حضرت واصف علی واصف صاحب فرماتے ہیں
"وہ دن گئے جب بچوں کو سکولوں میں "گلستان" اور "بوستان" کی کہانیاں پڑھایا
کرتے تھے اور نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ بااخلاق معاشرہ پیدا ہوتا تھا اور آج جو
کچھ ہو رہا ہے،ویڈیو کی کہانیوں کا اثر ہے۔ جنسی تشدد اور دہشت گردی پہلے
فلموں میں دکھائی جاتی ہے اور پھر سماج میں اسے دیکھا جاتا ہے۔ جب ذہن پختہ
ہو جائے تو اصلاح کا امکان کم ہو جاتا ہے"۔
آج آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں کیا ہو رہا ہے؟
قلم کار کیا لکھ رہے ہیں؟ سکرین پر کس طرح کے ناول یا کہانیوں کو ڈرامے کی
صورت پیش کیا جا رہا ہے؟
سکول میں چھوٹی عمر کے بچوں کو ہی ماڈرن رقص میں لگا دیا گیا ہے جو بڑھتی
عمر اور کلاس کے ساتھ ساتھ مذید جدت اختیار کر لیتا ہے اور کالج میں میوزک
کنسرٹ پھر یونیورسٹی کے اینول ڈنر تک یہی سکول میں ہونے والا ماڈرن رقص
مجرے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
یونیورسٹی میں جو کچھ میوزک کنسرٹ اور اینول ڈنر کے نام پر اعلیٰ تعلیم
یافتہ نوجوان کر رہے ہیں اسے دیکھ کر آپ کو سٹیج ڈرامے اور مجرے بھی کم
لگیں گے۔
وہاں تو چلیں روزی روٹی کا مسئلہ ہے مگر یہاں یونیورسٹی میں یہ سب کچھ
انجوائے کی غرض سے کیا جاتا ہے۔ وہاں سٹیج ڈرامہ دیکھنے والوں کو رقم ادا
کرنی پڑتی ہے اور ڈرامہ کرنے والوں کو رقم دی جاتی ہے مگر یونیورسٹی میں یہ
ڈرامہ کرنے اور دیکھنے والے دونوں ہی رقم ادا کرتے ہیں اور یہی انجوائمنٹ
ہے اور تو اور یونیورسٹی میں اسے "ہیلدی ایکٹیوٹی" یعنی صحت مندانہ
سرگرمیوں کا نام دیا گیا ہے اس طرح لوگ اپنا سٹریس اور ڈپریشن ختم کرتے ہیں
لیکن در حقیقت ایک ڈپریشن کم کرنے کے چکر میں کئی ڈپریشن ساتھ لے کر جاتے
ہیں۔۔۔
ہماری سکرین پر اب قتل، جھگڑے، فساد اور دہشت گردی یا تشدد پر مبنی کہانیاں
ہی ویڈیو کی صورت میں پیش کی جاتی ہیں۔ محبوب کی خاطر رگ کاٹ لینا عام ہے۔
اپنی طاقت عہدے اور منصب کا ناجائز استعمال عام ہے۔ تشدد اہم حصہ ہے۔
موجودہ دور میں لکھے جانے والے ناول دیکھ لیں تو عورت کو برہنہ کرنے کے بعد
اس پر تشدد کرتے ہوئے اس کا جنسی استحصال پر مبنی ناول سر فہرست ہیں اور اس
مواد کو زیادہ پسند کیا جاتا ہے اور خوب پزیرائی ملی ہوئی ہے۔
گھر کے ماحول میں تربیت کی بات ہو، استاد کا کردار ہو یا لکھنے والوں کا،
میڈیا کی بات ہو یا سوشل میڈیا کی ۔۔ اندازہ کیجیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟
اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمیں اب یہ سب غلط نہیں لگتا، اتنا تو چلتا ہے،
اس سے کچھ نہیں ہوتا، خیر ہے کوئی بات نہیں، اس میں کیا برائی ہے؟ کوئی بڑی
بات نہیں ہے۔ مطلب وہی بات کہ ذہن پختہ ہو جائے تو اصلاح کا امکان کم ہو
جاتا ہے۔۔ کیا ہمارے ذہن پختہ ہو چکے ہیں؟ ہم نے برائی کو خوب صورت لفافے
میں رکھ کر سینے سے لگا لیا ہے؟ ہم سب اس میں ڈھل گئے ہیں۔ تسلیم کر لیا
گیا ہے؟ جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم اکثر جن باتوں کو غیر ضروری سمجھ کر
نظر انداز کر دیتے ہیں وہی ضروری ہوتی ہیں۔ ہم جن باتوں کو چھوٹی سی بات
کہہ کر ٹال دیتے ہیں وہی بڑے مسائل کو جنم دے سکتی ہیں۔
آج ہم یہی کچھ تو کر رہے ہیں۔ جو بنیادی وجوہات ہیں انہیں نظر انداز کر دیا
مگر مسئلے کو گھنٹے کی طرح گردن میں ڈالے گھوم رہے ہیں۔۔۔
جنسی زیادتیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ہمارا مسئلہ ہے۔۔
ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اس کی وجوہات کیا ہیں؟ روک تھام کیسے ممکن ہے؟ ان
باتوں سے ہمیں کوئی لینا دینا نہیں ہے اور اگر وجوہات سامنے آ جائیں تو
کہیں گے نہیں یہ مسئلہ لباس کا نہیں ہے، یہ مسئلہ مرد کی آنکھ کا نہیں ہے۔
مناسب وقت پر شادی نہ کرنا، فضول اور بے جا کی شرائط وغیرہ مسئلہ نہیں
ہیں۔۔
مسئلہ بس یہ ہے کہ ریپ کیوں ہو رہے ہیں؟
بچیاں گھر سے کیوں بھاگ رہی ہیں، آج کل کے نوجوانوں کو یہ کیا ہو گیا ہے؟
بس یہ ہمارا مسئلہ ہے۔۔۔
وجوہات کیا ہیں؟ روک تھام کیسے ممکن ہے؟
والدین کا کیا کردار ہے؟
سوشل میڈیا اور یہ ماڈرن گیجٹس کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟ تعلیمی اداروں
اور ٹیچرز کی زمہ داری کیا ہے؟ ۔۔۔۔
ان باتوں سے ہمیں کوئی لینا دینا نہیں ہے۔۔۔
تو مان لیجیے کہ پھر آج کے دور میں اچھی تربیت ہرگز ہرگز ممکن نہیں ہے۔۔۔
بچوں کی تعلیم و تربیت میں والدین اساتذہ کا ساتھ دیں، بچوں کی بہترین
پرورش کی ذمہ داری والدین کا فرض ہے. اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنائیں
اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت اپنی اولاد کے لیے نکالیں، آپ کے بچے ہی آپ
کا مستقبل ہیں.
خوش رہیں...... سلامت رہیں۔۔
|