ہر سال اگست کی 14 تاریخ کو پاکستانی عوام
جوش و جذبے اور دھوم دھام سے یوم آزادی مناتی ہے۔ پرچم کشائی،کیک کاٹنے کی
تقریبات، گھر، دفاتر، شاہراہوں پر سبز ہلالی پرچم اور جھنڈیوں کی بھرمار،
رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس کم سن بچے۔ سرکاری و نجی محافل میں مجرے نما رقص
و سرور کی محافل کا انعقاد کیا جاتا ہے تو کہیں پر سلائنسر نکالے موٹر
سائیکل پر ون ویلنگ کرتے ہوئے منچلے نوجوان اور باجے کے شوروغل کے بغیر یوم
آزادی کی تقریبات کو منانا شائد مکروہ سمجھا جانے لگا ہے۔ جب تک کان پھاڑنے
والی آوازوں سے محلے دار تنگ نہ آجائیں تب تک ہمارے منچلے نوجوان یوم آزادی
کی خوشی کاصحیح معنوں میں لطف ہی نہیں اُٹھا پاتے۔ بہرحال زندہ قومیں اپنے
قومی تہواروں کو خوش دلی سے مناتی ہیں۔ اور قومی تہواروں کو منانا کوئی غلط
بات بھی نہیں ہے بس اصل بات تو یہ ہے کہ تقریبات کومنانے کے مقاصد ہمارے
سامنے ضرور ہونے چاہئے۔ لمحات فکریہ یہ ہیں کہ دھوم دھام، شوروغوغہ میں یوم
آزادی کی تقریبات مناتی ہوئی ہماری نوجوان نسل۔ اللہ کرے میرا گمان غلط ہو
کہ ہماری نوجوان نسل جدوجہد تحریک پاکستان کے لئے مسلمانان ہند کی جانی و
مالی قربانیوں کو بھول چکی ہے۔ لیکن حقیقت تو شائد یہی ہے کہ ہماری نوجوان
نسل مقاصد حصول پاکستان یقینی طور پر بھول چکی ہے۔ ہمیں بتایا جاتا تھا کہ
ہندو مسلمانوں کی عبادات میں رکاوٹیں ڈالتے تھے جیسا کہ مساجد تک رسائی نہ
دیتے اور اگر کوئی نمازی مسجد تک پہنچ جاتا تو نماز کے اوقات میں مسجد کے
باہر تالیاں، ڈھول، شادیانے بجایا کرتے تھے تا کہ مسلمان ٹھیک طرح سے نماز
ادا نہ کرسکیں۔ لیکن آج یوم آزادی کی تقریبات مناتے وقت کیا ہماری نوجوان
نسل اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہندوؤں سے بھی بدتر سلوک مساجد اور نمازیوں
کیساتھ نہیں کررہی؟ کیا یوم آزادی جیسے عظیم دن میں ہماری مساجد نمازیوں کی
راہ نہیں تکتی رہیں؟ مساجد نمازیوں سے خالی، اللہ اللہ کرکے اگر کوئی نمازی
مسجد میں نماز کی ادائیگی کے لئے پہنچ ہی جائے تو کیا ہماری نوجوان نسل
ہندوؤں کی طرح یا پھر ہندوؤں سے بھی زیادہ بُرا سلوک مساجد اور نمازیوں
کیساتھ نہیں کرتی جیسا کہ مساجد کے باہرآذان اور جماعت کے اوقات میں ساؤنڈ
سسٹم پر ملی اور انڈین نغمے، باجوں کی سردرد لگانے والی پاں پاں کی آوازیں۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ہمیں کیا ہوگیا ہے بجائے اللہ کے آگے سجدہ شکر
ادا کرنے کے ہم موج مستیوں میں مشغول ہوگئے۔ آخر ہم کس بات کا جشن منا رہے
ہیں۔ کہ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والی ریاستیں یعنی بھارت اور چین معاشی،
سفارتی، فنون، کھیل، سائنسی ترقی کی بلندیوں تک پہنچ چکی ہیں۔ کیا ہم اس
لئے بھی جشن مناتے ہیں کہ ہم نے اپنے ہی ہاتھوں اور اپنی ہی کرتوتوں سے
اپنے بائیں بازو یعنی مشرقی پاکستان کو اک آزاد مملکت بنگلہ دیش بنوا دیا۔
کل تک ہم تکبر کیساتھ جن بنگالی بھائیوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے
اور انکو جائز حقوق دینے کے لئے آمادہ تک نہ تھے۔ آج وہی بنگالی اک قوم بن
چکے ہیں اور پاکستان کو معاشی ترقی کے اعشاریوں میں بہت پیچھے چھوڑ چکے
ہیں۔ کیا ہم جشن آزادی اس بات پر مناتے ہیں کہ 1947 سے لیکر پاکستان اپنے
جغرافیہ میں ایک انچ کا اضافہ کرنے کی بجائے لاکھوں مربع میل علاقے گنوا
بیٹھا چاہے وہ جوناگڑھ ریاست ہو، مشرقی پاکستان ہو، سیاچن ہو، کارگل ہو اور
رہی سہی کسر بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی آزادانہ حیثیت کو ختم کرکے
بھارت میں ضم کرلینا۔ اور پاکستانی ماسوائے ہفتہ وار دھوپ میں ایک ٹانگ پر
کھڑے ہوکرا حتجاج کرتے دیکھائی دیئے۔ ہم کس بات کا جشن مناتے ہیں کہ اس وقت
اسلامی دنیا کا واحد عظیم اٹیمی ملک شدید ترین سفارتی، سیاسی، معاشرتی اور
معاشی بدحالی کا شکار ہے۔ پاکستان کی کرنسی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک تو
دور کی بات اس وقت جنوب ایشیائی ممالک سے بھی بدتر حالت میں پہنچ چکی ہے۔
1947 میں بظاہر پاکستان دنیا کے نقشہ پر سب سے بڑی آزاد اسلامی مملکت بن کر
منظر عام پر آیا۔ لیکن حقیقت میں پاکستان اور پاکستانی ابتداء سے لیکر آج
تک غلامی کی حالت میں ہیں۔ آزادی کے ابتدائی چند سالوں ہی سے مملکت پاکستان
بیوروکریسی کے ہاتھوں یرغمال بن گئی اور ابھی تک یرغمالی کی حالت ہی میں
ہے۔ہم آزادی حاصل کرنے کے بعد غیروں کی جھولی میں بیٹھ گئے اور بیگانوں کی
لڑائیوں میں مملکت کا جانی، مالی، سفارتی، معاشرتی کباڑہ کروا بیٹھے۔ آج
پاکستان کا کوئی ایسا حصہ نہیں جہاں دہشت گردی جیسی لعنت نہ پہنچ پائی ہو۔
1947 سے لیکر 1956 تک مملکت کا نظام بغیر کسی آئین مگر انگریز دور میں
بنائے گئے قوانین یعنی گورنمنٹ ایکٹ آف انڈیا 1935 اور انڈیپنڈنس ایکٹ 1947
کے تحت چلایا گیا۔ پاکستان کا عدالتی اور انصاف کا نظام آج بھی انگریز دور
کے بنائے گئے قوانین (ماسوائے چند ترامیم کے) تحت چل رہا ہے۔ آزاد ریاست
میں ہم اپنے آزاد قوانین تک نہ بنا سکے۔ تعزیرات پاکستان 1860، قانون ضابطہ
فوجداری 1898، قانون ضابطہ دیوانی 1908، جائیداد کی تقسیم کے حوالہ سے
قانون 1882،اسی طرح دیگر قوانین۔ حد تو یہ ہے ہم ان قوانین کے نام اور نام
کے ساتھ جڑے ہوئے سن تاریخ تک بدلنے کی ہمت نہ کرسکے۔ اللہ کے بندوں کم از
کم تعزیرات پاکستان 1860 قانون میں ترمیم کرکے تعزیرات پاکستان 1960 وغیرہ
ہی رکھ لیتے۔1947 سے پہلے ہم صرف مسلمان تھے لیکن افسوس آج پاکستان میں
مسلمان کم نظر آئیں گے مگر بریلوی، دیوبندی، وہابی، شیعہ زیادہ نظر آئیں
گے۔ پاکستان کی شناخت حاصل کرنے کے لئے لاکھوں مسلمانوں کی جانوں کا نذرانہ
پیش کیا گیا افسوس آج پاکستانی کم مگر پنجابی، بلوچ، پختون، سندھی، سرائیکی
اور مہاجر زیادہ نظر آتے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ پاکستانیوں ابھی
بھی وقت ہے کہ موج مستی کرنے کی بجائے اک قوم اور مسلمان بننے کی تگ و دو
شروع کرو، اسی میں مملکت اور اسکے باسیوں کی فلاح و بقا ہے۔
|