محترم قارئین کرام السلامُ علیکم
ہر سال دُنیا بھر میں لاکھوں مسلمان رمضانِ کریم کے آخری عشرے میں مساجد
میں اعتکاف کے لئے بیٹھتے ہیں جِن میں ایک کثیر تعداد نوجوانوں کی بھی
ہُوتی ہے۔
اعتکاف میں بیٹھنے کی سب سے بڑی فضیلیت تو میری نِگاہ میں یہی ہے کہ یہ
میرے آقا کریم علیہ السلام کی سُنت مبارکہ ہے اس عظیم نسبت کے بعد تمام
فضائل ضمنی نظر آتے ہیں کہ جس عمل کو پیارے آقا علیہ السلام سے نسبت حاصل
ہُوجائے اُس کے بعد کسی فضیلت کسی دلیل کی حاجت باقی نہیں رِہ جاتی۔
البتہ ایک سوال ایسا ضرور ہے جو اکثر نوجوان کے ذہن میں اس عظیم سعادت کو
حاصل کرلینے کے باوجود بھی دِماغ میں باقی رہ جاتا ہے کہ آخر ہم لوگ کیوں
تقریباً 10 دِن تلک اپنے گھر والوں سے دور رہے اور آخر وہ کیا مقصد تھا کہ
جس کی وجہ سے ہم نے یہ خلوت نشینی اختیار کی تھی؟
جواب اگر چہ انتہائی آسان ہے مگر عموماً ہماری نگاہ اور ہماری فراست اس
جواب کا ادراک حاصل نہیں کرپاتی
فضیلت کے اعتبار سے کئی احادیث کریمہ موجود ہیں جنکی رُو سے اعتکاف کا ثواب
کبھی نفلی حج کے برابر تو کبھی عمرہ کے برابر کہیں مغفرت کی بشارت تو کہیں
انوار الہی کے جلوؤں کی نوید سُنائی دیتی ہے۔
لیکن میں پھر کہوں گا کہ تمام فضائل اپنی جگہہ لیکن کریم مُصطٰفی علیہ
السلام کی عظیم سُنت کی نسبت اِن تمام فضائل سے بڑھ کر ہے کہ اللہ کریم نے
قران مجید میں جابجا اپنے مدنی محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور
اتباع کا حُکم عطا فرمایا ہے۔
میں یہاں سُنت کی مُحبت کے پیش نظر ایک روایت پیش کرنا چاہتا ہُوں جو
انشاءَاللہ آپکے شوق کو مزید فِزوں کرنے کا سبب بنے گی روایت ہیکہ جب سیدنا
مُوسیٰ علیہ السلام دریائے نیل سے گُزر چُکے اور فرعون کا تمام لشکر دریا
بُرد ہُورہا تھا سیدنا مُوسی علیہ الصلواۃ والسلام نے دِیکھا کہ فرعون کے
لشکر میں سے ایک آدمی دریا کی لہروں سے بچنے کی مسلسل سعی کررہا ہے اور
بلاآخر وہ فرعون کا لشکری ڈوبنے سے محفوظ رِہ گیا۔ حضرت سیدنا موسٰی علیہ
السلام کو گُمان ہُوا کہ شائد بچنے والا کوئی نیک مومن ہوگا لیکن سیدنا
موسٰی علیہ السلام نے جب اُس محفوظ رہنے والے لشکری کو غُور سے دِیکھا تو
آپکو دُکھ اور نہایت حیرت ہُوئی کہ وہ شخص جو اس عذاب سے محفوظ رہا تھا
کوئی نیک مومن نہیں بلکہ ایک مسخرہ تھا جو کہ بازاروں میں حضرت سیدنا موسٰی
علیہ السلام جیسا حُلیہ بنا کر سیدنا موسٰی علیہ کی نقلیں اُتارا کرتا تھا
کبھی آپکی طرح لہجہ بناتا کبھی آپکی طرح عصا زمین پر مارتا ہر وقت لوگوں کو
محظوظ کرنے کیلئے آپ جیسا لباس پہنتا اور آپ ہی کی طرح عمامہ سر پر باندھ
کر آپکی جیسی چال میں خود کو ڈھال لیا کرتا تھا لوگ اُسکی اداکاری سے محظوظ
ہوتے اور کُچھ نہ کُچھ سِکے اُسکی جانب اُچھال دِیا کرتے تھے جس سے اُسکا
ذریعہ مُعاش قائم تھا۔
حضرت سیدنا موسٰی علیہ السلام نے بارگاہِ خُداوندی میں عرض کی اے میرے
پروردیگار یہ شخص تو مجھے ایذا دِیا کرتا تھا لوگوں میں میری نقل اُتار کر
میرا مذاق اُڑایا کرتا تھا تُونے اِسے کیوں عذاب سے محفوظ رکھا؟
اللہ کریم نے ارشاد فرمایا اے موسٰی آپ ٹھیک کہتے ہیں یہ شخص فرعون کا
ساتھی ہے لیکن اے موسٰی اِس شخص نے تُمہاری مشابہت میں اپنا حلیہ اتنا بدل
ڈالا ہے کہ جب یہ شخص دریا کی لہروں میں غرق ہُورہا تھا تب بھی مجھے اِس
میں اپنے کلیم کی جھلک نظر آرہی تھی میری غیرت نے گوارا نہ کیا کہ جو میرے
کلیم جیسا نظر آرہا ہُو میں اُسے فرعون کے ساتھ غرق کردوں۔ اِس وجہ سے میں
نے اسے غرق ہونے سے محفوظ رکھا!!!!!!
محترم قارئین اگر یہ واقعہ ابھی تک آپکی سمجھ میں نہ آیا ہُو تو اِسے پھر
پڑھیئے ، پھر پڑھیئے ، یہاں تک کہ یہ بات آپ کے ذہن کے ہر گوشے میں بیٹھ
جائے کہ اگر موسٰی علیہ السلام کا اُمتی مذاق میں بھی سُنت اپنالے تو اللہ
کریم کو سزا دینے میں حیا آجائے تو کیا مُصطٰفی کریم علیہ السلام کی مُحبت
میں سُنت کو اپنانے والا رحمت خُداوندی سے محروم رہے گا؟ کیا وہ عذاب دِیا
جائے گا
پس ثابت ہُوا کہ سُنت کی نسبت ہی سب سے عظیم تر دلیل ہے جسکے بعد کوئی
ظاہری فضیلیت نہ بھی ہو تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔
لیکن ایک بات ضرور ہے اگر کوئی یہ عشرہ اعتکاف میں گُزار کر بھی دنیاوی
شہوات کے قفس سے خُود کو آزاد نہ کراپائے، اپنی مغفرت کا پروانہ اپنے کریم
مالک سے حاصل نہ کرپائے، ذکرِ الہی کی حلاوت کو نہ پاسکے، اپنی دینی اور
دُنیاوی حاجات میں سُرخرو نہ ہوسکے تو اُسے اپنے عمل پر دِن اور رات کے ایک
ایک لمحے پر ضرور غُور کرنا چاہیئے کوئی نہ کوئی کھوٹ یا کمی ضرور عمل میں
باقی ہے ورنہ وہ تو بادشاہوں کا بادشاہ ہے، مشکل کشاؤں کا مشکل کُشا ہے ،
دنیا کے تمام خزانوں کا اصل مالک وہی ہے وہ جسے چاہتا ہے بادشاہ بنادیتا ہے
جِسے چاہے حاجت روائی کے لئے چُن لیتا ہے جِسے چاہے زمینوں کے خزانوں کا
مالک کردے جِسے چاہے علم عطا کردے ایسے بادشاہ کے در پر ایک عشرہ پڑے رہنے
کے بعد بھی اگر کوئی خالی ہاتھ ہے تہی دامن ہے تو یہ اُسکی اپنی بدنصیبی ہے
کیونکہ دینے والا تو سخی ہے دینے والے کی اگر شان دیکھنی ہے تو اُسکے محبوب
صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت دیکھ لو۔
اُسکے منگتے کسی کو خالی ہاتھ نہیں بھیجتے تو وہ جو بادشاہوں کا بادشاہ ہے
کیسے گوارہ کرے گا کہ کوئی اُسکے در پہ آئے اور خالی ہاتھ چلا جائے۔ یقیناً
کھوٹ ہے تو مانگنے والے میں یا شائد ہمیں مانگنا ہی نہیں آتا یا شائد جھولی
پھیلانے سے قبل ہمیں یقین ہی نہیں ہوتا کہ ہماری خالی جھولی واقعی بھردی
جائے گی
بقول علامہ شہیدی
اُسکے تو عام ہیں الطاف شہیدی سب پر
تُجھ سے کیا ضد تھی اگر تُو کسی قابل ہُوتا
(یہ تحریر بستر علالت سے خاص انسہ بہن سیالکوٹ کے حُکم پر لکھی ہے) |