جو لوگ بھی بڑے عہدوں پر پہنچے ہیں ، ان کا بچپن اور
صلاحیتیوں ہمیشہ دوسروں سے الگ اور ممتاز ہوتی ہیں۔جس طرح پھول اپنی
خوشبوسے موجودگی کا احساس کرواتا ہے اسی طرح ذہین بچے بھی اپنی ذہانت کا ہر
سطح پر اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ایسی ہی ایک بچی "فریسہ لودھی"میرے
خاندان کا اہم ستون بن چکی ہے۔یوں تو میرے پوتے پوتیوں میں کل چھ بچے شامل
ہیں لیکن مزاج اور صلاحیتوں کے اعتبار سے فریسہ لودھی سب سے اعلی ، منفرد
اور ذہین دکھائی دیتی ہے ۔بینک سے ریٹائرمنٹ کے بعد میری زندگی کا زیادہ
وقت گھر پر ہی گزرتا ہے اس لیے میں چلتے پھرتے ،صبح سے شام ہر بچے کے
معمولات کا بغور جائزہ لیتا رہتا ہوں ۔میں اس بات سے بخوبی واقف ہوں کہ
قدرت نے ہر بچے کو شکل و صورت ، جسمانی خدو خال اور علمی صلاحیتوں کے
اعتبار سے منفر د بنایا ہے ۔اس اعتبار سے بھی" فریسہ لودھی" مجھے سب سے
منفرد اور نمایاں دکھائی دیتی ہے ۔ میں جب بھی گھر میں موجود ہوتاہوں تو
باقی پوتے پوتیوں کو میں موبائل پر کارٹون دیکھنے میں مشغول پاتا ہوں ، کچھ
بچے ٹی وی پر پاکستانی ڈراموں سے دل بہلالیتے ہیں لیکن میں نے جب بھی فریسہ
لودھی کو دیکھا، وہ اپنا سر جھکا کر سکول کا ہوم ورک کرنے ، ڈرائینگ کی
کاپی میں بنی ہوئی تصویروں ، پھولوں اور پرندوں کے عین مطابق رنگ بھرنے میں
مصروف ہوتی ہے ۔اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ موبائل میں کتنی اچھی اچھی
گیمیں موجود ہیں اور کتنے اچھے کارٹون نظر آتے ہیں ، وہ بچی اپنی پڑھائی
میں مگن دکھائی دیتی ہے ۔
میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ میری پوتی" فریسہ لودھی" ایک نہ ایک د ن پڑھ
لکھ کر کسی نہ کسی بڑے عہدے پر ضرور فائز ہوگی ،اس کے باوجود کہ میں اس کی
کامیابیوں کو دیکھنے کے لیے دنیا میں نہیں ہونگا لیکن مجھ یخوشی ہوگی کہ
میری پوتی کا شمار اچھے اور اعلی ارفع لوگوں میں ہے ۔ ایک دن میں نے اسے
اپنے پاس بلایا اور اس سے پوچھا کہ میری گڑیا پڑھ لکھ کے ڈاکٹر بنے گی ؟ وہ
میری اس بات پر خاموش رہنے کی بجائے فورا بولی نہیں دادا جی ۔ میں
ڈاکٹرنہیں بنوں گی، پھر میں نے کہا اچھا تم جہاز اڑانے والی پائلٹ بننا
چاہتی ہو؟ میرا خیال تھا وہ ہاں میں سر ہلائے گی لیکن اس کی جانب سے پھر
انکار ہی ملا۔ میں پھر بولا اچھا تو میری شہزادی انجینئر بنے گی ؟ کچھ
سوچنے کے بعد فریسہ لودھی نے انکار میں سر ہلا دیا۔اب میرے پاس انفارمیشن
ٹیکنالوجی اور چارٹرڈ اکاؤئنٹنگ کے سوا کوئی اور شعبہ نہیں تھا ،لیکن فریسہ
نے ان شعبوں میں جانے سے بھی انکار کردیا ۔اس لمحے میں سوچ میں پڑگیا کہ
آخر اس بچی کے ذہن میں کیا ہے جس پر وہ کمپرومائزکرنا پسند نہیں کررہی ۔ وہ
میرے سامنے سر جھکائے کھڑی تھی جیسے میرے اگلے سوال کا جواب دینے کے لیے
تیار ہو۔
کچھ دیر خاموشی کے بعد میں نے پوچھ ہی لیا کہ فریسہ بیٹی آخر تم کیا بننا
چاہتی ہو۔ وہ میرے استفسار پر فورا بولی ۔دادا جان میں ٹیچر بن کر جہالت کے
اندھیروں کو اجالوں میں بدلوں گی ۔اس کی زبان سے یہ الفاظ سن کر گویا میں
سکتے میں آ گیا اور میں تصوراتی دنیا میں پہنچ کر ٹیچر کی زندگی اور سٹیٹس
کا جائزہ لینے لگا ۔ حالانکہ ٹیچنگ کا شعبہ حقیقت میں بہت اعلی و ارفع ہے
جسے اﷲ کے نبی نے بھی بے حد پسند فرمایا بلکہ آپﷺ کی حدیث مبارک ہے کہ علم
حاصل کرو بیشک تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔یہ حدیث اس بات کی غماز ہے کہ
اﷲ کے نبی حضرت محمدﷺ کو علم سے کتنا پیار تھا لیکن پاکستانی معاشرے میں
ٹیچنگ کو وہ مقام حاصل نہیں ہے جو دنیا کے مہذب ممالک میں ٹیچنگ کو حاصل
ہے۔
مجھے یاد ہے ، صدر پاکستان ایوب خان کے دور حکومت میں برطانیہ سے شاہی
خاندان کا ایک شہزادہ حکومت پاکستان کا مہمان بنا ۔ صدر ایوب خان نے اس
شہزادے کو اپنے ساتھ لے کر ایک انگلش میڈیم سکول کا دورہ کرایا ۔ شہزادے نے
سینئر کلاس کے بچوں سے باری باری پوچھا تم بڑے ہوکر کیا بننا چاہتے ہو؟ کسی
نے کہا میں ڈاکٹر بن کر دکھی انسانیت کی خدمت کروں گا، توکسی نے کہا میں
فائٹر جہاز کا پائلٹ بنوں گا، کسی نے سرکاری افسر بننے کی خواہش کا اظہار
کیا ۔جب تمام بچوں سے گفتگو ہوچکی تو شہزاد ے نے ایوب خان سے مخاطب ہوکر
مجھے پاکستان کا مستقبل زیادہ اچھا دکھائی نہیں دیتا ۔ ایوب خان نے پوچھا
وہ کیوں؟ اس نے بتایا کہ تمام بچوں نے بڑے ہوکر اپنے اپنے پسندیدہ شعبوں کا
نام تولیا ہے لیکن کسی ایک بچے نے بھی یہ نہیں کہا کہ وہ بڑا ہو ٹیچر بنے
گا۔ مہذب دنیا میں ٹیچنگ حقیقت میں سب سے بڑا اور معتبر شعبہ مانا جاتا ہے
جو قوموں کی تقدیرکو بدل دیتا ہے ۔اس شہزادے نے مزید کہا کہ دنیا میں جتنے
بھی بڑے لوگ گزرے ہیں ان کی کامیابیوں میں ان کے ٹیچر کا ہاتھ ہوتا ہے ۔
یاد رہے کہ جب مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ کو انگریز حکومت کی
جانب سے" سر "کا خطاب دیا جانے لگا تو علامہ اقبالؒ نے "سر" کا خطاب لینے
سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ اس اعزاز کا مستحق وہ نہیں،ان کے استاد
ہیں۔ جس نے مجھے زیور تعلیم کچھ اس طرح آراستہ کیا کہ دنیا میری صلاحیتوں
کا اعتراف اور مجھ پر فخر کرتی ہے ۔چنانچہ علامہ محمد اقبال ؒ کے ساتھ ساتھ
ان کے استاد گرامی کو بھی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
اشفاق احمد کا شمار پاکستان کے سب سے بڑے مدبر، مفکر،افسانہ نگاراور ڈرامہ
نگاروں میں ہوتا ہے۔نصف صدی تک وہ پاکستان کے ادبی اور صحافتی اداروں پر
چھائے رہے ۔ریڈیو پاکستا ن پر ان کا ایک مشہور پروگرام "تلقین شاہ"عرصہ
دراز تک عوام الناس میں مقبول رہا جبکہ عمر کے آخری حصے میں ٹیلی ویژن پر
بھی دانش کدہ کے نام سے سوال و جواب پر مشتمل ایک طویل پروگرام چلتا رہا جس
میں عوام النا س کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل نے بھی بھرپور شرکت کی ۔وہ ایک
مرتبہ اٹلی کی یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر تعینات تھے ،وہ اپنی گاڑی پر
سفر کررہے تھے کہ ان سے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی ہوگئی ، پاکستان میں تو
پھر کچھ لے دے کے جان چھوٹ جاتی لیکن یورپی ممالک میں قانون کی خلاف ورزی
چاہے وہاں کا وزیراعظم کرے یا عام شہر ی ۔ برابر سز ا کا مستحق ٹھہرایا
جاتا ہے۔ اشفاق احمد اپنے ٹریفک لائسنس کی بازیابی کے لیے متعلقہ عدالت میں
پیش ہوئے تو جج صاحب نے سوال جواب شروع کیے اور پوچھا اشفاق صاحب آپ کیا
کرتے ہیں؟ اشفاق احمد نے بتایا کہ میں یہاں کی یونیورسٹی میں استاد کی
حیثیت سے ملازم ہوں یہ سنتے ہی جج صاحب نے چالان کو مسترد کرکے ان کا
لائسنس بغیرجرمانہ واپس کردیا کہ جو معاشرہ ٹیچر کی عزت نہیں کرتا وہ اپنی
حیثیت اور اہمیت کھو بیٹھتا ہے۔
اسی طرح جرمنی کی ایک خبر اخبارات میں پڑھنے کو ملی کہ وہاں کے ڈاکٹروں اور
انجینئروں نے اپنی تنخواہیں ٹیچر کے برابر کرنے کے لیے جلوس نکالا۔ جب اس
احتجاج کی خبر جرمن حکومت کو پہنچی تو اس نے ڈاکٹروں اور انجینئروں کایہ
کہتے ہوئے مطالبہ مسترد کردیا کہ ٹیچر جرمن معاشرے کا سب سے اہم اور اعلی و
ارفع طبقہ ہے جو نوجوان نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کرکے عملی زندگی میں
حصہ لینے کے لیے تیار کرتا ہے اس لیے ٹیچروں کے برابر کسی کی بھی تنخواہ
نہیں کی جا سکتی ۔
یہاں یہ بتاتا چلوں کہ میری یہ ہونہار پوتی فریسہ لودھی اس وقت قربان اینڈ
سرویا ایجوکیشنل ٹرسٹ والٹن روڈ لاہور کینٹ کی پریپ ڈی کلاس میں پہنچ چکی
ہے۔اس وقت نرسری کلاس ڈی کا رزلٹ کارڈ میرے سامنے فریسہ لودھی کا رزلٹ
کارڈ۔ انگلش کے مضمون میں اس نے 20 نمبروں میں سے 18 نمبر حاصل کیے ، جبکہ
اردو کے مضمون میں 20نمبروں میں 19نمبر حاصل کیے ۔حساب کے 20 نمبروں میں سے
19نمبر حاصل کیے ۔جنرل نالج میں 20 میں سے 20 نمبر حاصل کیے ۔یوں کل 80
نمبروں میں 76 نمبر حاصل کرکے اپنی کلاس میں سب سے بہترین پوزیشن حاصل کی
۔اسی طرح سالانہ امتحان کے کل 170 نمبروں میں فریسہ لودھی نے 169 نمبر حاصل
کرکے بہترین سٹوڈنٹ کا اعزاز جیتاکیا اس کی ٹیچرمریم نے اس کے رزلٹ کارڈ پر
یہ الفاظ اپنے قلم سے ثبت کیے۔I Cangratulation I am proud of her.
Excellent. She is an awesome student. رزلٹ کارڈ کی اس عبارت کے نیچے سکول
کی پرنسپل کے دستخط موجود ہیں ۔
فریسہ لودھی ، میرے چھوٹے بیٹے محمد زاہد اسلم لودھی کی بڑی بیٹی ہے ۔جو
بنک آف پنجاب میں بطور آفیسرگریڈ ٹو ملازم ہیں۔ وہ صبح سویرے اپنے آفس جاتے
ہیں اور رات گئے ان کے واپسی ہوتی ہے ۔ وہ اتنی محنت اس لیے کررہے ہیں کہ
ان کے بچوں کا شمار کامیاب لوگوں میں ہو۔ یاد رہے کہ ان کا اکلوتا بیٹا
محمد عمر بھی قربان اینڈ سرویا ایجوکیشنل ٹرسٹ میں چوتھی کلاس میں پڑھ رہا
ہے ۔جبکہ میرے بیٹے محمد زاہد اسلم لودھی کی ایک اور بیٹی قرات لودھی ہے جو
عمر کے اعتبار سے ابھی دوسال کی ہے لیکن شرارتوں کے اعتبار سے وہ نمبر ون
دکھائی دیتی ہے ۔والدین اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے کتنی محنت کرتے
ہیں ان کی محنت کا ماحصل اس وقت وصول ہو جاتا ہے جب ان کے بچے پڑھائی میں
اول پوزیشن حاصل کرتے ہیں۔سکول چھوڑنے کی ڈیوٹی بچوں کے والد انجام دیتے
ہیں جبکہ انہیں چھٹی کے بعد گھر لانے کی ذمہ داری اب میری بن چکی ہے۔بنک سے
ریٹائرمنٹ کے بعد پوتے پوتیوں اور گھر کی دیکھ بھال اور ان کی ضروریات پوری
کرنا اب میری صوابدید میں شامل ہو چکی ہے ۔
مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میرے تما م پوتے اور پوتیاں دادا کی حیثیت سے
مجھے بے حد پیا ر کرتے ہیں اگر محبت اور پیار کو بھی کسی پیمانہ پر ماپا
جائے تو فریسہ لودھی سب سے آگے دکھائی دیتی ہے ۔اب وہ ماشا اﷲ چھ سال کی
ہوگئی ہے لیکن جب وہ اپنی نانی کے گھر ککڑ کھانے جاتی ہے تو مجھے اداس
کرجاتی ہے۔ وہ دوسرے بچوں سے الگ تھلگ اپنی ہی دنیا بسائے رکھتی ہے۔
ابھی تو وہ چھوٹی ہے اور اسکی خواہش ہے کہ وہ ٹیچر بن کے بچوں کو زیور
تعلیم سے آراستہ کرنے کی خواہش رکھتی ہے لیکن اسے اس بات کا علم نہیں دنیا
کی مہذب اقوام میں ٹیچر مہذب معاشرے کا سب سے بہترین عنصر ہوتا ہے سرکاری
اداروں سے لے کر عدالتوں میں بھی اساتذہ کی عزت و توقیر کی جاتی ہے ان کی
تنخواہ اور سٹیٹس بھی دیگرشعبوں سے زیادہ ہوتا ہے لیکن پاکستان میں صورت
حال اس کے یکسر برعکس ہے ۔ یہاں گورنمنٹ کے تعلیمی اداروں میں تو پھر
ٹیچرکی تنخواہ معقول ہوتی ہے لیکن گلی کوچوں میں کھلے ہوئے پرائیویٹ سکولوں
کی ٹیچر ز کو دو سے دس ہزار کے اندر تنخواہ دی جاتی ہے ۔ گرمیوں میں جو دو
ماہ کی چھٹیاں ہوتی ہیں، بچوں کے والدین سے دو ماہ کی فیسیں تو وصول کی
جاتی ہیں لیکن پرائیویٹ سکولوں کی بطور خاص لیڈی ٹیچر کو دو ماہ کی تنخواہ
نہیں دی جاتی ہے ۔اس لیے لیڈی ٹیچر بطور خاص پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک
میں وہ مقام حاصل نہیں کر پاتی جو ترقی یافتہ ممالک کے اساتذہ کو حاصل ہوتا
ہے۔سکول کے اوقات کار کے بعد ٹیویشن کی وبا بھی پاکستان جیسے ممالک میں ہی
پائی جاتی ہے گویا پرائیویٹ سکولوں کے مالکان دونوں ہاتھوں سے بچوں کے
والدین اور سکول ٹیچرز کو لوٹتے ہیں ۔اس سے قطع نظر معلم کا دین اسلام میں
مقام بہت اعلی اور ارفع ہے۔ خدا کرے میری پوتی فریسہ لودھی ایک بہترین اور
کامیاب معلم اورٹیچر بن کے معاشرتی اندھیروں کو اپنی کاوشوں سے اجالوں میں
بدل سکے ۔اﷲ ان کا حامی و ناصر ہو۔
|