دنیا میں سب سے زیادہ پھیلا ہوا گناہ
(Farrukh Abidi, North York)
دنیا میں سب سے زیادہ پھیلا ہوا گناہ |
|
اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ پھیلا ہوا گناہ جس کا تعلق
حقوق اللہ سے بھی ہے اور حقوق العباد سے بھی، وہ ہے لڑکیوں اور عورتوں کا
نیم برہنہ اورعریانیت والا لباس ذیب تن کرنے والا گناہ۔ یہ گناہ اتناعام
ہوچکا ہے کہ خواہ تعلیم یافتہ طبقہ ہو یا غیر تعلیم یافتہ، شہر میں رہنے
والے ہوں یا دیہاتی اور یہاں تک کہ اپنے آپ کو شریف اور باعزت سمجھنے والے
خاندانوں تک کی خواتین اس میں مبتلا ہیں صرف اسلیئے کہ یہ عام ہوچکا ہے۔
خواتین کا نیم برہنہ اورعریانیت والے لباس جیسے آدھی یا چھوٹی آستین،
کھلے گلے، کھلے ٹخنے، باریک یا چست لباس ذیب تن کرکے غیر مردوں کے سامنے
آنا جانا اور اس حالت میں مخلوط تقریبات کی ذینت بنتا، بازاروں کی رونق
بنتا، کروڑوں غیر مردوں کی آنکھوں کی لذت اور ذہنوں کی عیاشی بننا یہ انکے
لیئے بھی ذلت اور انکے خاندان کیلیئے بھی، اور سب سے زیادہ انکے شوہروں کی
ذلت ہے۔ اسکی نحوست کے ذمہ دار صرف خواتین ہی نہیں ہیں بلکہ انکے ماں باپ،
انکے خاندان کے بڑے، شادی سے پہلے انکے باپ اور شادی کے بعد سب سے بڑے مجرم
انکے شوہر ہیں جنہیں انکے آوارہ لباس سے کوئی غیرت نہیں آتی۔
یہی وہ لوگ اور وہ خاندان ہیں جن کی وجہ سے پوری دنیا کے مسلمانوں پر برے
حالات آئے ہوئے ہیں۔ اب یہ گناہ جو سب سے زیادہ دنیا میں پھیلا ہوا ہے یہ
صرف لڑکیوں/عورتوں کی بے پردگی اورعریانیت تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سے
دنیا بھر میں زنا پھیل رہا ہے، خواتین کی یہاں تک کہ چھوٹی بچیوں تک کی
عزتیں لٹ رہی ہیں اور ہر سال لاکھوں بچوں کا بیدائش سے پہلے ہی قتل ہو رہا
ہے۔ ایسا آوارہ لباس ذیب تن کرنے والی لڑکیاں/عورتیں خود زنا و بدکاری سے
خواہ کتنی ہی بچی ہوئی ہوں لیکن انکے برے لباس کروڑوں مردوں کے جزبات
بھڑکنے اور انکے زنا و بدکاری میں ملوث ہوجانے کا سبب ہے۔ اس حقیقت سے فرار
کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس سے تو مسلمانوں تک میں زنا و بدکاری پھیل رہی ہے۔
اسکے علاوہ دنیا میں جہاں کہیں بھی زنا و بدکاری پھیلی ہوئی ہے اور پھیل
رہی ہے اس میں ایسے لباس ذیب تن کرنے والی تمام خواتین اور ان تمام مردوں
کا حصہ پڑ چکا ہے جو اپنے گھروں اور خاندانوں کی لڑکیوں اور عورتوں کو اس
پر روک ٹوک نہیں کرتے۔ بلکہ اس سے تو مسلماںوں تک میں زنا و بدکاری پھیل
رہی ہے
انسان کی تاریخ میں سب سے سخت عذاب بے حیائی والے گنا کرنے والی قوم پر
آیا ہے اور وہ بھی اس وقت جب گناہ اتنے عام ہوگئے تھے کہ لوگوں نے انہیں
گناہ ہی سمجھنا چھوڑدیا تھا، اور ہم میں بہت سے کہتے ہیں کہ یہ اب عام
ہوچکا ہے۔ اس ہی لیئے ہمارے مسلم معاشرے تک میں نیم برہنہ لباس اور بہت سے
کبیرہ گناہوں کو گناہ نہیں سمجھا جاتا۔ مسلمانوں پر حالات نہ امریکہ کی وجہ
سے آئے ہیں، نہ اسرائیل کی وجہ سے اورنہ انڈیا کی وجہ سے اور نہ ہی کسی
حکومت یا سیاست دانوں کی وجہ سے۔ انکا ہم پر مسلط ہونے کی وجہ بھی ہمارے
گناہ ہیں۔
کیوںکہ برے حالات کے ذمہ دار ہم خود ہیں اسلیئے ہم سب خود ہی ان حالات کو
بدل سکتے ہیں اگر ہم ہوش کے ناخن لیں۔ دن رات بری حکومتوں اور برے سیاست
دانوں اور ملک میں پھیلی پریشانیوں اور تکلیفوں کا رونا روتے رہنے سے نہ
آج تک ہمیں کچھ ملا ہے اور نہ ہی ملنے والا ہے اور نہ ہی کسی بری حکومت یا
برے سیاست دان کو اس سے کچھ نقصان ہوا ہے۔ یا تو ہم اپنے اندر تبدیلی لے
آئیں اور یا پھر یہودیوں کی طرح اللہ تعالٰی کے نا پسندیدہ ترین لوگوں میں
اپنا شمار کرلیں یہ ہماری اپنی مرضی ہے۔ |
|