#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالفتح ، اٰیت 29 !
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیت و مفہومِ اٰیت !!
محمد
رسول اللہ
والذین معهٗ
اشدآء علی الکفار
رحماء بینھم تراہم
رکعا سجدا یبتغون من
اللہ و رضوانا سیماھم فی
وجوھہم من اثر السجود ذٰلک
مثلھم فی التورٰة و مثلھم فی الانجیل
کزرع اخرج شطاهٗ فاٰزرهٗ فاستغلظ فاستوٰی
علٰی سوقهٖ یعجب الزراع لیغظ بھم الکفار وعد
اللہ الذین اٰمنوا منھم مغفرة و اجرا عظیما 29
مُحمد جو اللہ کے رسُول ہیں اور رُفقاۓ مُحمد جو مُحمد کے اَصحابِ مقبُول
ہیں اُن اَصحابِ مقبُول کی حق پرست جماعت حق کے دُشمنوں کے لیۓ سخت تر اور
باہم دِگر شیر و شکر ہے ، تُم جب بھی اُس جماعت کو خود سے دُو بدُو دیکھو
گے تو اُس جماعت کو خُدا کے رُو برُو اِس طرح سرنگوں پاؤ گے کہ گویا وہ
اپنی اسی خاک ساری میں خُدا کا فضل اور خُدا کی رضا چاہتی ہے ، اِس کی
پیشانی کا یہی نُور اِس کے اُس قلبی سرُور کی نشانی ہے جس کو تورات و انجیل
میں فصلِ گُل کے اُس شگوفے سے تشبیہ دی گئی ہے جو پہلے اِک ذرا سی جان پاتا
ہے ، پھر وہ اپنی جَڑ جماتا ہے اور پھر وہ اپنے وجُود پر اِس طرح کھڑا ہو
جاتا ہے کہ بہار خواہ کا دل کِھل جاتا ہے اور بَد خواہ کا حسد و جسد خاک
میں مل جاتا ہے ، جو لوگ محمد پر ایمان لاۓ ہیں اور لالہ و گُل کی طرح ایک
فطری تدریج کے ساتھ اپنی عملی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے لگے ہیں اُن کو اللہ
نے اپنی پناہ میں لے لیا ہے اور اُن کو فتحِ مُبین کا حق دار بنا دیا ہے !
مطالبِ اٰیت و مقاصدِ اٰیت !
انسانی تاریخ کے جس زمان و مکان میں اللہ تعالٰی کا جو بھی نبی یا رسُول
اللہ تعالٰی کی طرف سے مامُور بالاَمر ہوا ہے تو اُس زمان و مکان میں اُس
نبی اور رسُول کے بارے میں انسانی ذہن میں جو پہلے تین بُنیادی سوال پیدا
ہوتے ہیں اُن میں پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُس نبی یا رسُول کا پیغام
کیا ہے اور اُس پیغام کی علمی و عملی حیثیت یا اہمیت کیا ہے ، اگر اُس نبی
اور رسُول کی وہ پیغام اہلِ زمین و اہلِ زمانہ کے لیۓ قابلِ فہم ثابت ہو
جاۓ تو اُن کے دل میں اُس نبی یا رسُول کے اَحوالِ ذات کے حوالے سے یہ سوال
پیدا ہوتا تھا کہ اُس نبی یا رسُول کی سیرت و بصیرت کیسی ہے اور جب اُن کو
اُس نبی اور رسُول کی سیرت و بصیرت کے بارے میں بھی اطمینان ہو جاتا تھا
اُن کے سامنے یہ تیسرا سوال آجاتا تھا کہ جو افراد اُس نبی یا رسُول پر
ایمان لاۓ ہیں اُن کی عملی اور اخلاقی حالت کیا ہے ، وہ اپنے اُس نبی و
رسُول کے اطاعت گزار ہیں یا ایسے سرکش اور غدار ہیں جو اُس کی بات ایک کان
سے سُنتے ہیں اور دُوسرے کان سے نکال دیتے ہیں اور یہ آخری سوال ہی وہ سوال
ہے جس سے اُس نبی و رسُول کی تعلیم کی گہرائی اور اُس کی اُمت کی اُس دانش
و دانائی کا اندازہ ہوتا ہے جس کے بل بوتے پر تا دیر جینا ہو تا ہے ،
انسانی تاریخ کے اِس تاریخی نقطہِ نظر سے اِس سُورت کے اِس مضمون سمیت
قُرآن کے جُملہ مضامین سیدنا محمد علیہ السلام کی اُس بات کے ضمن میں آتے
ہیں جو بات سیدنا محمد علیہ السلام نے اپنی اُمت کے سامنے پیش کی ہے ،
انسانی ذہن میں آنے والے اُس پہلے فطری سوال کے اِس پہلے فطری جواب کے بعد
اَب اِس سُورت کی اِس آخری اٰیت میں نبی علیہ السلام کی ذات اور نبی علیہ
السلام کی جماعت کے بارے میں اُن دُوسرے دو سوالات کے وہ دو جوابات بھی دے
دیۓ گۓ ہیں جو عہدِ نبوی کے انسان کے دل میں موجُود تھے یا عہدِ نبوی کے
بعد کسی زمانے کے کسی انسان کے دل میں پیدا ہو سکتے ہیں لیکن اِن مضامین کا
ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اِس سُورت کے اِن مضامین کے بارے میں اہلِ روایت و
تفسیر نے پہلے تو اپنے دل میں ایک گمان قائم کیا ہے اور پھر اِس گمان کو
اِس یقین کے ساتھ پیش بھی کردیا ہے کہ اِس سُورت میں وارد ہونے والے یہ
مضامین فتحِ مکہ کے بعد کے وہ مضامین ہیں جن مضامین میں فتحِ مکہ کی خوش
خبر دی گئی ہے لیکن اِس سُورت کی پہلی اٰیت { انا فتحنا لک فتحا مبینا} اِس
سُورت کی اَٹھارھویں اٰیت { لقد رضی اللہ عن المؤمنین } اِس سُورت کی
بیسویں اٰیت { وعدکم اللہ مغانم کثیرة } اور اِس سُورت کی ستائسویں اٰیت {
لقد صدق اللہ رسله الرؤیا بالحق } میں آنے والے یہ سارے کے سارے مضامین
ماضی کے جن صیغوں کے ساتھ لاۓ گۓ ہیں ماضی کے وہ تمام صیغے مُلحق بالحال
اور مؤثر بالمستقبل ہیں جو مکے کے فتح ہونے کی خبر تو ضرور دیتے ہیں لیکن
مکے کے فتح ہوجانے کی خبر نہیں دیتے اور یہ بات اِس بات کی دلیل ہے کہ اِس
سُورت کے یہ سارے مضامین فتحِ مکہ سے پہلے کے وہ مضامین ہیں جن میں مکہ فتح
ہونے سے پہلے مکہ فتح ہونے کی ایک پیش گوئی کی گئی ہے اور اِس سُورت کی اِس
آخری اٰیت کے آخری مضمون نبی علیہ السلام کی مضبوط ذات اور آپ کی ایک مضبوط
جماعت کی جمعیت کا ذکر کر کے اُس پیش گوئی یہ توثیق کی گئی ہے کہ نبی علیہ
السلام کی یہی مضبوط جماعت ہے جس نے مکہ فتح کرنا ہے اور مکہ فتح کرنے کے
نبی علیہ السلام کے اِس آفاقی پیغام کو زمین کے گوشے گوشے تک پُہنچانا ہے
اور اِس کے ساتھ ہی مشرکینِ عرب کو مُستقبل کے بارے میں یہ کُھلا پیغام بھی
دے دیا گیا ہے کہ مکے کی زمین سے بتوں خُدائی کا وہ عارضی دور ختم ہونے
والا ہے جو شیطان کے پیرو کاروں نے شیطان کی مدد سے شروع کیا تھا اور اَب
اِس زمین پر خُدا کی خُدائی کا وہ دائمی دور شروع ہونے والا ہے جو رحمٰن کی
مدد سے محمد علیہ السلام اور آپ کی اُس طاقت ور جماعت کے ذریعے شروع ہو گا
جس طاقت ور جماعت کی سیرت و بصیرت اور جس جماعت کے اخلاق و کردار پر پہلے
تورات و انجیل میں تورات و انجیل کی گواہی ثبت ہوئی تھی اور اَب قُرآن میں
قُرآن کی گواہی بھی ثبت ہو چکی ہے ، اِس اعتبار سے اِس سُورت کا نفسِ موضوع
صرف فتحِ مکہ نہیں بلکہ سیدنا محمد علیہ السلام اور آپ کے اُن اَصحاب و
اَحباب کا وہ تعارف بھی ہے جس تعارف کی رُو سے سیرتِ محمد علیہ السلام اور
سیرتِ اَصحابِ محمد علیہ السلام مُجرد تاریخ کا ایک مُجرد خارجی موضوع نہیں
رہتی بلکہ تورات و انجیل اور قُرآن کا داخلی موضوع بھی قرار پاتی ہے اِس
لیۓ اِس باب میں وہی قُرآنی اٰیات مُعتبر ہیں جو نبی کی ذات و نبی بات اور
نبی کی جماعت کی تصدیق و توثیق کرتی ہیں اور اِس باب میں وہ انسانی روایات
ہر گز مُعتبر نہیں رہتیں جو نبی کی ذات و نبی کی بات اور نبی علیہ السلام
کی جماعت کی توہین و تنقیص پر مُنتج ہوتی ہیں !!
|