میں کیا بن کر رہ گیا!

( ہمارے وسط طبقے کے ایک باپ کی روداد)

میں ایک باپ ہوں اور میری کہانی کا آغاز جب ہوا تب وہ ایک شوخ و چنچل لڑکی تھی اور میں ایک خواب دیکھنے والا نوجوان ۔۔۔ ہم عقدِ نکاح کی گرہ میں بندھے اور زندگی کی سیدھی راہ نے یکدم نوے (°90) ڈگری کا موڑ لیا۔۔۔ پھر وہ گھر کی رانی بن گٸی اور میں اس کا راجا۔۔۔

کچھ وقت گزرا ۔۔۔ اللہ نے اپنا کرم کیا اور ہمیں اولاد کی انمول نعمت سے نوازا۔۔۔ پھر وہ ماں بن گٸی اور میں باپ ۔۔۔

یہ وہ دن تھا جب ہماری زندگی کی گاڑی عملی شاہراہ پر چڑھ گٸی ۔۔۔ اس نے گھر کے نظام کی باگیں سنبھال لیں اور میں زریعہ معاش کے بے لگام گھوڑے کو قابو کرنے لگا۔۔۔ پھر وہ ایک گھر بنانے والی ماں بن گئی اور میں ایک گھر چلانے والا باپ۔۔۔

وہ میری حلال کماٸی کو کفایت شعاری سے استعمال کرتی رہی اور میں متواتر محنت کر کے اپنی آمدنی کی بڑھوتری میں لگا رہا ۔۔۔ پھر وہ محدود ذرائع میں گھر چلانے والی ماں بن گٸی اور میں ایک کم آمدنی والا باپ۔۔۔

گھر میں بچے شررت کرتے ہوٸے گرے یا ایسے ہی کوٸی چوٹ لگی، اس نے جھٹ سے گلے لگایا ۔۔۔ شام کو جب میں گھر آیا تو میں نے دلاسا دیتے ہُوئے انہیں سمجھایا ۔۔۔ پھر وہ بے پناہ محبت کرنے والی ماں بن گئ اور میں فقط ایک سمجھانے والا باپ۔۔۔

بچوں نے چھوٹی چھوٹی غلطیاں کرنی شروع کیں جن پر اس نے ان کی حمایت کی اور میں نے ان کو ہدایت کی۔۔۔ پھر وہ ایک ہمدرد ماں بن گٸی اور میں محض ایک نصحیتیں کرنا والا باپ ۔۔۔۔

"بابا ناراض ہوں گے" یہ کہہ کر اس نے اپنے بچوں کی تربیت کی اور ”آٸندہ خیال رکھنا کہ غلطی نہ ہو“ کہہ کر میں نے ان کو تنبیہ کی ۔۔۔ پھر وہ ان کی حساس ماں بن گئ اور میں صرف ایک غصہ کرنے والا باپ۔۔۔

وہ سارا دن بچوں سے راز و نیاز کرتی رہی اور میں دن کی دوڑ دھوپ کے بعد گھر آکر اگلے دن پھر کام کے لٸے تروتازہ ہونے کے واسطے اپنی محبت دل میں دباٸے سوجاتا ۔۔۔ پھر وہ ان کی دوست ماں بن گٸی اور میں ایک اجنبی باپ۔۔۔

وہ بچوں کی بےجا خواہشات کے لیے مجھ سے ضد کرتی اور میں اپنے بٹوے کی مخدوش حالت دیکھ کر کمزور دل اور مضبوط آواز سے انکار کردیتا ۔۔۔ پھر وہ ایک لاڈ چاٶ کرنے والی ماں بن گٸی اور میں ایک بخیل باپ۔۔۔

وہ اپنی ممتا کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان کے عیب چھپاتی رہی اور میں نے ان کا کردار بنانے کی خاطر ان کی خطاٶں کو ہرگز اَن دیکھا نہ کیا۔۔۔ پھر وہ ایک ہم عصر رقیق بن گٸی اور میں ایک فرسودہ خیال باپ۔۔۔۔
گھر میں پریشانیاں آٸیں۔۔ مشکل وقت پڑا وہ کبھی میرے کندھے پر سر رکھ کر اور کبھی بچوں کو گلے لگا کر روٸی اور میں اپنے اندر کے روتے بچے کو نظراندز کر کے استحکام کے ساتھ مقابلہ کرتا رہا۔۔۔ پھر وہ ایک حساس ماں بن گٸی اور میں ایک بےحس باپ ۔۔۔

وقت یوں ہی گزرتا گیا اور مجھے پتا ہی نہ چلا کب ان آنکھوں میں اپنے خوابوں کی جگہ، بچوں کے مسقبل نے لے لی ۔۔۔ اس دوران وہ گھر کی چھاٶں میں رہ ان کے لیے ٹھنڈی چاندنی بنتی چلی گئی اور میں کھلے آسمان کے تلے رہ کر ایک آگ اگلتا سورج بن کر رہ گیا۔۔۔

پس وہ ایک "رحم دل اور شفیق ماں" بن گٸی اور میں ان سب لوگوں کی زندگی کا بوجھ اٹھانے والا صرف ایک ایسا باپ بن گیا جس کی ظاہری کرختگی تو سب کو دکھتی رہی مگر اندر کی نرمی کبھی کسی کو نظر نہ آٸی ۔۔۔ جس کا ادھوراپن تو سب کی نظر میں رہا مگر ادھورے ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں کسی کو نہ نظر آٸی ۔۔۔ جس کا ظالم وقت کے ہاتھوں لڑتے تلخ لہجہ تو سب نے سنا مگر کھردارے ہاتھ کسی نے نہ دیکھے ۔۔۔
صاٸمہ قریشی ©️
#MywordOnMycanvas
Saima Qureshi ©️
 
Saima Qureshi
About the Author: Saima Qureshi Read More Articles by Saima Qureshi: 17 Articles with 15493 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.