پٹیالہ ہاؤس کی سیشن عدالت نے آلٹ نیوز کے شریک بانی
محمد زبیر کی درخواست ضمانت منظور کرکے عدلیہ پراعتماد بحالی کی ایک کامیاب
کوشش کی ہے۔اس سے قبل سپریم کورٹ نے نوپور شرما کی ذلت و رسوائی میں چار
چاند لگا کراپنا وقار بحال کیا تھا ۔ پچھلے دنوں جسٹس اے ایم کھنوِلکر،
دنیش مہیشوری اور سی ٹی روی کمارپر مشتمل ایک بنچ نے کانگریس کے سابق رکن
پارلیمان احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری کی درخواست کو خارج کرتے ہوئے جو
تبصرہ کیا اس سے عدالتِ عظمیٰ کی مٹی پلید ہوگئی اور گودی میڈیا کے طرز پر
گودی عدلیہ کا چرچا ہونے لگا ۔ حکمرانوں کی خوشنودی کے لیے کورٹ نے سماجی
کارکن تیستا سیتلواڑ کے خلاف الزامات کی جانچ کا راستہ کھول دیا ۔ اس فیصلے
کےخلاف چیف جسٹس آف انڈیا کو ایک احتجاجی مکتوب میں مجموعی طور پر 304
وکلاء اور دیگرنامور ہستیوں نے جہد کار تیستا سیتلواد‘ سابق اے ڈی جی پی آر
بی سری کمار اور دیگر کی قید پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا چونکہ انہوں نے
فروری 2002میں گجرات فسادات کے دوران ہلاک ہونے والے زائد از 2000افراد کے
لئے انصاف حاصل کرنے کی جدوجہد کی تھی اس لیے ان کا پیچھا کیا جارہا ہے ۔اس
کے بعد بھی بےحس نے تیستا کو رہا کرنےکے بجائے سنجیو بھٹ کو جیل سے گرفتار
کرکے تفتیش شروع کردی۔
اس سے قطع نظر نوپور شرما کے معاملے میں جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جے بی
پاردی والا کی تعطیلاتی بنچ نے سخت ریمارکس کرکے یہ پیغام دیا ہے کہ عدلیہ
کے اندر اب بھی نڈر اور دو ٹوک فیصلہ کرنے والے جج موجود ہیں ۔ اس فیصلے نے
نوپور شرما کا یہ حال کیا گویا ’’گئے تھے نماز بخشوانے روزے گلے پڑے‘۔ اپنے
فیصلے میں جسٹس سوریہ کانت کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ ایک ٹی وی
پروگرام کے دوران پیغمبر اسلام کے بارے میں اس (نوپور) کے ریمارکس کی وجہ
سے کئی ریاستوں میں پھوٹنے والے فسادات اور پرتشدد واقعات کے لیے اسے ٹیلی
ویژن پر آکر پورے ملک سے معافی مانگنی چاہیے۔بنچ نے کہا کہ ہم نے بحث کے
دوران قوم کو بھڑکانے والے تبصرے دیکھے ہیں۔ ایک منہ پھٹ عورت نے پورے ملک
میں آگ لگا دی ہے۔ جج صاحب نے اُدے پور میں پیش آنے والے افسوسناک واقعہ کے
لئے بھی نوپور کو ذمہ دار ٹھہرا تے ہوئے کہا اس کی ذمہ دار صرف وہی عورت
ہے۔ایک وکیل ہونے کے ناطے اسے جس طرح اکسایا گیا وہ اور بھی شرمناک ہے ۔‘‘
عدالت کو اس پر بھی اعتراض تھا کہ گیانواپی مسجد تنازعہ ٹرائل کورٹ میں زیر
التوا ہے اس کے باوجود نوپورشرما نے متنازع پروگرام کے مباحثے میں حصہ لیا۔
سپریم کورٹ نےاس ٹی وی بحث کا مقصد عوام کے جذبات کو بھڑکانابتایا ۔ ایسے
میں چینل اور اینکر کو سزا ملنی چاہیے۔ عدالتِ عظمیٰ نے اس دوران دہلی
پولیس کے رویہ پر سوال اٹھا تے ہوئے پوچھاکہ نوپور شرما کے خلاف کئی مقدمات
درج ہونے کے بعد بھی گرفتاری کیوں نہیں ہوئی؟ نوپور کے وکیل منندر سنگھ
نےجب کورٹ کو بتایا کہ ان کے موکل کی جان کو خطرہ ہے تو جسٹس سوریہ کانت نے
پوچھا انہیں خطرہ ہے یا وہ سیکورٹی کے لئے خطرہ بن گئی ہیں؟ عدالت نے کہا
کہ نوپور شرما کو کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن ان کے بیانات ضرور ملک کے لئے
خطرہ بن گئے ہیں۔نوپور کے خلاف مغربی بنگال کے علاوہ ممبئی ، دہلی،
حیدرآباد اور سری نگر میں مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا مقدمہ درج کیا
گیا ہے۔ اس بابت ممبئی اور کولکتہ پولیس نے نوپور شرما کو پوچھ تاچھ کے لیے
دو بار نوٹس جاری کیے لیکن وہ پیش نہیں ہوئیں۔
نوپور کے وکیل نے جب اس کی معافی اور پیغمبر اسلامؐ پر کئے گئے تبصرہ کو
واپس لینے کا تذکرہ کیا تو سپریم کورٹ نے کہا کہ اس وقت تک کافی دیر ہو چکی
تھی۔عدالت نے نوپور کی درخواست کو رعونت پر محمول قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ
اپنے آگے مجسٹریٹ کی حیثیت بہت کم سمجھتی ہیں ۔ سپریم کورٹ نے حیرت کا
اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کی شکایت پر تو ایک شخص کو گرفتار کیا جا چکا ہے
لیکن کئی ایف آئی آر درج کئے جانے کے باوجود دہلی پولیس نے اسے ابھی تک
چھوا تک نہیں ہے۔ دہلی پولیس کی کارکردگی سے متعلق عدالت نے پوچھا اس نے اب
تک کیا کیا ہے؟ اس پر ہماری زبان نہ کھلوائیں۔ آپ جب(زبیر جیسے ) کسی عام
آدمی کے خلاف ایف آئی آر درج کرتے فوراً گرفتاری ہوجاتی ہے لیکن نوپور
کو گرفتار کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ عدالت نے سوال کیا کہ کوئی کسی پارٹی کی
ترجمان ہو تو کیا یہ سمجھے کہ اس کے پیچھے اقتدار کی طاقت ہے اور ملک کے
قانون کا احترام کو بالائے طاق رکھ کر اپنی مرضی کے مطابق بیان دیا جاسکتا
ہے؟ اس طرح ملک کی مختلف ریاستوں میں نوپور شرما کے خلاف درج کردہ مقدمات
دہلی منتقل کرنے کی عرضی سپریم کورٹ نے خارج کردی ۔اس رسوائی کے بعد نوپور
نے درخواست واپس لے لی لیکن بہتر ہوتا کہ عدالتِ عظمیٰ گرفتاری کا واضح حکم
دے دیتی۔
عدالت عظمیٰ کی اس پھٹکار کے بعد خود کو سرکار سمجھنے والے ہندو انتہا پسند
تلملا گئے ۔ انہوں مذکورہ دونوں ججوں کے خلاف سوشیل میڈیا میں محاذ چھیڑ
دیا اور اس تبصرے کو فیصلے میں سے ہذف کرنے کا مطالبہ کرنے لگے ۔ اس کے بعد
جسٹس جے بی پارڈی نے ان کے فیصلوں پر ذاتی حملے کے بارے میں سخت ناراضگی
ظاہر کیا - ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے جسٹس پارڈی والا نے کہا، "ججوں پر
ان کے فیصلوں کے لیے ذاتی حملے ایک خطرناک منظر نامے کی طرف لے جاتے ہیں
جہاں ججوں کو یہ سوچنا پڑتا ہے کہ میڈیا کیا سوچتا ہے بجائے اس کے کہ قانون
واقعی کیا سوچتا ہے؟ اس سے قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچتا ہے۔ سوشل اور
ڈیجیٹل میڈیا بنیادی طور پر ججوں کے خلاف ذاتی رائے کا اظہار کرنے کا سہارا
لیا جاتا ہے، بجائے اس کے کہ ان کے فیصلوں کی تعمیری تنقیدی جائزہ لیا
جائے‘‘۔ ان کے مطابق یہ چیز عدالتی ادارے کو نقصان پہنچا رہی ہے اور اس کے
وقار کو پست کر رہی ہے۔ فیصلوں کا علاج سوشل میڈیا سے نہیں ہوتا بلکہ درجہ
بندی میں اعلیٰ عدالتوں سے ہوتا ہے۔
جسٹس پارڈی والا نے کہا کہ جدید دور میں، ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے ٹرائل
انصاف کی فراہمی کے عمل میں ایک بے جا مداخلت ہے اور کئی بار ل اپنی حدود
کو پار کر دیتے ہیں- ان کا کہنا تھا کہ جج کبھی بھی اپنی زبان سے نہیں
بولتے، صرف اپنے فیصلوں سے بولتے ہیں۔ انہوں نے ہندوستان جیسی نابالغ
جمہوریت میں آئین کے تحت قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے ڈیجیٹل
اور سوشل میڈیا کو قابو میں رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اپنے خطاب میں جسٹس
پارڈی والا نے ایودھیا کیس کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ زمین
اور ٹائٹل کا تنازع تھا لیکن حتمی فیصلہ آنے تک اس معاملے نے سیاسی رنگ
اختیار کر چکا تھا ۔ لوگ اس بات کو بھول گئے کہ کسی نہ کسی دن کسی جج کو
متنازعہ سول تنازعہ کا ہزاروں صفحات پر مشتمل فیصلہ سنانا پڑے گا۔ یہ ایک
ایسا مقام ہے جہاں آئینی عدالت کے سامنے قانونی چارہ جوئی بد دل ہوجاتی ہے
اور تنازع کا فیصلہ کرنے والے ججوں کے قدم متزلزل ہوجاتے ہیں ۔ انہوں نے
اسے قانون کی حکمرانی کے لیےغیر صحت مندانہ قرار دیا ۔
عدالت عظمیٰ میں نوپور شرما کی سخت پھٹکار کا ملی تنظیموں اور علمائے دین
نے خیرمقدم کیا اور ساتھ ہی معافی کے ساتھ قانونی سزا کا بھی مطالبہ تاکہ
مستقبل میں کوئی دوسرا شخص اس طرح کی حرکت سے ماحول خراب نہ کرے۔ جماعت
اسلامی ہند کے نائب صدر محمد سلیم انجینئر نے سپریم کورٹ کے تبصرہ کو امید
کی کرن بتا کر اس کا خیرمقدم کیا۔ ان کے مطابق نوپور شرما کی معافی سے اس
کا جرم کم نہیں ہو جاتا اس لیے سزا توملنی ہی چاہئے تاکہ کوئی اور مستقبل
میں ایسی غلطی نہ کرے۔ دہلی کی فتحپور سیکری مسجد کے شاہی امام مفتی مکرم
احمد نے بھی سپریم کورٹ کے بتصرے کا استقبال کیا ۔ ان کے مطابق عدالتی
تبصرہ سے پہلے ہی نوپور شرما معافی مانگ لیتی تو ملک کا ماحول خراب نہیں
ہوتا۔ شیعہ عالم دین مولانا محسن نقوی نے کہا کہ عدالت کا تبصرہ بہت مناسب
ہے۔ نوپور شرما اگر معافی مانگتی ہے تو مسلمانوں کو معاف کر دینا چاہئے
کیونکہ اسلام میں معاف کرنے کا جذبہ ہمیشہ سے رہا ہے۔ نوپور شرما نے پیغمبر
اسلامؐ کی زندگی پر لکھی کتابیں پڑھی ہوتیں تو وہ ہرگز ایسا بیان نہیں
دیتی۔ اس پیغام میں یہ تلقین پوشیدہ ہے کہ دشمنانِ اسلام تک بھی دین کی
دعوت پہنچانا اہل ایمان کی ذمہ داری ہے۔ نوپور شرما جیسے لوگوں کے خلاف
نکیل کسنے کی جد جہد کے ساتھ اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی جانب بھی خاطر
خواہ توجہ ہونی چاہیے تاکہ عام آدمی اس طرح کے پروپگنڈے کا شکار نہ ہو اور
سیرت محمدی ﷺ کے توسط سے اسلام کے پیغام ِ رحمت سے بہرہ ور ہوسکے کیونکہ اس
امانت کی مستحق عامتہ الناس ہے ۔ امت مسلمہ اس کی پیغام رسانی پر مامور ہے۔
|