حال ہی میں ایک اور سنگین واقعہ بلکہ سانحہ امریکی ریاست
ٹیکساس کے ایک پرائمری اسکول میں پیش آیا جہاں 18 سال کے ایک نوعمر امریکی
سلواڈور راموس نے 19بچوں سمیت 21افراد کو ہلاک کرڈالا اور سیکورٹی فورسز کی
کارروائی میں خود بھی ماراگیا۔ٹیکساس میں واقع راب ایلیمنٹری اسکول میں 24
مئی 2022 ء کو پیش آیا ۔ مرنے والے بچوں کی عمریں 7 سے 10 سال کے درمیان
ہیں۔ یہ سبھی گریڈ 2، 3 اور 4 کے طالب علم تھے۔بتایاگیا ہے کہ سان انتونیو
کا رہائشی بندوق بردار نوجوان سلواڈورراموس راب ایلیمنٹری اسکول میں ہاتھ
میں بندوق اور رائفل کے ساتھ داخل ہوا اور کلاس روم میں جارہے بچوں پر
اندھا دھند فائرنگ کردی۔اس فائرنگ میں19بچوں کے ساتھ ساتھ دو بالغ افراد
بھی ہلاک ہوگئے جن میں ایک ٹیچر تھا۔ سیکورٹی فورسزسے مقابلے کے دوران
راموس کی موت ہوگئی۔ حملہ آور کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں دو پولیس
اہلکار بھی گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے ہیں۔سلواڈور راموس نے اس جرم کا
ارتکاب کیوں کیا، یہ فی الحال واضح نہیں ہے۔ابتدائی اطلاعات کے مطابق
نوجوان سلواڈور راموس ایک پک اپ ٹرک چلاتے ہوئے آیا جو ’راب ایلیمنٹری
اسکول سے چند گز کے فاصلے پر ایک کھائی سے ٹکرایا جس کے بعد راموس ٹرک سے
اترا، اسکول میں داخل ہوا اور فائرنگ کر دی۔گھر سے نکلنے سے پہلے سلواڈور
راموس نے اپنی دادی کو بھی گولی ماری، جو اس وقت اسپتال میں زیر علاج ہیں۔
اس اسکول میں تقریباً 500 طلبا زیر تعلیم ہیں جن میں سے 90 فیصد لاطینی
نژاد امریکی ہیں اور اسکول کے 87 فیصد طلبا کا تعلق پسماندہ خاندانوں سے
ہے۔ 2012ء میں امریکہ کے ہی سینڈی ہوک اسکول گولی باری کے بعد یہ امریکی
تاریخ میں سب سے خطر ناک ترین فائرنگ تھی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے 21لوگوں
کو خاک و خون میں نہلادیا۔ امریکہ کے لاس ویگاس میں ایک شخص نے اندھا دھند
فائرنگ کر کے کم و بیش 59 لوگوں کی جان لے لی۔ اس حادثہ کے بعد امریکہ میں
’گن کلچر کے تئیں لوگوں کی ناراضگی کافی بڑھ گئی ہے۔ جب بھی حکومت اسلحہ سے
متعلق کوئی قانون لانا چاہتی ہے تو امریکہ کے اسلحہ فروخت کرنے والے
کاروباری سرگرم ہو جاتے ہیں اور حکومت پر اس طرح سے دباو بڑھاتے ہیں کہ
حکومت بے بس ہو جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں اسلحہ کی انڈسٹری
ہر سال تقریباً 90 ہزار کروڑ کی کمائی کرتی ہے۔ لیکن دنیا کے سب سے بڑے
اسلحہ ایکسپورٹ کرنے والے ممالک میں شمار امریکہ کے لیے اسلحوں کا شوق اب
مصیبت کی وجہ بنتا جا رہا ہے۔ حالات اتنے خراب ہو گئے ہیں کہ لوگ عوامی
مقامات پر جانے سے خوف کھانے لگے ہیں۔امریکی اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ کے
اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو گزشتہ 477 دن میں 521 اندھا دھند فائرنگ
کے واقعات ہوئے ہیں لیکن امریکی پارلیمنٹ ’کانگریس‘ میں کوئی سخت کارروائی
نہیں کی گئی۔ 1968 ء سے ہی امریکہ میں اسلحہ رکھنے پر پابندی کا مطالبہ
ہوتا رہا ہے لیکن اس جانب کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ امریکی کانگریس سینیٹر
جوسف ٹیڈنگ نے 1968 ء میں ہی کہا تھا کہ ’’یہ بہت خطرناک ہے کہ مغربی کلچر
کے تمام ممالک میں امریکہ ہی واحد ایسا ملک ہے جہاں اتنی خراب ’گن پالیسی‘
ہے۔ امریکہ بندوق کلچر کو فروغ دینے والا ملک بن چکا ہے۔‘‘ امریکہ دنیا کے
ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں اسلحہ رکھنے کا حق آئین سے حاصل ہے۔ دنیا کے
ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں امریکہ میں بندوق سے قتل کا واقعہ کئی گنا
زیادہ ہے۔
امریکہ میں گن کلچر فروغ پانے کے تین اسباب بتائے جا رہے ہیں۔ ان میں
امریکی قانون کے ذریعہ بندوق رکھنے کے حق کو سب سے بڑی وجہ بتایا جا رہا
ہے۔ دوسری وجہ امریکی لوگوں میں شکار کرنے کا شوق مانا جاتا ہے۔ جن دنوں
امریکہ میں شہر آباد ہو رہے تھے اس وقت کثیر تعداد میں جانوروں کا شکار کیا
جاتا تھا۔ اکثر سبھی کسانوں کے پاس اسلحہ ہوا کرتا تھا۔ بندوق پالیٹکس کو
بھی اس معاملے میں سب سے زیادہ ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ ناقدین تو یہ بھی
کہتے ہیں کہ امریکہ میں جتنے قتل دہشت گردوں کے ذریعہ نہیں کیے گئے اس سے
کہیں زیادہ اموات ’ماس شوٹنگ‘ یعنی اندھا دھند فائرنگ کے سبب ہوئی
ہیں۔ریسرچ گروپ گن وائلنس آرکائیو کے اعداد و شمار نے انکشاف کیا ہے کہ
2022 ء سے اب تک ملک میں 140 سے زیادہ بڑے پیمانے پر فائرنگ کے واقعات ہو
چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ریسرچ گروپ نے یہ بھی بتایا کہ ملک میں 5 اجتماعی قتل
ہو چکے ہیں۔رواں سال کے ان پانچ مہینوں میں یعنی فقط 144 دنوں میں اب تک
199فائرنگ کے بڑے واقعات ہوچکے ہیں جن میں سے 27اسکولوں میں ہوئی فائرنگ
بھی شامل ہے۔ امریکہ میں معاشرتی بے چینی اور شہریوں میں پھیلتی عدم
اطمینانی کی وجہ سے فائرنگ اور قتل کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے۔
امریکہ میں بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے مرکز کی جانب سے جاری ہونے
والے ایک ڈاٹا کے مطابق میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں بندوق سے ہونے
والی اموات کی تعداد میں ’تاریخی‘ اضافہ ہواہے۔
امریکی معاشرہ میں اسلحہ کھلے بازاروں میں دستیاب ہے، اسلحوں کے سوداگر
کلاں و خورد کی کسی تمیز کے بغیر سبھی کے ہاتھ میں اسلحہ تھماکر اپنی تجوری
بھررہے ہیں۔ امریکی اسلحہ سازوں نے 2000ء کے بعد کی دو دہائیوں کے دوران
تجارتی بازار کیلئے 139 ملین سے زیادہ بندوقیں تیار اورفروخت کی ہیں، اس کے
علاوہ خریدار وں کا مطالبہ پورا کرنے کیلئے71ملیں بندوقیں درآمد بھی کی گئی
ہیں۔ اسی سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ سائنسی اختراعات اور مادی ترقی کی
چکاچوند میں امریکی معاشرہ اخلاقی، نفسیاتی اور ذہنی عوارض میں مبتلا ہورہا
ہے اور لوگوں میں تیزی سے عدم برداشت بڑھتا جارہا ہے۔، 1939 ء میں سپریم
کورٹ کے ایک فیصلے میں ‘اجتماعی سلامتی کے لیے ہتھیار اٹھانے کے حق’ کا
خیال بھی نافذ کیا گیا تھا۔ اس حکم نامے کے تحت مقامی اور صوبائی انتظامیہ
کو اختیار حاصل تھا کہ وہ کسی بھی شخص کو اسلحہ رکھنے سے روک سکتی ہے۔
کولمبیا، واشنگٹن ڈی سی میں بھی ایسا ہی تھا۔ بعدازاں 2008 ء میں ڈک ہیلر
نامی مقامی پولیس افسر نے ذاتی ہتھیار رکھنے سے روکے جانے پر عدالت سے رجوع
کیا تھا۔ اس معاملے میں، سپریم کورٹ کے نو ججوں پر مشتمل بنچ نے پانچ
بمقابلہ چار کے فرق سے فیصلہ دیا کہ امریکی آئین کسی شخص کو قانونی استعمال
کے لیے ہتھیار اٹھانے کا حق دیتا ہے۔اگرچہ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ یہ
حق لامحدود نہیں ہے (مثال کے طور پر، یہ لوگوں کو مشین گن جیسی اعلیٰ
صلاحیت والی بندوقیں رکھنے سے محروم کرتا ہے)، عدالت نے کہا کہ شہریوں کو
اپنے ملک کے اندر مکمل طور پر کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ اسے ہتھیار
رکھنے سے محروم کرنا غیر آئینی ہوگا۔ عدالت نے کہا تھا کہ ایسی کوئی بھی
پابندی اپنے دفاع کے لیے دوسری ترمیم کی شق کی خلاف ورزی ہوگی۔ تاہم اس
فیصلے کے بعد سے مقامی عدالتوں میں مہلک ہتھیاروں پر پابندی کے حوالے سے
لاتعداد مقدمات چل رہے ہیں۔ اسلحے کی رجسٹریشن سے متعلق بھی مقدمات درج
ہیں۔ یہ اس ملک کا المیہ ہے جو پوری دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کاقصد کیے
ہوئے ہے لیکن اپنے ملک کے اندر پھیلتے اضطراب اور بدامنی پر قابو پانے میں
ناکام ہے۔
|