سپورٹس ڈائریکٹریٹ ، انجنیئرنگ ونگ او لارے ڈیرے
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
چہ زڑہ دی وی نو لارے ڈیرے او چہ نہ وی نو بہانے ڈیرے .. یہ پشتو زبان کی ایک مثل ہے جسے ہم لوگ متل کہتے ہیں اسکا لفظی معنی کچھ یوں بنتا ہے کہ اگر دل ہو تو راستے بہت سارے ہیں یعنی کوئی بھی بہانہ کرکے ملاقات کی جاسکتی ہیں لیکن اگر دل نہ ہوں تو پھربہانے بہت سارے بنتے ہیں. یہ معاملہ تو دلوں تک ہے مگراس مثل کو یہاں پر بیان کرنے کا مقصد سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کی انوکھی پالیسی کے بارے میں کچھ بیان کرنا ہے ، جس کی بدولت ماشاء اللہ کرپشن بہت زیادہ آسان اور قانونی ہو گئی ہیں اور یہ سب کچھ تبدیلی والی سرکار کے دور میں شروع ہوااور پتہ نہیں کب تک جاری رہے گی.صوبائی حکومت کا ایک ادارہ سی اینڈ ڈبلیو ہے جو بنیادی طور پر سرکاری اداروں کے سول ورکس کی نگرانی کرتا ہے پرائیویٹ کنٹریکٹر کے کاموں کی نگرانی سرکار کے انجنیئرز کرتے ہیں سی اینڈ ڈبلیو کے انجنیئرز کے بارے میں بات کرنا ہمارا کام نہیں لیکن یہ بات زبان زد عام ہے کہ اگر آپ سی اینڈ ڈبلیو کے انجنیئرز کو خوش نہیں رکھو گے تو پھر آپ لاکھ چاہیں جتنا بھی اچھا اور معیاری کام کریں آپ نے رگڑے ہی کھانے ہیں یہ اور اس طرح کی بیشتر باتیں زیادہ تر کنٹریکٹر ہی بولتے رہتے ہیں.اسی بناء پر سی اینڈ ڈبلیو کا مجموعی تاثر " ایک شوڑہ مار" ادارے کی طور پر عام لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہیں.
سال 2012 میں صوبائی حکومت نے سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے زیر انتظام کاموں کی نگرانی کیلئے اپنا ایک الگ ونگ بنا لیا جس میں سی اینڈ ڈبلیو کے انجنیئرز کو کھپا لیا گیا .یہ انجنیئرنگ ونگ اب بھی موجود ہیں اور اس کا بنیادی کام مختلف منصوبوں کی فزیبلٹی رپورٹ تیار کرنے سمیت ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی اور معیار چیک کرنا ہے جو نہ صرف صوبے کے مختلف اضلاع میں جاری ہے بلکہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کے ضم اضلاع میں بھی یہی منصوبے ہیں جن کی نگرانی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے انجنیئرز ہی کرتے ہیں.اس وقت سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں انجنیئرنگ ونگ کے قیام کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ ایک طرف اگر کہیںپر سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی بلڈنگ بن رہی ہوں تو اس کیلئے متعلقہ انجنئیئرز وہاں پر موجود بھی ہوں اور دوسری طرف اخراجات بھی کم سے کم آسکیں اسی طرح معیاری کام بن جائے .لیکن معیاری کام ، بروقت کام کا خواب ابھی تک پورا نہیں ہوسکا.
سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے زیر انتظام انجنیئرنگ ونگ کی کارکردگی کا یہ حال ہے کہ شاہی باغ کے ساتھ واقع قائد اعظم ٹینس کلب میں جو سنتھیٹک کورٹ بنایا گیا ہے اس میں مختلف جگہوں پر ببل بن چکے ہیں ، نیچے پانی ہونے کی وجہ سے بعض جگہوں پر ٹینس کورٹ زرد رنگ پکڑ چکی ہیں ,یہی حال سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ میں عرصہ چھ ماہ قبل بننے والے بیڈمنٹن کے طارق ودود بیڈمنٹن سنتھیٹک کورٹ کابھی ہے جس کا افتتاح تو چیف سیکرٹری ڈاکٹر کاظم نیاز سے کروایا گیا لیکن ایک ماہ کے اندر ہی غیر معیاری سنتھیٹک ہونے کی وجہ سے یہاں پر ببل بننے شروع ہوگئے اور یہ سلسلہ کئی ماہ تک جاری رہا ، انجکشن لگا کر ببل ہٹانے کا سلسلہ بھی شروع ہوا مگر ببل بننے وا کام جاری رہا تو پھر انجکشن لگاکر اسے چھپایا جاتا رہا کم و بیشت ایک ماہ قبل یعنی تیس جون کو متعلقہ کنٹریکٹر نے ایک مرتبہ پھر سنتھیٹک کور ٹ کو غیر معیاری جان کر اس پر کام شروع کرنے کا اعلان کیا اور تاحال اس پر کام شروع نہیں ہوسکا. یہی صورتحال حیات آباد سپورٹس کمپلیکس میں واقع بیڈمنٹن ہال کا بھی ہے جس پر سنتیھٹک کورٹ تو بنا دیا گیا مگر اس کا معیار کسی نے چیک نہیں کیا ، ڈائریکٹر جنرل سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ سمیت سپیشل سیکرٹری وزیراعلی خیبر پختونخواہ خود اس سنتھیٹک کورٹ میں روزانہ کی بنیا د پر پریکٹس بھی کرتے ہیں مگر مجال ہے کہ انہیں یہ نظر آتا ہوں کہ اتنے غیر معیاری کام کا ذمہ دار کون ہے.جبکہ اس کی مانیٹرنگ او ر معیار چیکنگ بھی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انجنیئرنگ ونگ نے کی ہے ... سب سے مزے کی بات یہی ہے کہ اسی طرح کے سنتھیٹک کورٹ آفیسرز میس سمیت مختلف سرکاری اداروں میں بنائے گئے اور اس کی نگرانی بھی انجنیئرنگ ونگ اور متعلقہ اداروں نے خود کی ہے مگر وہاں پر ایسا کوئی مسئلہ نہیں بنا .
اسی ادارے کے انجنیئرنگ ونگ نے صوابی سمیت مختلف علاقوں میں بننے والے سپورٹس کمپلیکس کی فزیبلی رپورٹ بنائی ، کمپلیکس بنے لیکن ایسی جگہ پر بنے جہاں پر سیلاب آنیکے خطرات ہیں اور وہاں پر غیر معیاری کاموں سمیت دیگر ایشوز پر ابھی بھی نیب اور دیگر اداروں کے انکوائریاں جاری ہیں.جبکہ اب کافور ڈھیری پشاور میں بھی ایسی زمین لی جارہی ہیں جو سیلاب سے پہلے بھی متاثرہ تھی اور آئندہ بھی اس کے سیلاب میں بہہ جانے کے خدشات ہیں اب تحصیل سطح پر سپورٹس کمپلیکس کے نام پر سیاست بھی ہو جائیگی ، سیاست دان بھی خوش ہونگے ، کھیلوں کی وزارتوں میں بیٹھے پی ایم ایس افسران کی ترقیاں ہوتی رہینگی ، نچلے سطح کے اہلکاروں کے ٹی اے ڈی اے بل بھی بنیں گے. اور افسران یہ کہہ کر اپنی دعوے کرینگے کہ انہوں نے سیاستدانوں کے تعاون سے زمینوں کی ایلوکیشن کروائی ہے اس لئے اب ان سیاستدانوں کے من پسند افراد کو بھی بھرتی کیا جائے ،اور اگر مگر چونکہ چنانچہ کی طرح عوام کے خون پسینے کی کمائی ان سپورٹس کمپلیکس میں غیر معیاری کام کروا کے اڑائی جائیگی اور پھر سیلابی ریلہ آنے کے بعد یہاں پر کچھ بھی نہیں رہے گا اسی طرح "نہ رہے گا ثبوت اور نہ بجے گی بانسری"والا سلسلہ جاری رہیگا. مخصوص لوگوں کے جیب بھرتے رہینگے اور غریب عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ اڑتا رہیگا.
کسی بھی سرکاری ادارے کی کنسٹرکشن مکمل ہونے کے بعد اس کی بقایا ادائیگی متعلقہ کنٹریکٹر کو کرنے کا اپنا ایک طریقہ کار ہے جس کے تحت منصوبہ مکمل ہونے کے بعد متعلقہ کنٹریکٹر کو ادائیگی کی جاتی ہیں.اور یہ بھی اسی صورت میں جب منصوبہ مکمل ہونے کے بعد متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کیا جائے لیکن. عجیب بات یہ ہے کہ حیات آباد سپورٹس کمپلیکس میں واقع بیڈمنٹن کورٹ ، سمیت طارق ودود بیڈمنٹن ہال کی ہینڈنگ ٹیکنگ نہیں ہوئی ہے لیکن.. کنٹریکٹر کو ادائیگی کی جا چکی ہیں جبکہ ان منصوبوں کے بارے میں یہی قانون ہے کہ ہینڈنگ ٹیکنگ کے بعد پانچ سال تک متعلقہ کنٹریکٹر ہر قسم کے کام کا ذمہ دار ہوگا ، اب عوام کے ٹیکسوں سے بنائے گئے اس غیر معیاری سنتھیٹک کورٹ ہینڈنگ ، ٹیکنگ بھی نہیں ہوئی ، چھ ماہ کے اندرتین مرتبہ غیر معیاری کام پر لیپا پوتی کروائی گئی اور ادائیگی انتظامیہ کی مدد سے کروائی گئی. لاکھوں روپے عوامی ٹیکسوں کے پیسوں کے ضیاع کا اب ذمہ دار کون ہے. یہ وہ سوال ہے جو ابھی تک سوالیہ ہی ہے.کیونکہ اس سے قبل یہ وزارت وزیراعلی خیبر پختونخواہ کی اضافی وزارت تھی اور اب آخری سال یہ عاطف خان کے حوالے کردی گئی .پوچھنے والے کس سے پوچھیں گے..آخر میں اس پشتو مثل کی طرف آئینگے چہ زڑہ دی وی نو لارے ڈیرے او چی نہ وی نو بہانے ڈیرے ، یعنی اگر سرکار اور ان کے ادارے چاہے تو راستے بہت اور اگر نہ چاہیں تو پھر بہانے ہزاروں..
|