بغیر مساجد والے کمپلیکس اورپی ایس بی کی نالائق ترین انتظامیہ

ایک زمانے میں ایک بڑے صاحب جو آج کل ٹورازم ڈیپارٹمنٹ میں بڑے عہدے پر براجمان ہیں حالانکہ ان کا تبادلہ ٹورازم ڈیپارٹمنٹ سے سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں ہو چکا ہے تاہم چونکہ ان کا ڈنڈا مضبوط ہے اس لئے مضبوط ڈنڈے والے افراد اپنے من پسند عہدوں پر رہتے ہیں -انہی صاحب نے مختلف سپورٹس کمپلیکسز کیلئے بننے والے پی سی ون سے مساجد ختم کردئیے اور ایک بھرے اجلاس میں کہا تھا کہ یہ سپورٹس کمپلیکس ہے یہاں پر مساجد کی ضرورت نہیں‘ ٹھیک ہے نماز اور عقید ہ ہر ایک کا اپنا ہی ہے لیکن اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے حیات آباد سپورٹس کمپلیکس سمیت تمام نئے بننے والے سپورٹس کمپلیکسز سے مساجد ختم کردی

پشتو زبان کی ایک مثل ہے "چی ثواب ھم دا چا چا پہ قسمت کے وی"یعنی ثواب بھی کسی کسی کی قسمت میں لکھا ہوتا ہے‘ کوئی چاہے بھی تو وہ اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو کر اپنے دل پر لگ کالک کو ختم کرنے کی استدعا کرسکتا ہے لیکن اس کیلئے شرط بھی یہی ہے کہ خلوص نیت سے دعا ہو‘ ہم اس بدقسمت لوگ ہیں جو دنیا کی خاطر اپنی ابدی زندگی کو برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور ہمیں اس کا اندازہ ہی نہیں‘ اللہ ہم سب کے حال پر رحم کرے. ثواب کے حوالے سے آغاز اس لئے لکھا کہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹر یٹ جس کے روح رواں صوبائی وزیراعلی خیبر پختونخواہ ہیں اور جن کے لیڈر نے مدینے کی ریاست کا دعوی کیا تھا یہ الگ بات کہ اس ریاست کے دعویدار پرائی بیٹیو ں‘ بہنوں کو نچا کر اس کی بنیاد رکھ رہے تھے اور اپنے اہلیہ کو گھریلو خاتون قرار دیکر دوسروں کیلئے جہاد قرار دینے والے رہنما نے اس ثواب سے اپنے گھر والی کو محروم کردیا.خیر یہ ان کا اپنا گھریلو معاملہ ہے اس میں عوام کے ٹیکسں کا پیسہ نہیں لگ رہا سو ہم بھی اس پر بات نہیں کرتے لیکن..صوبائی نظامت کھیل واحد ڈیپارٹمنٹ ہے جس پر عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ لگتا ہے اور اس میں کام کرنے والے عوامی ملازم‘ یہ الگ بات کہ اس میں بیٹھے کچھ افسران اپنے آپ کو خدا سمجھ کر ہر وہ کام کرتے ہیں جس سے انہیں دلی سکون ہو‘لیکن اپنے دلی سکون کیلئے کی جانیوالے ان کے اقدامات انہیں ساری عمر بے سکون ہی رکھتے ہیں

اتنی لمبی تمہید صرف یہ بتانے کیلئے لکھ دی کہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے زیر انتظام بننے والے بیشتر سپورٹس کمپلیکس میں مساجد نہیں‘ حتی کہ پشاور سپورٹس کمپلیکس میں بھی ٹوٹی پھجی ایک مسجد ہے جس میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ‘ پی ایس بی پشاور کوچنگ سنٹر اور ٹورزم اینڈ کلچر اتھارٹی کے ملازمین نماز پڑھتے ہیں‘ ایک زمانے میں بننے والے اس مسجد کیلئے سابق ڈائریکٹر جنرل اسفندیار خٹک نے ذاتی جیب سے کچھ کام کیا لیکن وہ بھی ناکافی ہی ہے‘ اس ڈیپارٹمنٹ کے سینکڑوں ملازمین افسران کے دفتروں میں جی حضوری کیلئے تو تیار ہیں مگر اللہ کے گھر کو پانی کی سپلائی دینے کیلئے ایک ٹیوب ویل کا ایک بٹن دبانے کی استطاعت نہیں رکھتے کیونکہ انہیں اللہ کی حضور پیش ہونے کا ڈر نہیں.اسی وجہ سے پشاور سپورٹس کمپلیکس کے واحد مسجد میں ہر وقت پانی کی کمی کا سامنا رہتا ہے.اس مسجد کیلئے سپورٹس ڈیپارٹمنٹ کے پاس پیسے نہیں‘ حالانکہ یہ وہی سپورٹس ڈیپارٹمنٹ ہے جس کے کنٹریکٹر سے ملازمین کے گھروں میں تعمیراتی کام تو کرائے جاسکتے ہیں مگر مسجد کو بہتر کرنے کیلئے کسی کو خیال ہی نہیں اسی وجہ سے پشاور سپورٹس کمپلیکس کے واحد مسجد کی تعمیراتی کام پر کسی کی توجہ ہی نہیں..

سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے زیر انتظام صوبائی دارالحکومت پشاور جیسے شہر میں واقع حیات آباد سپورٹس کمپلیکس سمیت ارباب نیازکرکٹ سٹیڈیم میں مسجد تک نہیں‘ نہ ہی انہیں بنانے کا کسی کو خیال ہے‘ ایک زمانے میں ایک بڑے صاحب جو آج کل ٹورازم ڈیپارٹمنٹ میں بڑے عہدے پر براجمان ہیں حالانکہ ان کا تبادلہ ٹورازم ڈیپارٹمنٹ سے سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں ہو چکا ہے تاہم چونکہ ان کا ڈنڈا مضبوط ہے اس لئے مضبوط ڈنڈے والے افراد اپنے من پسند عہدوں پر رہتے ہیں -انہی صاحب نے مختلف سپورٹس کمپلیکسز کیلئے بننے والے پی سی ون سے مساجد ختم کردئیے اور ایک بھرے اجلاس میں کہا تھا کہ یہ سپورٹس کمپلیکس ہے یہاں پر مساجد کی ضرورت نہیں‘ ٹھیک ہے نماز اور عقید ہ ہر ایک کا اپنا ہی ہے لیکن اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے حیات آباد سپورٹس کمپلیکس سمیت تمام نئے بننے والے سپورٹس کمپلیکسز سے مساجد ختم کردی.انہوں نے یہ کام کیوں کیا‘ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا راگ الاپنے والوں سے بھی ایک سوال ہے لیکن اگر وہ کسی وجہ سے نہیں پوچھ سکتے تو کوئی بات نہیں "پوچھنے والا دن بھی آئیگا اور پوچھنے والا اللہ بھی ہے "

پوچھنے پر یاد آیا کہ اب تک کسی نے بھی یہ سوال پاکستان سپورٹس بورڈ جو وفاق کا ایک غیر قانونی ادارہ ہے‘ غیر قانونی اس صورت میں کہ اٹھارھویں ترمیم کے بعد اس کا کوئی اختیار نہیں لیکن چونکہ پیسہ اس میں بہت ہے اس لئے وفاق بھی اس غیر قانونی وزارت کے پیچھے لگی ہوئی ہیں اب تک کوئی یہ سوال نہیں کرسکا ہے کہ آنیوالے تین مختلف بین الاقوامی کھیلوں کیلئے کھیلوں کے کوچنگ کیمپ شروع ہی نہیں کیا جاسکے‘ ایشین گیمز‘ کامرن ویلتھ گیمز اور اسلامک سالیڈیرٹی گیمز کیلئے کیمپ کہیں پر نہیں لگا‘ پی ایس بی ان سب کی ذمہ دار ہے اس سے قبل اولمپک میں ہونیوالی ناقص کارکردگی کی ذمہ داری پی ایس بی نے پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن پر ڈال دی تھیجبکہ وفاقی حکومت سے لی جانیوالے کروڑوں روپے واپس کردئیے تھے حالانکہ اس سے قبل کئی فیڈریشنز نے ان سے فنڈز کیلئے رابطہ کیا تھا تاہم فنڈز متعلقہ فیڈریشن کو نہیں دئیے گئے نہ ہی کوئی کیمپ لگا‘ کم و بیش اس وقت پینتیس سے زائد کھیلوں کے فیڈریشنز ہیں اور کم و بیش اتنے ہی کھیلوں سے وابستہ کھلاڑی آنیوالے ان تینو ں مقابلوں میں حصہ لینے کیلئے جائیں گے لیکن اگر کیمپ نہیں لگا تو پھر ان کی کارکردگی کیسی ہوگی یہ سول پی ایس بی میں بیٹھے نالائق ترین افراد جنہیں صرف جی حضوری آتی ہے.ا ن سے کرنے کی ضرورت ہے قبل ازیں تبدیلی والی سرکار کے دور میں وہ تبدیلی والی سرکار کی مالا جھپتے تھے اب حکومت تبدیل ہو گئی ہیں اس لئے اب نئے سیاسی پارٹی سے وابستگی دکھا کر اپنی سیٹ کنفرم کرنے کے چکر میں ہیں.

پشاور سے تعلق رکھنے والے پی ایس بی کے ڈائریکٹر جنرل جب سے عہدے پر آئے ہیں انہوں نے کھیلوں کے فروغ کیلئے کچھ نہیں کیا‘ سوائے ملازمین کے تبادلوں کے‘ کیونکہ ان کا تعلق اس ادارے سے نہیں سار ی عمرسکواش کھیلی اسی وجہ سے سکواش کے لوگ انکے پسندیدہ افراد کی فہرست میں شامل ہے. بھلے سے کارکردگی ٹکے کی نہ ہو لیکن جی حضوری کرنا جانتا ہو‘ اسی بنیاد پر کسی کو بھی ڈائریکٹر بنایا جاسکتا ہے جس کی مثال پشاور سپورٹس بورڈ اینڈ کوچنگ سنٹر بھی ہے. پی ایس بی کے ڈائریکٹر جنرل نے کس لیول پر سکواش کھیلی,یہ بھی اللہ ہی جانے. لیکن چونکہ ان کا تعلق اس ادارے سے ہے جو ریٹائرڈ ہو کر بھی ملک و قوم پر مسلط رہتے ہیں.جب سے ان کی وابستگی پی ایس بی سے ہوئی ہے بس ٹھیکوں اور کنٹریکٹ کا دور ہی چل رہا ہے نئی بلڈنگ تو نہیں بن رہی‘ پشاور پی ایس بی سمیت ملک بھر کے سنٹرز کے ری نویشن پر کروڑوں روپے لگا دئیے گئے و ہ بھی من پسند کنٹریکٹرز کو‘ لیکن کھلاڑیوں کے تربیتی سیشن کیلئے کوئی کیمپ نہیں‘ حالانکہ ان کے مقابلے میں پڑوسی ملک بھارت کے کھلاڑی کئی سالوں سے مختلف ممالک میں تربیت حاصل کررہے ہیں‘ کئی کئی سالوں سے ملک کے اندر مختلف جگہوں پر کھیلوں کے مختلف کیمپ لگے ہیں اور انہیں بیرون ملک کے کوچز تربیت دے رہے ہیں لیکن یہاں پر کھلاڑیوں کا اور کھیل کا کسی کو احساس ہی نہیں‘ حالانکہ ان جیسے اور بہت ساروں کی تنخواہیں اور مستیاں‘ مراعات‘ گاڑی‘ دفاتر سب کچھ ان کھلاڑیوں کے مرہون منت ہے لیکن ان کی طرف توجہ کون دے.. ہاں اب ان کے مقابلے میں کنٹریکٹر سے سرکاری ریٹ پر کمیشن بھی ملتا ہے اس لئے. پاپی پیٹ. کیلئے سب کچھ جائز ہے. ویسے اگر ان حالات میں ایشین گیمز‘ اسلامک سالیڈیرٹی اور کامن ویلتھ گیمز میں پاکستان کی ٹیم کوئی کارکردگی نہیں دکھا سکی تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا.. یہ سوال ابھی سے پوچھنے سمیت ذمہ داروں کا تعین کرنے کی بھی ضرورت ہے.. کیونکہ " پہ روان جنگ کے اسونہ نہ تیاریگی" یعنی جنگ اگر چل رہی ہو تو پھر گھوڑوں پر زین نہیں کسے جاسکتے.
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 419590 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More