ضم اضلاع کے پشاور میں مقابلے اور رنگین عینک

کھیلوں کا بنیادی مقصد معاشرے کے نوجوان نسل کو مثبت سرگرمیوں میں مشغول رکھنا اورانہیں صحت مند زندگی کی طرف راغب کرنا بھی ہوتا ہے لیکن برا ہو اس سیاست کا جو ہر چیز میں گھس آئی ہے جس کے باعث کھیلوں کا شعبہ بھی ابتر ہوتا جارہا ہے. گذشتہ دنوں ضم اضلاع کے سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے پشاور میں کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد کیا جس میں مختلف مدارس کے طلباء نے حصہ لیا‘ یہ الگ بات کہ وفاق المدارس عربیہ جس کا پاکستان میں سب سے بڑا نیٹ ورک ہے اور ان کے ترجمان کے مطابق ضم اضلاع میں کم و بیش ساڑھے سات سو کے قریب مدارس ان کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں کو اس بارے میں معلومات ہی نہیں تھی کیونکہ ان کے بقول کسی بھی سرگرمی کے بارے میں متعلقہ مدرسہ وفاق المدارس عربیہ کو آگاہ کرتا ہے تاہم ان کھیلوں کے مقابلوں میں انہیں پتہ ہی نہیں جس کا مطلب یہی رہا کہ ان رجسٹرڈ مدارس کے طلباء کو ان مقابلوں میں شریک کرکے میلہ سجایا گیا.

خیر سجانے کو سپورٹس ڈائریکٹریٹ برائے ضم اضاع کچھ بھی کرسکتی ہیں لیکن حیران کن طور پر یہ مقابلہ جو ضم اضلاع کے کھلاڑیوں کے تھے اور انہیں متعلقہ اضلاع کے ڈسٹرکٹ میں واقع سپورٹس کمپلیکس میں کرایا جانا چاہئیے تھا انہیں پشاور کے سپورٹس کمپلیکس میں لانے کا مقصد کیا تھا‘ سوالات تو بہت سارے بنتے ہیں مگر سب سے پہلا سوال کہ کیا یہ مدارس پشاور کے تھے کہ انہیں یہاں پر لاکر مقابلے کروائے گئے‘ جس کے باعث پشاور سپورٹس کمپلیکس تین دن مختلف کھیلوں کیلئے بھی بند رہا‘ کیا ضم اضلا ع میں سپورٹس سٹیڈیم موجود نہیں‘ اگر موجود ہیں تو کیوں ان اضلاع میں مقابلے نہیں کروائے گئے‘ کیا یہ صرف ٹی اے ڈی کا چکر تو نہیں تھا اور اگر نہیں تو پھر ان اضلاع کو جنہیں ضم ہوئے بھی عرصہ گزر چکا ہے قبل ازیں بھی سٹیڈیم کی تعمیر جاری تھی اور اب بھی ماشاء اللہ جاری ہے. کیا یہ مقابلے وہاں پر جہاں سے ان کا تعلق تھا متعلقہ ضلع میں کرکے لوگوں کو مدارس کے حوالے سے بہتر تاثر پیدا نہیں کیا جاسکتا. اخراجات بھی کم آتے‘ پھر جو لوگ اپنے اضلاع میں ٹاپ پوزیشن میں آتے انہیں پشاور لا کر ان کے مابین مقابلے کروائے جاتے تو پھر بھی کھ بات بنتی لیکن باتیں تو بہت ساری ہے جو وقت کیساتھ ساتھ سامنے آئینگی..مزے کی بات کہ "ان مقابلوں میں بھی " چل چلاؤ"والا کام کرایا گیا‘ والی بال کے آفیشل نہ ہونے کے باعث پشاور سپورٹس کمپلیکس کے ملازمین کو آفیشل کے طور پر بلا کر ٹیکنیکل کا کام کروایا گیا‘ حالانکہ والی بال کے اپنے رولز و ریگولیشن ہیں مگر کیا کریں کچھ لوگ بلیو بک میں شامل ہوتے ہیں جنہیں خوش کرنے کیلئے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے اور ضم اضلاع کے سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے یہ کا م بہت خوب کیا.

سوات سے تعلق رکھنے والے غریب پرور وزیراعلی خیبر پختونخواہ جو وزارت کھیل کے وزیر ہیں کی کیا ہی بات ہے سندھ کے وزیراعلی جنہوں نے پٹرول کی بڑھتی قیمتوں اور اخراجات کو کنٹرول کرنے کیلئے ایک اعلان کیا تو اپنے محمود خان کو بھی خیال آہی گیا انہوں نے بھی اعلان کردیا لیکن وہ اپنے ہی ڈیپارٹمنٹ کی عیاشیوں سے آگاہ نہیں‘ یہ واحد ڈیپارٹمنٹ ہے جس کے ہر ملازم کے پاس گاڑی ہیں اور انہیں سرکاری پٹرول بھی الاٹ ہیں‘ اور صر ف نام کی حد تک ان ملازمین سے کٹوتی ہوتی ہیں بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ کسی کو ایک سو لیٹر الاٹ ہو اور ان سے ماہانہ چار سے پانچ ہزار روپے کی کٹوتی ہو‘ کیونکہ یہ ملازمین ہیں‘ بعض ایسے افسران بھی شامل ہیں جو کہ ایک کی جگہ دو دو گاڑیاں استعمال کرتے ہیں پٹرول چونکہ ان کے اپنے جیب سے نہیں ہوتا اس لئے وہ سٹیڈیم میں پھرنے کیلئے بھی گاڑیاں استعمال کرتے ہیں بلکہ اب تو اتنے کفایت شعار ہیں کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں واقع باکسنگ رنگ کے ساتھ چمن کو دینے والی پانی کے پائپ سے ان کے ڈرائیور گاڑیاں کی سروس کرتے ہیں تاکہ صاحب لوگوں کو باہر پانچ سو روپے نہ دینا پڑے. زور بہ چالا وی..تقریبا یہی صورتحال ہاسٹل میں رہائش پذیر افرادکے بارے میں بھی ہیں‘ کم و بیش ایک دہائی سے لوگ رہائش پذیر ہیں ایک کی جگہ دو دو کمرے ہیں‘ جن میں سب میں ائیر کنڈیشنڈ کا استعمال بھی عام ہے یہی وجہ ہے کہ صرف ہاسٹل بجلی کی مد میں دس لاکھ اور کبھی چودہ لاکھ تک بل آتا ہے. اپنے گھروں میں ہاتھ کے پنکھے سے گزارا کرنے والے کتنی آسانی سے ائرکنڈیشنر استعمال کرتے ہیں کیونکہ بل عوامی ٹیکسوں کا پیسہ ہوتا ہے اس لئے ان کا دل بھی نہیں دکھتا. یہی حال ہاکی گراؤنڈ میں قابض نام نہاد ایسوسی ایشن کا بھی ہے جہاں پر دو مختلف فیڈر سے بجلی کی فراہمی دن و رات جاری ہتی ہیں اور دو ائیر کنڈیشنر چلا ئے جاتے ہیں کیونکہ وہاں پر رہائش پذیر افراد سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انتظامیہ کے تارے ہیں.اگر غریب پرور وزیراعلی کو پتہ نہیں تو یہ ان کی نااہلی ہے اور اگرپتہ ہے اور خاموش ہیں تو وہ بھی عوامی ٹیکسوں کے پیسوں کو اڑانے میں ملوث ہیں ویسے اگر وزارت اتنے ہی مجبور ہیں تو پھر سولرائزیشن کا عمل کرکے اخراجات کنٹرول بھی کئے جاسکتے ہیں.کیونکہ ویسے بھی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو اب ڈیپارٹمنٹ آف ڈویلپمنٹ کہا جاتا ہے.

مولا خوش رکھے.. راقم کی کڑوی کسیلی باتیں بہت کم لوگ پسنداور برداشت کرتے ہیں اور تو اور اپنے ہی برادری کے لوگوں کو بھی گلہ ہے کہ راقم ان کے بارے میں لکھتا ہے‘ ویسے آپس کی بات ہے کیا صحافی قانون سے بالاتر ہے اور ایسے صحافی جو صحافی بھی نہ ہوں‘ صرف صافی ہوں‘ یعنی صفائی کرنے والے ہوں‘ اب تو دور یہ آگیا ہے کہ صفائی کرنے والے لوگوں کو افسران سے لیکر کلاس فور تک سب پسند کرتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ جون میں دئیے جانیوالے سالانہ گرانٹ اینڈ ایڈ میں بہت ساری تبدیلیاں سب کیلئے کی گئی ہیں مگر واحد صحافی ہیں جو ان رجسٹرڈ ایسوسی ایشن پر لاکھوں روپے لیتے ہیں حالانکہ رجسٹرڈ پشاور پریس کلب کے صحافیوں کی موجودگی میں سرکار ی ملازمین پر مشتمل کسی بھی غیر رجسٹرڈ ایسوسی ایشن کی کوئی ضرورت نہیں لیکن کیا کیا جائے.کوئی پوچھنے والا ہی نہیں.بس کیا صحافی اور کیا ملازم‘ اگر گڈ بک میں شامل ہو تو پھر من پسند جگہوں پر من پسند بھرتیاں ہوتی ہیں . ویسے کمال کی بات ہے کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے اب سوشل میڈیا کیلئے الگ لوگ تعینات کردئیے ہیں. جو صاحب لوگوں کی تصاویر اپ لوڈ کرتے ہیں تاہم انہیں یہ نہیں پتہ کہ خبرو ں اور تصاویر من پسند افراد کو نہیں دی جاتی بلکہ سب کیساتھ شیئر کی جاتی ہیں اسی کے ساتھ ساتھ صاحب کی سرگرمیوں کے بارے میں بھی بتانا پڑتا ہے.برا ہو اس رنگین عینک کا‘ جس میں سب کچھ رنگین نظر آتا ہے اور مخصوص لوگ ہی نظر آتے ہیں. خیر کوئی بات نہیں.. رنگین عینک بہت ساروں کی نکل گئی.. وقت کیساتھ ان کی رنگین عینک بھی نکل جائیگی..

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 637 Articles with 499493 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More