بخدمت جناب وزیراعلی و وزیر کھیل خیبر پختونخواہ

اگر سچ بولنا‘ تحریر کرنا "پاگل پن ہے" تو وزیراعلی صاحب! راقم پاگل ہی سہی لیکن اس پاگل کی اتنی التجا ریکارڈ کرلیں.. کہ اگر کسی دن صاحب لوگوں نے " ہاتھا پائی کرلی" تو اس میں راقم کا قصور اتنا ہوگا کہ صاحب لوگوں سے سوال کیا ہوگا.. جس کے نتیجے میں راقم کو"ہاتھاپائی"کا نشانہ بنایا جائیگا


جناب عالی!

امید ہے مزاج گرامی بخیریت ہونگے اس خط کے ذریعے ہم آپ کو اس بات پر مبارکباد بھی پیش کرتے ہیں کہ آپ نے پاکستان کے سب سے دولت مند وزیراعلی کا اعزاز بھی حاصل کرلیا. اللہ تعالی آپ کو اور بھی نوازے.ہمیں خوشی ہے کہ خیبر پختونخواہ کسی معاملے میں تو آگے آگیا ہے. آپ کا یہ اعزاز بھی ہمارے صوبے کے بھوکے ننگے عوام کیلئے بھی اعزاز ہے. ان بھوکے اور غریب عوام کیلئے جو پشاور جیسے شہر میں رہتے ہوئے بھی بجلی اور سوئی گیس کی لوڈشیڈنگ کے باعث بدتر ین زندگی گزارنے پر مجبور ہیں. حالانکہ بجلی اور سوئی گیس اس صوبے کی بڑی پیداوار ہیں اور پورے ملک کو صوبہ خیبر پختونخواہ سے ہی سپلائی ہوتی ہیں..
اب اس خط کے ذریعے آپ کو صوبے کے دو اہم محکموں کی کارکردگی کے بارے میں بتانا چاہتے ہیں جو تبدیلی کا شکار ہیں ایک محکمہ تو آپ کیساتھ اس وقت بھی تھا کہ جب آپ وزیراعلی نہیں تھے اور اب بھی ہیں جب آپ وزیراعلی ہیں اور یہ صوبائی محکمہ سپورٹس ہے جو براہ راست آپ کے زیر انتظام ہے. جبکہ دوسرا رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن کا ادارہ ہے. خدا گواہ ہے کہ اس قانون کی جتنی تعریف اپنے دوران تربیت ایشین کالج آف جرنلزم چنائی میں راقم نے 2016 میں کی تھی اس کے گواہی اس وقت افغانستان‘ نیپال‘ بنگلہ دیش سمیت سارک ممالک کے راقم کے کولیگ بھی دے سکتے ہیں - یہ واحد قانون ہے جس کے ذریعے اداروں کو احتساب کے دائرے میں لایا جاسکتا ہے اور شفافیت بھی ممکن ہے لیکن!
راقم نے صرف پانچ سوالات سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے 30 دسمبر 2021 کو کئے تھے جس میں صرف یہ پوچھا تھا کہ
سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے زیر انتظام پراجیکٹ کب سے کام کررہا ہے‘ اب تک اس کے مستقل ملازمین کی تعداد اور ڈیپوٹیشن پر کام کرنے والے ملازمین کی تعداد کتنی ہے‘ پراجیکٹ کی گاڑیوں کی تعداد کتنی ہے اور اسکی فیولنگ کیلئے سال 2019-20 اور سال 2021-22 میں کتنی رقم مختص کی گئی اب تک پراجیکٹ کے ملازمین کو دی جانیوالی تنخواہیں اور ٹی اے ڈی کی فہرست اور تفصیلات اور جتنے پراجیکٹ مکمل کئے اور کنٹریکٹر کی تفصیلات طلب کی تھی..
جناب وزیراعلی صاحب!
اکیس جنوری 2022 کو ایک اور خط کے ذریعے اسی طرح کے کچھ سوالات کئے گئے جس میں سپورٹس پراجیکٹ کیلئے لی جانیوالی گاڑیاں کب لی گئی‘ ٹینڈر کب ہوا اور اس کا تخمینہ لاگت متعلق سوالات سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے مانگے گئے..
گیارہ مارچ 2022 کو رائٹ ٹو انفارمیشن کے تحت سال 2017سے لیکر 2021 تک آر ایم ڈی جی اور پاک خیبر کو مختلف مدوں میں کنٹریکٹ کی تفصیلات طلب کی گئی‘ ان دو فرمز کو کن کن اشیاء کی سپلائی کا ٹھیکہ اور طریقہ کار سے متعلق اور اس کی رجسٹریشن کس ادارے کیساتھ ہے رائٹ ٹو انفارمیشن کے تحت طلب کی گئی..
اور یہ اس وقت کے سوالات تھے جب پراجیکٹ کی گاڑیاں ایک صاحب کے گھر میں استعمال ہورہی تھی‘ اور وہ پراجیکٹ سے فارغ بھی ہوئے تھے. لیکن مجال ہے کہ دسمبر 2021 میں کئے جانیوالے سوالات ابھی تک سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے دئیے ہوں ہاں اس پر رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن بھی " خط پر خط" بھیج کر اپنی ذمہ داری پوری کررہا ہے. جبکہ جن فرمز کے بار ے میں تفصیلات طلب کی گئی اس بارے میں گذشتہ دنوں راقم نے ایک خبر بھی دی تھی جو صاحب لوگوں کو بری بھی لگی تھی. ویسے باقی خیر خیریت ہے.
محترم وزیراعلی صاحب!
آپ صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہے اور آپ کے پاس اختیار بھی ہے.کم از کم آپ اپنے ڈیپارٹمنٹ سے یہ تو پوچھ سکتے ہیں کہ "معاملہ" کیا ہے.اور کیوں سپورٹس ڈائریکٹریٹ اس معاملے میں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں اسی کے ساتھ ساتھ رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن سے بھی سوال بنتا ہے کہ آپ کی ذمہ داری صرف "خط پر خط "بھیجنے کی نہیں بلکہ اگر کوئی ڈیپارٹمنٹ معلوما ت نہیں دے رہا تو اس پر جرمانہ بھی بنتا ہے.
یقینا آپ کو یہ باتیں بری بھی لگ رہی ہونگی لیکن کیا کریں یہاں پر سچ بولنا اور لکھنا بھی عذاب ہے کیونکہ آپ کے سپورٹس ڈیپارٹمنٹ کے "پالے ہوئے سرکاری ملازمین پر مشتمل " صحافیوں کا ٹولہ صاحب لوگوں کو بہت اچھا لگتا ہے جو " مثبت رپورٹنگ کے نام پر" چاپلوسی کرنا جانتا ہے. ویسے آپ یہ سوال بھی کرسکتے ہیں کہ کتنے سرکاری ملازمین کھیلوں کے میدان میں صحافی اور کب سے بنے ہوئے ہیں‘ کتنے ڈائریکٹر کبھی اپنے تعلیمی اداروں کیلئے آواز اٹھاتے ہیں اور کبھی "صحافت "کرتے دکھائی دیتے ہیں. اور وہ بھی "چاپلوسی والی" صحافت‘ جو ڈائریکٹریٹ کے صاحب لوگوں کو بہت بھلی لگتی ہے.حالانکہ سرکاری ملازمین کے صحافت پر پابندی آپ کی ہی حکومت نے لگائی ہے. اگر آپ کو فہرست چاہئیے تو راقم وہ بھی فراہم کرسکتا ہے.راقم جیسے بندوں کو تو کھلے عام مذاق ہی مذاق میں دھمکیاں ملتی ہے کہ " کسی دن ہاتھا پائی ہوگی"
اب وزیراعلی صاحب آپ خود بتائیں ہم قلم کے مزدور ہیں‘ چاپلوسی کی عادت نہیں‘ ہاتھا پائی ہم کر نہیں سکتے.ہاں جو بات ادارے کی بہتر ہوگی اسے سراہنا راقم کی ذمہ داری ہے اور اگر کچھ غلط ہے تو اس بات کی نشاندہی بھی راقم کی ہی ذمہ داری ہے آپ سے قبل کے دور میں راقم کو گالیاں ملتی تھی‘ اب آپ کے سپورٹس ڈیپارٹمنٹ میں راقم کو " مڑہ لیونے دے" کے نام سے پکارتے ہیں.
اگر سچ بولنا‘ تحریر کرنا "پاگل پن ہے" تو وزیراعلی صاحب! راقم پاگل ہی سہی لیکن اس پاگل کی اتنی التجا ریکارڈ کرلیں.. کہ اگر کسی دن صاحب لوگوں نے " ہاتھا پائی کرلی" تو اس میں راقم کا قصور اتنا ہوگا کہ صاحب لوگوں سے سوال کیا ہوگا.. جس کے نتیجے میں راقم کو"ہاتھاپائی"کا نشانہ بنایا جائیگا.
ویسے وزیراعلی صاحب! کسی دن آپ بھی صاحب لوگوں کی طرح "سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ایرینا ہال میں کھلی کچہری " کروالیں اور کھلاڑیوں‘ ایسوسی ایشن کے عہدیداروں ` کنٹریکٹر اور صحافیوں کو مدعو کرکے اپنے ڈیپارٹمنٹ کی کارکردگی کے بارے میں پوچھ تو لیں کہ "داستان کیا ہے " تو پھر آپ کو صحیح اندازہ ہو جائے گا...
شکریہ

العارض
سپورٹس رپورٹر



Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 637 Articles with 499461 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More