میں اپنے گھر میں قرآن پاک کی تلاوت کررہا
تھا کہ اچانک گھنٹی بجی ۔بیٹا دیکھنے کے لیے گھر سے باہر نکلا تو اس نے
واپس آکر بتایا کہ ایک بزرگ آپ سے ملنا چاہتے ہیں ، اس کی آنکھوں میں آنسو
ہیں اور وہ کہتے ہیں مجھے ہرصورت آپ سے ہی ملنا ہے ۔ میں نے یہ سوچ کر اس
بزرگ کو اپنے ڈرائنگ روم میں بٹھا لیا کہ نبی کریم ﷺ کی حدیث مبارک ہے کہ
اگر تمہارا وجودکسی کے لیے راحت کا باعث بنے تو اسے اﷲ کا کرم سمجھو ۔ اس
طرح حضرت محمد ﷺ کے ساتھ ساتھ رب کائنات کی خوشنودی بھی حاصل ہو تی ہے۔میں
نے اس بزرگ سے پوچھا بابا جی ۔ میں آپ کے لیے کیا کر سکتا ہوں ۔میری اس بات
پر اس کی ہچکیاں بندھ گئیں اور وہ زاروقطار رہنے لگے۔چند لمحے اسی کیفیت
میں گزرگئے ،کچھ حوصلہ پاکر بولے ۔بیٹا مجھے کسی نے بتایا ہے کہ تم نوائے
وقت میں کالم لکھتے ہو۔آپ کے توسط سے میری فریاد بھی اگر وزیراعلیٰ تک پہنچ
جائے تو یہ میری خوش بختی ہوگی ۔میں نے کہا بابا جی آپ حکم فرمائیں ،میں آپ
دکھوں اور پریشانیوں کو لفظوں کا روپ دے کر نوائے وقت کے ذریعے حکمرانوں تک
پہنچانے کی ہرممکن جستجو کروں گا۔میری اس بات پر اسے کچھ ڈھارس ملی ۔ وہ
گویاہوئے ۔بیٹا میں ایک پرائیویٹ ادارے میں اچھے عہدے پر فائز تھا ۔جب میری
عمر ساٹھ سال ہوگئی تو ادارے کی انتظامیہ نے مجھے ریٹائرڈ کردیا ،میں نے
پوچھا آپ کو کوئی پنشن نہیں ملتی ۔ بابا جی نے بتایا بیٹا پنشن تو صرف
سرکاری افسروں اور سرکاری ملازمین کو ملتی ہے ، پرائیویٹ اداروں کے ملازمین
کو کون پنشن کا مستحق سمجھتا ہے ۔حکومت کی جانب سے تنخواہ بھی سرکاری
ملازمین کی ہی بڑھائی جاتی ۔ پرائیویٹ اداروں کے ملازمین کو اتنی تنخواہ
ملتی ہے جتنی اس ادارے کے مالکان دینا چاہتے ہیں اگر کو ئی ملازم حکومت کی
جانب سے اعلان کردہ اضافہ مانگنے کی جرآت کرے تو مالکان اسے گھر کا راستہ
دکھا دیتے ہیں ۔بیٹا مجھے ریٹائر ہوئے آٹھ سال ہو چکے ہیں ، میرے دو بیٹے
ہیں ، جو مختلف پرائیویٹ اداروں میں ملازم ہیں،لیکن تنخواہ میں ان کا اپنا
ہی گزارا نہیں ہوتا وہ مجھے کیا دینگے ۔ مجھے گھٹنوں میں درد کا مرض بہت
پرانا ہے ۔معالجین کی ہدایت پر مسلسل دن میں دو وقت گھٹنوں کو چلنے پھرنے
اور کسی حد تک درد سے محفوظ رکھنے کے لیے دو گولیاں صبح و شام کھانی پڑتی
ہیں ۔ درد کم کرنے والی گولی توپھر کچھ سستی ہے لیکن جووڑوں کو صحیح حالت
میں رکھنے والی گولی Gebonبہت مہنگی ہے ۔ پہلے ایک ڈبی کی قیمت 500 روپے
تھی ۔ اب Gebon کی پیکنگ 1200روپے کی ملتی ہے، مجھے مہینے میں دو پیکنگ کی
گولیاں کھانی پڑتی ہیں ۔گویا 2400 روپے صرف ایک گولی پر اخراجات اٹھ جاتے
ہیں ۔ آنکھوں کی کم بینائی نے بھی میرے لیے مسائل کھڑے کررکھے ہیں ۔ بیٹا
ایک سال پہلے مجھے عجیب سے مسئلے کا سامنا کرنا پڑا۔ میں دن میں دس پندرہ
پانی کے گلاس پی لیتا تھا لیکن پیشاب ایک دو مرتبہ ہی آتا تھا ،میں ڈاکٹر
کو چیک کروایا تو اس نے الٹراساونڈ تجویز کیا۔الٹرا ساؤنڈ کے بعد مجھے
گردوں کی ورکنگ کا ٹیسٹ کروانے کے لیے کہا گیا اس کی رپورٹ جب میں گردوں کے
ماہر ڈاکٹر کو دکھائی تو اس نے تو مجھے ڈرا ہی دیا لیکن اس کی اس بات سے
مجھے کچھ حوصلہ ہوا کہ اگر آپ احتیاط کریں اورمیری بتائی ادویات مسلسل
استعمال کریں تو آپ گردوں کی موذی بیماری سے بچ سکتے ہیں لیکن تین ماہ بعد
دوبارہ سارے ٹیسٹ کروانے ہونگے ۔ان ٹیسٹوں پر 2700روپے خرچ آتے ہیں۔اس
ڈاکٹر نے Zanrel10گولی روزانہ ایک کھانے کا حکم دیا ۔دس گولیوں کا ایک پتا
225 روپے کا آتا ہے، مہینے میں تیس گولیاں 675روپے میں آتی ہیں جو گردوں کی
بیماری سے بچنے کے لیے ہر حال میں مجھے کھانی پڑتی ہیں۔بیٹا میں آپ کو کیا
کیا بتاؤں ۔ مجھے شوگرکا مرض بھی لاحق ہے، معالجین کی ہدایت کے مطابق مجھے
گلوکوفیج گولی ایک صبح ایک شام کو کھانی پڑتی ہے۔یہ بھی خاصی مہنگی ہے ۔
بلڈپریشر بھی مجھے اکثر وبیشتر ہائی رہتا ہے اس کی گولیاں بھی مجھے روزانہ
کھانے کے ساتھ لینی پڑتی ہیں ۔بیٹا میرا کسٹرول بھی 200سے اوپر ہی رہتا ہے
اس بچنے کے لیے مجھے ایک دن چھوڑ کے دوسرے تیسرے دن سروائیو گولی کھانی
پڑتی ہے ۔جس کی دس گولیوں کو پتہ 175 روپے کا ملتا ہے ۔بیٹا میں اﷲ کو حاضر
ناظر جان کر کہتا ہوں کہ یہ سب گولیاں مجھے خریدکر کھانی پڑتی ہیں ۔ قبض کے
مرض نے بھی مجھے بے حال کررکھا ہے اگر میں قبض کشا گولیاں رات کو کھانے کے
بعد لوں تو مہینے میں ایک دو مرتبہ میرا پیٹ خراب ہو جاتا ہے جس سے حد درجہ
کمزوری ہو جاتی ہے ۔ایم بی بی ایس ڈاکٹر سے کئی دن تک ادویات لے کر کھانی
پڑتی ہیں ۔اگر کمزوری زیادہ ہوجائے تو گلوکوز بھی لگوانی پڑتی ہے ۔جس پر
اچھے خاصے اخراجات اٹھ جاتے ہیں ۔اتنی ادویات کھانے کے بعد اگر میں صبح و
شام ایک کپ دود ھ نہ پیؤں تو میرے معدے میں طوفان برپا ہو جاتا ہے ۔ایک طرف
بڑھاپے کی یہ بیماریاں تو دوسری جانب مجھے ایک پیسہ بھی پنشن نہیں ملتی ۔بیٹوں
سے پیسے مانگتے ہوئے شرم آتی ہے ،اگر مانگ بھی لوں تو وہ آنکھ بچا نکل جاتے
ہیں ۔ نوائے وقت کے توسط سے میری وزیراعلی سے درخواست ہے کہ بیماریاں اور
مہنگائی صرف سرکاری ملازمین کو ہی متاثر نہیں کرتی۔ 80 فیصد پرائیویٹ
اداروں میں کام کرنے والے ملازمین بھی ریٹائرمنٹ کے بعد خیرات مانگنے پر
مجبور ہوجاتے ہیں۔ جناب وزیراعلی ۔جن اداروں میں پنشن نہیں ملتی ان کو
حکومت کی جانب سے کم سے کم پچیس ہزار ماہوارزندہ رہنے کے لیے دیا جائے تو
کم ازکم وہ لوگ بھی خود کو زندہ لوگوں میں شمار کرسکیں گے۔
|