کھلے عالمی زرعی تجارتی نظام کی اہمیت

ابھی حال ہی میں خوراک اور زراعت کی عالمی تنظیم کی کونسل کا اجلاس منعقد ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ زراعت کی ترقی کے لیے دیرپا امن اور سلامتی کی ضرورت ہے۔روس اور یوکرین کے درمیان تنازعہ خوراک اور کھاد کی برآمدات میں کمی کا باعث بنا ہے ، جس کے نتیجے میں دنیا بھر میں خوراک کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے اور 2023 کے اناج کی فصل بھی شدید پیمانے پر متاثر ہو سکتی ہے اور تحفظ خوراک کو خطرہ لاحق ہوگا۔ یہاں شرکاء کی جانب سے آئندہ بھوک کے اندیشے کے پیش نظر امن اور ترقی کو آگے بڑھانے کے لیے انسان دوست سرگرمیوں میں اضافے پر بھی زور دیا گیا۔

ماہرین متفق ہیں کہ روس یوکرین تنازعہ کے عالمی غذائی سلامتی پر مرتب ہونے والے اثرات سے نمٹنے کے لیے بروقت اور موئثر اقدامات ناگزیر ہیں۔ اس مقصد کی خاطر عالمی زرعی تجارتی نظام کو کھلا رکھنے کی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہےتاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ زرعی برآمدات پر پابندی نہ ہو اور ان پر کوئی ٹیکس وغیرہ نہ لگایا جائے؛ اس کےعلاوہ خوراک کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے ایسے شدید متاثرہ ممالک جہاں قلت خوراک کا مسئلہ بھی درپیش ہے ، وہاں سرمایہ کاری میں اضافہ کیا جائے تاکہ کسی انسانی بحران سے بچا جا سکے۔اس کے علاوہ خوراک کے ضیاع کو کم کرنا بھی وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے تاکہ غذائی قلت سے نمٹا جا سکے اور قدرتی وسائل کا بہتر، زیادہ موثر استعمال کیا جا سکے۔

دنیا کو درپیش خوراک کے بحران سے نمٹنے میں ایسے ممالک کا کردار بھی انتہائی اہم ہے جو غذائی اجناس کی پیداوار اور درآمدات میں بڑا نام رکھتے ہیں، ان میں چین سرفہرست ہے ۔ درحقیقت، چین دنیا کا سب سے بڑا اناج پیدا کرنے والا ملک اور اناج کا تیسرا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ اس وقت چین اپنی ضروریات کا 95 فیصد سے زائد اناج خود پیدا کرتا ہے۔حالیہ عرصے کے دوران چین نے اپنے اناج کی پیداوار کے نظام کو جدید اور منظم کرتے ہوئے نہ صرف چینی لوگوں کے لیے خوراک کی فراہمی کو یقینی بنایا ہے، بلکہ دنیا بھر میں غذائی تحفظ کی کوششوں میں بھی نمایاں حصہ ڈالا ہے۔ دنیا کی 09 فیصد سے بھی کم قابل کاشت اراضی کے ساتھ، چین دنیا کا تقریباً ایک چوتھائی اناج پیدا کرتا ہے اور دنیا کی آبادی کے تقریباً ایک پانچویں حصے کو خوراک فراہم کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، اس نے عالمی غذائی تحفظ میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔ حالیہ برسوں میں، چین نے اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن ( ایف اے او) کے جنوب۔ جنوب تعاون ٹرسٹ فنڈ کو 130 ملین ڈالر کا عطیہ دیا ہے ، چین مالیاتی امداد کی فراہمی ، اپنے ماہرین کی دستیابی اور ایف اے او فریم ورک کے تحت شروع کیے گئے منصوبوں کی تعداد کے لحاظ سے ترقی پذیر ممالک میں پہلے نمبر پر ہے۔ 2016 سے، چین نے ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے 50 سے زائد ممالک کے لیے مسلسل ہنگامی خوراک کی امداد فراہم کی ہے، جس سے آفات سے متاثر ہونے والے 10 ملین سے زیادہ لوگوں کو فائدہ پہنچا ہے۔

وبائی صورتحال کے تناظر میں چین نے افغانستان، سری لنکا، کینیا، یوگنڈا، جمہوریہ کانگو اور لائبیریا سمیت دیگر ممالک کے لیے ہنگامی خوراک کی امداد فراہم کی ہے، جسے عالمی برادری اور متعلقہ ممالک کے عوام کی جانب سے بڑے پیمانے پر سراہاگیا ہے۔چین آج بھی اپنے ماہرین بھیجتے ہوئے مثالی فارمز کے قیام، کسانوں کی تربیت، فصلوں کی بہتر اقسام کے فروغ اور تکنیکی مدد کی فراہمی سے مختلف ممالک کی زرعی پیداواری صلاحیت اور غذائی تحفظ کی صورتحال کو بہتر بنانے میں مدد کر رہا ہے۔ 1979 سے، چین نے ایشیا، افریقہ اور امریکہ کے درجنوں ممالک اور خطوں میں اعلیٰ پیداوار کے حامل چینی ہائبرڈ چاول کی اقسام کو فروغ دیا ہے، جس سے ان ممالک اور خطوں میں ہائبرڈ چاول کا سالانہ پیداواری رقبہ آٹھ ملین ہیکٹر تک بڑھ گیا ہے۔ چینی ہائبرڈ چاول کی فی ہیکٹر اوسط پیداوار مقامی اقسام سے تقریباً دو ٹن زیادہ ہے۔

چینی محققین نے پاکستان، بھارت، ویت نام، میانمار، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک کے دوروں سے مقامی کاشت کاروں کو زرعی پیداوار کے بارے میں جدید تکنیکس اور مشاورتی خدمات فراہم کیں، اور 80 سے زائد ترقی پذیر ممالک میں 14,000 سے زیادہ پیشہ ورانہ اور تکنیکی اہلکاروں کو ہائبرڈ چاول کی کاشت کے بارے میں تربیت دی ہے۔ مزید برآں، چین ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے تجارتی سہولت کاری معاہدے کے نفاذ کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہے۔چین نے ہمیشہ دنیا سے خوراک کی عالمی تجارت کو کھلا رکھنے کا مطالبہ کیا ہے اور کئی ممالک پر عائد یکطرفہ پابندیاں اٹھانے کی اپیل کی ہے تاکہ عالمی صنعتی اور سپلائی چین کے مستحکم اور بلا روک ٹوک آپریشن کو برقرار رکھا جا سکے ۔

بین الاقوامی برادری نے 2030 تک عالمی سطح پر بھوک، غذائی عدم تحفظ اور ہر قسم کی غذائی قلت کو ختم کرنے کا عہد کیا ہے ، اس مشن کی تکمیل میں چین جیسے ملک کی کوششیں یقیناً انسانیت کی ایک بڑی خدمت کے مترادف ہیں۔
Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 962 Articles with 408717 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More