ڈنڈے اور طاقت کی اپروچ ہر جگہ پر ہے‘ بچوں کیلئے دادا ابو کی کہانی


یہ کہانی کا ابتدائیہ ہے. بچو.ابھی آپ کو کہانی کی طرف لے جاتے ہیں!

صوبے کے چیف ایگزیکٹو چونکہ کپتان تھے لیکن اپنے بڑے والے کپتان سے مجبور تھے اس لئے کبھی کبھار ان سے ایسے کام کروائے جاتے جو نہ صرف ان کیلئے بلکہ ان کے سیاسی کیریئر کیلئے بھی خطرناک ہیں مگر چونکہ تبدیلی والی سرکار. حکومت میں تھی اس لئے جن کا کا م غلطیاں پکڑنا اور احتساب کرنا تھا پھر وصولی اور سزا دینا تھا تھا انہوں نے بھی آنکھیں مکمل طور پر بند کر کھی تھی.البتہ یہ الگ بات کہ فائلیں بن رہی تھی لیکن یہ فائلیں کہا جارہی تھی اس بارے میں بچوں جاننے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ آپ لوگوں کا کام نہیں.

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ خیبر پختونخواہ میں تبدیلی والی سرکار کی حکومت ہوا کرتی تھی. تبدیلی والی سرکار کی حکومت میں آنے کے بعد "خیبر پختونخواہ "میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہوگئی اتنی نہریں بن گئی تھی کہ ہرکوئی اس نہر میں نہاتا تھا‘ اللہ بھلا کرے‘ اس وقت ایک چیف ایگزیکٹو بھی ہوا کرتے تھے جنہوں نے صوبائی وزارت اعلی کیساتھ ساتھ کھیلوں کی وزارت بھی اپنے لئے مختص رکھی اور انہوں نے کھیلوں کے فروغ کیلئے بڑے اقدامات کئے‘ کیونکہ چیف ایگزیکٹو خود بھی ہاکی کے کھلاڑی رہے تھے ساتھ میں کپتان کے بھی کھلاڑی تھے اس لئے انہوں نے صوبے میں کپتان کا کردار ادا کرتے ہوئے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا محکمہ بیورو کریٹس کے ذریعے چلانا شروع کردیا تھا.پھر کیا تھا کیا سے کیا ہوگیا.

یہ کہانی کا ابتدائیہ ہے. بچو.ابھی آپ کو کہانی کی طرف لے جاتے ہیں!

صوبے کے چیف ایگزیکٹو چونکہ کپتان تھے لیکن اپنے بڑے والے کپتان سے مجبور تھے اس لئے کبھی کبھار ان سے ایسے کام کروائے جاتے جو نہ صرف ان کیلئے بلکہ ان کے سیاسی کیریئر کیلئے بھی خطرناک ہیں مگر چونکہ تبدیلی والی سرکار. حکومت میں تھی اس لئے جن کا کا م غلطیاں پکڑنا اور احتساب کرنا تھا پھر وصولی اور سزا دینا تھا تھا انہوں نے بھی آنکھیں مکمل طور پر بند کر کھی تھی.البتہ یہ الگ بات کہ فائلیں بن رہی تھی لیکن یہ فائلیں کہا جارہی تھی اس بارے میں بچوں جاننے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ آپ لوگوں کا کام نہیں.

تو بچوں ہم بتا رہے تھے سال 2022 میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں تبادلوں کی ایک لہر چلی جس میں کم و بیش ستائیس اضلاع کے افسران کو یہ کہہ کر دوسری جگہ پر بھیج دیا گیا کہ چونکہ آپ نے دو سال گزارے ہیں اس لئے ابھی آپ دوسری جگہوں پر ڈیوٹیاں کرلیں. جبکہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں ڈیپوٹیشن پر عرصہ دراز سے کام کرنے والے اہلکاروں کو بھی واپس بھیج دیا گیا لیکن پھر. بچو مردان میں ایک مرتبہ پھر ڈیپوٹیشن پر لوگ آگئے.وجہ جاننے کی ضرورت نہیں.. بچو! یہ پاکستان ہے..

اچھا بچو! تو بات ہورہی تھی جنوری 2022 میں ہونیوالے تبادلوں کی‘ جس میں بنوں سے ڈیرہ اسماعیل خان بھی تبادلے کروائے گئے لیکن پھر اسی محکمے کے ایک بڑے صاحب نے یہ کہہ کر بنوں سے ڈیرہ جانیوالے اہلکار کو کہہ دیا کہ آپ ایک دو ماہ گزارہ کرلیں کیونکہ ڈیرہ جات کے میلے ہونے ہیں اس لئے ڈیرہ جات میلے کے بعد آپ ڈی آئی خان کو جوائن کرلیں.لیکن ہوا کیا کہ سترہ مارچ کوایک اور آرڈر کیا گیا جس میں تبادلوں کے فہرست میں سے ایک شخص کا نام نکال دیا گیا یہ صرف ایک شخص کا معاملہ نہیں تھا بلکہ پشاور میں بھی کئے جانیوالے احکامات نامعلوم وجوہات‘ جنہیں کوئی سیاسی پریشر کہتا ہے اور تبدیلی والی سرکار کی مجبوری قرار دیتا ہے لیکن ان تبادلوں کو واپس کردیا گیا.

بچو.. کہانی کا اہم موڑ یہ ہے کہ سیکرٹری سپورٹس کو ڈیپارٹمنٹل اپیل کردی گئی اپریل کے مہینے میں اس میں بڑے اہم لوگوں کی بیٹھک ہوئی جس میں یہ کہا گیا کہ جن لوگوں نے دو سال پورے کئے ہیں انہیں ہی تبدیل کیا گیا حالانکہ چار سال ایک ہی جگہ پر گزارنے والے شخص پر تبدیلی والی سرکار کا زور نہیں چلتا تھا.کچھ لوگ اسے سیاسی پریشر بھی قرار دیتے تھے جس کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ ڈیرہ میں چونکہ سیاسی اثر و رسوخ زیادہ ہے اس لئے درخواست دینے والے شخص کوٹانک میں ایڈجسٹ کیا جائے گا لیکن پھر یہ بھی نہیں ہوا..

تو بچو! پھر کہانی میں ایک اور موڑ آگیا. سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں کام کرنے والے اہلکار نے اپنے ساتھ ہونیوالی زیادتی پر سروس ٹریبونل سے رجوع کرلیا جہاں پر اب باقاعدہ فیصلہ ہوگا لیکن سروس ٹریبونل نے اس درخواست میں جنور ی 2022 کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے ڈائریکٹریٹ سے تیس جون تک جواب طلب کرلیا..

بچو! اس کہانی کو بتانے کا مقصد یہی ہے کہ آپ کو بتایا جائے کہ عوام کیلئے " تبدیلی " لانے والوں نے کتنی نہریں بنائی تھی جس میں ہر کوئی ڈبکی لیا کرتا تھا.اور یہ ڈبکی اس وقت زیادہ وقت کیلئے ہوتی تھی جب ڈبکی لگانے والوں کا زور زیاد ہ ہو. ورنہ تبدیلی والوں کی نہر میں کچھ لوگ ڈبکی لگاتے ہوئے ڈوب گئے.او ر ابھی تک پتہ نہیں چل رہا..

درس:- اس کہانی سے بچوں یہ سبق ملتا ہے کہ " ڈنڈے اور طاقت "کی ہر جگہ پر پہنچ ہے‘ چاہے کوئی بھی سرکار ہو..
آج کی کہانی ختم.. انشاء اللہ اگلی کہانی پھر کسی اور موضوع پر آپ کو بتائیں گے..
آپ کا دادا ابو
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 420091 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More