکایت بھی کس سے کرنی ہے . ریل میں کم از کم سات سال بعد سفر نے جہاں پاکستان ریلوے کی کارکردگی ظاہر کردی وہیں پر یہ پتہ بھی چلا کہ ہم تھائی لینڈ جیسے تھرڈ کلاس ملک سے بھی ریلوے کے نظام میں گئے گزرے ہیں‘ کچھ عرصہ قبل تھائی لینڈ کے شہر بنکاک سے دوسرے صوبے میں ریل کے سفر کا موقع ملا تھا‘ ساری رات سفر کیا تھا اور بھی لیٹ کر لیکن پتہ نہیں چلا کہ میں گھر میں زمین پر لیٹا ہوں یا کسی برتھ پر‘ اس سے بہتر ین سفر یوکرائن کے دارالحکومت کیف میں دوران تربیت ملا تھا وہ تو انڈر گراؤنڈ تھا لیکن نہ کوئی بدنظمی‘ جھٹکے نہ ہی پسینے کی بدبو‘ ہاں ان کے مقابلے میں بھارت کے شہر چنائی کے ریل کا نظام پاکستان کے مقابلے کا ہے لیکن وہ بھی اس لئے کہ وہاں ریلیں بجلی سے چلتی ہیں البتہ رش اور پسینے کی بدبو اور سامان فروخت کرنے والے پاکستان کے ریلوے کی طرح ہوتے ہیں.ہاں بھارت میں نئی بننے والی میٹروکا حال بہتر ہے. یہ وہ ہمارے ایک دوست کے بقول کافر ممالک کی ٹرین ہیں جہاں پرمسافروں کی سہولیات سمیت ہر چیز کا خیال رکھا جاتا ہے جبکہ ہم " نماز ی اور اپنے آپ کو مسلمان"کہلوانے والوں کا حال‘ اللہ معاف کرے‘ منافقت کی انتہا ہے.
گھر میں افطاری کا مزہ بچوں کیساتھ ایک ساتھ کرنے کا بھی آتا ہے دوسرے جب آپ کی مرضی ہو آپ کھانا کھائے‘ چائے پی لیں یا جو بھی ہو لیکن وزیر آباد سے لیکر ملتان تک ہم کھانے کے انتظار میں رہیں ملتان میں صحیح معنوں میں جان میں جان آئی کیونکہ افطاری تو جوس اور پانی پر کی تھی جس کے بعد ملتان میں کھانے کو ملا اور رات دس بجے اس کھانے کو ہم نے سحری بھی سمجھ لیا کیونکہ چاول اور دال ٹھنڈے تھی اور ڈبے میں کھانا بڑے دل گردے کا کام ہے. ہمارے ساتھی ایک دوسرے کو کوس رہے تھے کہ یار رمضان میں کراچی جانے کا پروگرام اور پھر اس طرح کی صورتحال‘ لیکن ہر کوئی گلہ اپنے دل میں چھپائے بیٹھا تھا چی دا چا‘ دا پخپلہ نو جاڑے سہ لہ‘ یعنی یہ کس نے کیا‘ ہم نے خود کیا تو پھر رونے کی بات کیا ہے‘ اب بھگتو‘
پشاور سے اٹک تک کے سفر میں روزہ خور دیکھنے کو نہیں ملا‘ یہ نہیں کہ یہاں پر روزہ خور نہیں تھے لازما ہونگے لیکن یہاں چھپ کر کھانے کا رواج ہے‘ پنجاب میں چادر کا پردہ ڈال کرروزہ کھانے کا سلسلہ ہے لیکن سندھ میں‘ واہ کیا ہی بات ہے‘ وہاں تو سب کچھ کھلے عام ہے‘ اندھے‘ لولے سے لیکر بوڑھی خواتین‘ بچے ہر کوئی بوگی میں گھس کر سامان فروخت کرنے سے لیکر بھیک مانگنے کا کام کرتا ہے ایسے ایسے نادر نمونے دیکھنے کو ملے جنہیں دیکھ کر افسوس ہوا کہ کہ اتنے بڑے فنکار پی ٹی وی اور دوسرے نجی چینل سے کیوں دور ہیں‘ ہر کوئی اپنی ڈفلی بجا کر رقم اکٹھی کرنے کے چکر میں ہیں‘ پشاور سے کھاریاں تک ریلوے ٹریک کے دونوں اطراف میں پلاسٹک کی گندگی اور پمپرز کی بھرمار نے ماحول کو برباد کر رکھا ہے تو کھاریاں سے لیکر پنجاب کے آخری سٹیشن تک جوہڑوں کی بھر مار ہے جس میں جانور پڑے دکھائی دیتے ہیں تاہم سندھ شروع ہوتے ہی ان جوہڑوں میں انسانوں کیساتھ جانور بھی نہاتے نظر آتے ہیں. جس سے یہاں کی حالت کابھی خوب اندازہ کیا جاسکتا ہے . اب راقم کو اندازہ نہیں کہ اس کی وجہ کیا ہے لیکن پرانے طرز پر پشاور سے لیکر کراچی کے لانڈھی تک کے سفر کے دوران جتنے بھی سٹیشن آئے سب کے سب ایک ہی ڈیزائن کے تھے‘ کھلے مخصوص پتھروں کی عمارت اور اینٹ کا استعمال اور ساتھ میں بڑے بڑے درخت‘ یہ چند چیزیں ہیں جو انگریز نے ہر ریلوے سٹیشن پر بنائی ہیں‘ لانڈھی کے آخری سٹیشن پر دیواروں پر کالے رنگ کو سفید کرنے اور کالے جادو کے اشتہارات دیکھنے کو ملے‘ پشاور میں اس طر ح دیواروں پر چھوٹے قد کے اشتہارات اور بواسیر کا علاج سمیت مردانہ کمزوری کے اشتہارات دیکھنے کو ملے‘ یعنی ہر شہر کے اپنے ہی مسئلے ہیں‘ ریل کے سفر میں جہاں پر پٹھان ہونگے وہاں پر بوگی میں نسوار کی چونڈیاں دیکھنے کو ملیں گی حتی کے باتھ رومز میں بھی اتنی بڑی چونڈیاں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ دل ہل جاتا ہے کہ آخر یہ اتنی بڑی چونڈیاں رکھتے کیسے ہیں اور وہاں جہاں پر پنجاب سے تعلق رکھنے والے لوگ بیٹھے ہونگے وہاں پر سگریٹوں کی بھر مار ہوگی‘ جبکہ کراچی اور سندھ کے افراد کی پان کی پچکاریاں نہ صرف ریل کی سیٹوں پر دیکھنے کو ملیں گی بلکہ باتھ رومز کے لوٹے بھی اس سے محفوظ نہیں.یعنی گندگی میں پٹھان‘ پنجابی اور سندھی آپس میں بھائی بھائی ہیں
پشاور سے کراچی جانیوالی ٹرین میں ان افراد کو دیکھا جو اپنے بیگمات اور بچوں اور سامان کو لا د کر جارہے تھے انہیں دیکھ کر شکر ادا کیا کہ ہم نے شادی نزدیک ہی کے علاقے سے کی ہے‘ ورنہ اگر شادی کراچی میں کی ہوتی تو پھر "راشہ ماما زوئے دے لیونئے دے" بچوں اور سامان سمیت بیگم کو ریل کی بوگی تک پہنچانا اور ان کیلئے سیٹ لینا اور انہیں واپس اتارنا بڑے دل گرد ے کی بات ہے اور کم از کم ہمارا دل اور گردہ اتنا بڑا نہیں‘ اس معاملے میں ہمیں اپنی بہنوئی اور ہمشیرہ کا خیال بہت آیا جو سامان سمیت کراچی سے پشاور آتے ہیں‘.کراچی تک کے ریل کے سفر میں یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ خیبر پختونخواہ میں لوگ گھروں کی چھتیں اونچی بناتے ہیں گھر چھوٹے لیکن اونچے ہوتے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں پنجاب میں چھوٹی چھتیں اور بڑے گھر ہوتے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں کراچی میں فلیٹ در فلیٹ ہوتے جہاں چھتیں بھی چھوٹے ڈالتے ہیں مگر منزل بہ منزل‘ ان فلیٹ کے مالکان الگ الگ ہوتے ہیں.کے پی اور پنجاب میں گھر کیلئے زمین کی اہمیت ہے جبکہ کراچی میں فلیٹ کی اہمیت ہوتی ہیں جس کا اندازہ ریل کی بوگی میں بیٹھ کر بہت زیادہ کیا جاسکتا ہے
پشتو شاعر رحمان بابا کے نام سے چلنے والی ریل اتنی سست رفتار نکلی کہ دوسرے دن بارہ بجے کے بجائے ساڑھے پانچ بجے شام ہمیں کراچی پہنچا دیا اور بوگی سے نکلتے ہی ہم سارے صحافی ایک دوسرے کو یوں دیکھنے لگے جیسے کسی مستری خانے میں کام کرنے والے شاگرد اپنے آپ کو دیکھتے ہوں‘ دھول‘ مٹی اور گندگی کے باعث اپنے آپ کی پہچان نہیں ہورہی تھی.پھر ہمارے ساتھ جانے والے میزبان نے ہمیں سامان سمجھ کر رکشے میں ٹھونس دیا اور ہمارا کراچی کا سفر شروع ہوگیا.
|