#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالنجم ، اٰیت 1 تا 18 اخترکاشمیری علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !! براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !! اٰیات و مفہومِ اٰیات
!! والنجم اذا ھوا 1 ما ضل صاحبکم و ما غوٰی 2 و ما ینطق عن الھوا 3 ان ھو الّا وحی یوحٰی 4 علمهٗ شدید القوٰی 5 ذومرة فاستوٰی 6 وھو بالافق الاعلٰی 7 ثمدنا فتدلٰی 8 فکان قاب قوسین او ادنٰی 9 فاوحٰیالٰی عبدہٖ ما اوحٰی 10 ما کذب الفؤاد ما راٰی 11 افتمٰرونه علٰی ما یرٰی 12 ولقد راٰہ نزلة اخرٰی 13 عند سدرة المنتہٰی 14 عندھا جنت الماوٰی 15 اذ یغشی السدرة ما یغشٰی 16 ما زاغ البصر و ما طغٰی 17 لقد راٰی من اٰیٰت ربه الکبرٰی 18 میں تُم کو یقین دلاتا ہوں کہ جس طرح شبِ صحرا میں ہمارے فلک کے کاہکشانی تاروں کا ایک راہ نُما قافلہ تُم کو ہمیشہ ہی بُھولے بَہٹکے بغیر ایک راہ و نشانِ راہ دکھاتا رہا ہے اسی طرح تُمہاری روحانی ہدایت کے سفرِ حیات میں بھی ہماری نُورانی اٰیات کا ایک راہ نُما قافلہ تُم کو ہمیشہ ہی بُھولے بَہٹکے بغیر ایک راہ و نشانِ راہ دکھاتا رہے گا اور ہماری اِس ہدایت کا رہنماۓ ہدایت ہمارا مُنتخب کیا ہوا وہ بندہ ہے جس کو ہم نے اپنی قُوت و قُدرت سے اُس وقت براہِ راست اِس علمِ راہ نُما کی یہ تعلیمِ راہ نُمائی دی تھی جب ہمارا وہ مُعلّمِ اٰیات بندہ ہمارے اَوجِ فلک پر ہمارے سامنے کھڑا تھا اور اُس مُعلّمِ اٰیات و مُتعلّمِ اٰیات کے درمیان برابر رکھی ہوئی دو برابر کمانوں کے درمیان کے فاصلے سے بھی کُچھ کم فاصلہ تھا اور اُس وقت اُس مُتعلّمِ اٰیات نے اپنے اُس مُعلّمِ اٰیات پر اپنا جو کلام نازل کرنا تھا وہ کلام اُس پر اس نے نازل کر دیا تھا اور اُس مُعلّمِ اٰیات نے اپنے اُس مُتعلّم اٰیات کا کلام سُن سمجھ کر اُس کی اسی طرح تصدیق کر دی تھی جس طرح تُم ایک دُوسرے کا کلام سُن سمجھ کر اُس کی تصدیق کردیتے ہو اور دُوسری بار جب وہ مُتعلّمِ اٰیات سدرةُالمنتہٰی اور جنت الماوٰی کے قریب اپنے اس مُتعلّمِ اٰیات کے رُو برُو کھڑا ہوا تھا تو اُس وقت بھی وہ اپنی قامت پر اِس استقامت کے ساتھ کھڑا رہا تھا کہ اُس نے ایک بار بھی اپنے اُس مُتعلّم کے سامنے پَلک نہیں جَھپکائی تھی اور ایک بار بھی اُس کے کلامِ وحی سے توجہ نہیں ہٹائی تھی اِس لیۓ تعلیم کے اُسی لَمحے میں ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق کر لی گئی تھی کہ اُس وقت وحی کا جو نُورانی سایا سدرةُالمنتہٰی پر چھایا ہوا تھا اُس کی ایک ایک نُورانی کرن اُس مُتعلّمِ وحی نے اپنے جسم کی بصارت میں جمع اور اپنی رُوح کی بصیرت میں جذب کر لی تھی ! مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات
! اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا سے یہ اَمر واضح ہو جاتا ہے کہ اِس سُورت کا موضوعِ سُخن اللہ تعالٰی کی وہ آخری وحی ہے جو آخری وحی اللہ تعالٰی نے اپنے آخری نبی سیدنا محمد علیہ السلام پر نازل کی ہے لیکن اِس آخری وحی کی وضاحت سے پہلے یہ وضاحت بھی لازم ہے کہ ہر انسان کی زندگی میں وہ معمولی یا غیر معمولی واقعات ہوتے ہیں جو ایک معمولی انسان کی زندگی میں نسبتاًکم ہوتے ہیں اور ایک غیر معمولی انسان کی زندگی میں اوسطاً زیادہ ہوتے ہیں لیکن کسی غیر معمولی انسان کی زندگی کے سارے واقعات ایسے غیر معمولی ہر گز نہیں ہوتے کہ اُس کی شخصیت اُس کی اتباع کرنے والوں کو ایک ایسی افسانوی شخصیت محسوس ہو کہ جس کا حقیقت سے کوئی علاقہ ہی نہ ہو اور جس کی سیرت و بصیرت کی اتباع ہی مُمکن نہ ہو اور اُس ہستی کے واقعاتِ زندگی بھی کُچھ ایسے افسانوی واقعاتِ زندگی نہیں ہوتے کہ جن واقعات کا اُس ہستی کی زندگی سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا اور اُس ہستی کے طرزِ زندگی کی کوئی علمی و عملی اتباع بھی مُمکن نہں ہوتی ، کیونکہ اگر اُس غیر معمولی ہستی کی غیر معمولی ہستی ایک افسانہِ ہستی نظر آۓ گی اور اُس کا طرزِ زندگی بھی ایک افسانہِ زندگی نظر آۓ گا تو انسان کے یہ افسانوی واقعات وقت گزاری کے لیۓ تو ضرور سن اور سنا سکے گا لیکن ایک عملی حقیقت کے طور پر کوئی انسان بھی اُن واقعات کو اپنے عمل میں نہیں لاسکے گا ، اِس وضاحت کی ہمیں اِس لیۓ ضرورت پیش آئی ہے کہ اِس سُورت میں جس ہستی کی جس ذات کا ذکر ہوا ہے اہلِ روایت نے اُس ہستی کی ذات کے ارد گرد روایات کا ایک ایسا جال بچھایا ہوا ہے کہ اُن روایات کے مطابق وہ ہستی بذاتِ خود کُچھ بھی نہیں کرتی تھی بلکہ اُس کے ارد گرد جو نادیدہ روحانی قُوتیں پھیلی ہوئی ہوتی تھیں وہ نادیدہ قُوتیں ہی وہ سارے اعمال اَنجام دیتی تھیں جو اعمال اُس ہستی کی ذات سے ظاہر ہو کر اُس کی ذات کے ساتھ منسوب ہوتے تھے اور اُس ہستی کے ان اعمال کی وہ تفصیلات پڑھ کر ایک عام انسان اسی ایک عام فہم نتیجے تک پُہنچتا ہے کہ یہ سارے اعمال اُسی ایک ہستی کے وجُود سے مُتشکل ہو کر ظاہر ہو سکتے ہیں جس ہستی کے ساتھ ہر وقت فرشتوں کا وہ نادیدہ ہجُوم رہتا ہے جو نادیدہ ہجُوم وہ سارے اعمال اَنجام دیتا ہے جو اُس کی ہستی کی ذات سے ظاہر ہوتے رہتے ہیں اور یہ سارے وہ مُعجزانہ اعمال ہیں جن کی نعت شریف کی ذریعے تعریف و توصیف تو ضرور کی جا سکتی ہے لیکن اِن پر عمل نہیں کیا جا سکتا اور اٰیاتِ بالا میں جس ہستی کی جس وحی کی تفصیل بیان کی گئی ہے اہلِ روایت نے اُس ہستی کی اُس وحی کی جُملہ جہات کے اِرد گرد بھی روایات کا ایک ایسا ہی جال پھیلایا ہوا ہے کہ وہ وحی بھی انسانی فہم سے اتنی بعید اَز فہم نظر آتی ہے کہ اُس بعید اَز فہم وحی پر بھی عمل در آمد ہونا مُمکن ہی نظر نہیں آتا لیکن اِن ساری روایات کے برعکس قُرآن کی یہ قُرآنی اٰیات یہ کہتی ہیں کہ اللہ تعالٰی کی اِس آخری وحی کی معراجِ وحی کا پہلا مرحلہ وہ تھا جس میں اللہ تعالٰی نے اپنے اس نبی کو ایک بلند مقام پر مُتمکن فرما کر { فاوحٰی الٰی عبدہٖ ما اوحٰی } کے مطابق اس کے دل پر جو وحی نازل و ثبت کرنی تھی وہ ایک بار ہی ثبت کردی تھی اور اِس وحی کا دُوسرا مرحلہ وہ تھا جس میں آپ کو سدرةُالمنتہٰی اور جنت الماوٰی کے قریب بلا کر { مازاغ البصر و ما طغی } کے مطابق وہ سارا کلامِ وحی آپ کے پردہِ بصارت پر نقش فرمادیا تھا جس کا سلسلہ کلام کی آخری آیت کے مطابق نتیجہ کلام کے طور پر آپ نے عظمت کلام و عظمت مقام کے وہ اسارے اشارے دیکھ لیئے تھے جن کے دکھانے کا مقصد یہ تھا کہ آپ اِس کلامِ وحی کو ہر وقت اپنے پردہ بصارت پر دیکھ کر پڑھ بھی سکیں پڑھا بھی سکیں ، لکھ بھی سکیں لکھا بھی سکیں اور پھر پڑھنے لکھنے کے اِس عمل کے بعد اِس کلامِ وحی کے اَحکام پر خود بھی عمل کر سکیں اور دُوسرے انسانوں سے بھی عمل کراسکیں ، وحی کی اِن قُرآنی تفصیلات کے بعد بحیرہ راہب کی طرف سے آپ کو ملنے والی نبوت کے وہ فرضی و روایتی قصے ، غارِ حرا کے چلے اور اُن چلوں کے دوران انسانی صورت میں آپ کے پاس آنے والے جبریل کے فرضی و ضعی مکالمے ، اُن فرضی مکالموں کے بعد آپ کی خوف زدگی کے افسانے اور اُس خوف زدگی کے دوران خدیجة الکبرٰی کی تسلیاں اور اُس خوف زدگی کے بعد ورقہ بن نوفل سے مشاورت کے خیالی افسانے ، وحی کے بند ہونے کے بعد آپ کے خود کشی کے ارادے سے پہاڑوں پر چڑھ کر پہاڑوں سے خود کو بار بار گرانے اور جبریل کے بار بار آپ کو بچانے کے لیۓ آنے اور اِس قسم کے وہ سارے جُھوٹے واقعات اہلِ روایت کے وہ روایتی کے جُھوٹ ہیں جو اللہ تعالٰی کے کلامِ وحی اور مَہبطِ وحی کی ذات کو افسانہ بنانے کے لیۓ گھڑے گۓ ہیں اور معراجِ وحی کے مقام اور اُس کے آغاز و اَنجام کے حقیقی واقعات وہی ہیں جو اللہ تعالٰی نے اپنی اِس کتاب کی اِس سُورت میں پُوری تفصیل کے ساتھ بیان کر دیۓ ہیں !!
|