حافظ رمضان علی خان تراویح کی آخری رکعت میں قرآن ختم
کرتے ہوئےسورۂ بقرہ کا پہلا رکوع تلاوت کردیا کیونکہ ہر انجام کسی آغاز
کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ دعا کے بعد بلااعلان کے معمول کے مطابق سارے مصلی
منبر کے پاس جمع ہوگئے ۔ مسجد کے ٹرسٹی میر شعبان علی خان نے نیا رومال
حافظ صاحب کے شانے پر رکھا اور گویا ہوئے۔ اللہ کا شکر ہے کہ آج ہم پھر
تراویح مکمل ہوئی ۔ مجھے امید نہیں تھی کہ اس کا موقع ملے گا ۔ پچھلے رمضان
میں کورونا کے سبب میں اسپتال کےاندر انتہائی نگہداشت میں آخری سانسیں گن
رہا تھا ۔ ڈاکٹر ناامید ہوگئے تھے لیکن آپ کی دعاوں سے رب کائنات مجھے نئی
زندگی دی۔ ارشادِ ربانی ہے :’’ ان سے کہو کہ زمین میں چلو پھرو اور دیکھو
کہ اُس نے کس طرح خلق کی ابتدا کی ہے، پھر اللہ دوسری بار بھی زندگی بخشے
گا‘‘۔ویسے دوسری زندگی آخرت کی ہے مگر میں تو گویا اس دنیا میں ہی میں پھر
سے مرنے کے لیے جی اٹھا ۔دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو۔
میر شعبان علی بول رہے تھے،گھر آنے کے بعد مسجد میں آنا جانا شروع ہوا تو
کرسی کی محتاجی تھی ۔اللہ تعالیٰ کے سامنے کرسی پر بیٹھنا اور اشارے سے
سجدہ کرنے کی کوفت کا اندازہ اس کیفیت سے گزرنے والا ہی کرسکتا ہے۔ مجھے
یقین ہوگیا تھا کہ اب اسی حالت میں حق باری تعالیٰ کے سامنے حضوری ہوگی
لیکن پیر وں میں جان آئی۔رمضان کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے مجھے اس مجبوری
سے نجات دے دی اور اس تراویح میں سجدہ اور قائدہ کی سعادت نصیب ہوئی ۔ یہ
کہتے کہتے میر صاحب کی آنکھیں نمناک ہوگئیں آواز روندھ گئی ۔ امامِ مسجد
رجب سید صاحب کو مائک تھما کر وہ منبر کے قریب بیٹھ گئے۔
امامِ مسجد نے کہا حاضرین کرام میر صاحب آپ کو ایک سال قبل لے گئے تھے میں
ایک اور سال پہلے لیے چلتا ہوں ۔ کورونا کے لاک ڈاون کی پابندیوں پر سختی
سے عمل ہورہا تھا ۔ پانچ لوگوں کو نماز میں شرکت کی اجازت تھی۔ چہار جانب
ہو کے عالم میں رمضان مبارک نے دستک دی ۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا حافظ
رمضان علی خان سے تراویح میں قرآن سنا ۔ ان کے بغیر رمضان اور تراویح کا
تصور محال تھا ۔ مسجد کے ذمہ داران نے مجھے آخری دس صورتوں کے ساتھ تروایح
پڑھانے کا حکم دیا تو کسک محسوس ہوئی ۔ 28؍شعبان کو بعد عشاء دروازے پر
دستک ہوئی ۔ دروازہ کھولا تو سامنے حافظ صاحب کا چہرۂ پرنور مسکرا رہا تھا
۔ اندر آنے کے بعد حافظ صاحب معانقہ کے لیے کھڑے نہ رہ سکے ۔ نیچے بیٹھ کر
مصافحہ کیا ۔
میر صاحب نے پوچھا حافظ صاحب ، سواریاں بند ہیں کرفیو لگا ہے ۔ آپ کیسے
آگئے ؟ حافظ صاحب بولے شب برأت سے یہاں آنے کے لیے بے چین تھا لیکن جب
ارادہ کرتا تو کوئی گرفتاری سے ڈراتا یا کورونا کا خوف دلاتا ۔ خیر تین دن
قبل میں کسی کو بتائے بغیر پیدل چل پڑا ۔ یہ سوچا کہ اگر رحمت آباد میں نہ
سہی تو جیل میں رمضان گزاروں گا اور اگر اس دوران داعیٔ اجل کا بلاوا
آجائے تو اسے سعادت سمجھوں گا لیکن فرمانِ ربانی ہے: ’’جو لوگ ہماری خاطر
مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے، اور یقیناً اللہ نیکو
کاروں ہی کے ساتھ ہے‘‘۔ تین دن کے پیدل سفر نے حافظ صاحب کو تھکا کر چور
کردیا تھا۔ اگلے دو دن ہم نے ان کی ہاتھ پیر دبا کر خوب خدمت کی یہاں تک کہ
وہ عشاء اور تراویح پڑھانے کے قابل ہوگئے۔
سنسان مسجد کے اندر فاصلے سے کھڑے ہوئے چند مصلیان کو بھی حافظ جی اسی سوزو
گداز کے ساتھ قرآن سنا رہے تھے ۔ میں اس رمضان کی تراویح کو کبھی بھول
نہیں سکتا ۔ یہ کہہ کر امام رجب طیب بیٹھ گئے ۔اب حافظ صاحب کی باری تھی
انہوں نے کہا میرے پیش رو ساتھیوں نے سب کچھ کہہ دیا میرے لیے کچھ نہیں
چھوڑا۔ مجمع کے اندر سے ایک ننھے نمازی نے سوال کیا حافظ صاحب صرف اتنا بتا
دیں کہ چند لوگوں کو تراویح پڑھاتے ہوئے آپ کا جوش و خروش کم کیوں نہیں
ہوا؟ حافظ صاحب مسکرا کر بولے بیٹا میری نظرپیچھے مقتدیوں پر نہیں سامنے
مالک حقیقی پر تھی۔ وقت ہوگیا ہے اب مجھے چلنا چاہیے کیونکہ مہمان تو جانے
کے لیے ہی آتا ہے، سو چلا جاتا ہے۔ حافظ رمضان علی خان کو الوداع کہنے کے
لیے مسجد کاہر نمازی بس اڈے پر پہنچ گیا تھا۔ ان لوگوں کو نبی ٔ کریم ﷺ کی
بشارت ہے:’’ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میرے لیے آپس میں مُحبت
کرنے والوں، ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے والوں ، اور ایک دوسرے کو جا کر
ملنے والوں ، اور اپنی قوتیں صرف کرنے والوں کے لیے میری مُحبت واجب
ہوگئی‘‘۔
|