جشنِ آزادی پر کبڈی کپ

روزِاول سے ہی کھیل انسانوں کی تفریحِ طبع کا بہترین ذریعہ رہے ہیں۔کھیلوں کے انعقاد سے باہمی محبت اور یگانگت پروان چڑھتی ہے اور معاشرہ امن کی راہ پر گامزن ہو جاتا ہے کھیل معاشرے کو یکجا کرنے اور یکجہتی پیدا کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ۔کھیل کسی بھی معاشرے کا سافٹ امیج ہوتے ہیں جس سے ہر کوئی محبت کرتا ہے ۔کھیل کسی بھی معاشرے کی صحت و تندرستی کی علامت ہو تا ہے۔ تندرست جسم ہمیشہ اعلی دماغ کی علامت ہو تا ہے۔دھشت گردی اور شدت پسندی کو صرف کھیلوں سے ہی شکست دی جا سکتی ہے ۔ حکومتیں کھیلوں کی ترویج پر اربوں روپے صرف کرتی ہیں تا کہ اس کے شہری غیر اخلاقی سر گرمیوں سے اجتناب کرتے ہوئے صحت مندانہ راہ کے راہی بنیں تاکہ ترقی کی راہیں کشادہ ہو سکیں۔ہر ملک کے اپنے اپنے کھیل ہوتے ہیں لیکن دنیا میں کوئی ایسی قوم نہیں جو کھیلوں میں دلچسپی نہ لیتی ہو ۔ ندیم ارشد،نوح بٹ اور انعام الحق بٹ نے کامن ویلتھ گیمز میں جس طرح شاندار پرفارمنس دی ہے اس سے نوجوان نسل میں کھیلوں سے نئی دلچسپی پیدا ہو گئی ہے ۔ ایک قومی جذبہ ہے جو نوجوان نسل میں پروان چڑھ رہا ہے۔ ہمارے نئے قومی ہیروز نے اپنی پرفارمنس سے کھیلوں کی ترویج میں جونئی جان ڈالی ہے اس سے کھیلوں کی نئی دنیا کروٹ لے رہی ہے جو ہمارے گھٹن زدہ معاشرے کیلئے انتہائی خوش آئیند بات ہے۔میں اسے ہوا کے تازہ جھونکا سے تشبیہ دوں گا ۔حکومت اور مخیر حضرات کو ہر سطح پر کھیلوں کی حوصلہ افزائی کرنی چائیے تا کہ ہماری نئی نسل صحت مندانہ سرگرمیوں میں بھر پور شرکت سے ملک و قوم کیلئے کار آمد ثابت ہو سکے۔،۔

۱۴ اگست پاکستان کے یومِ آزادی پر سیالکوٹ کے نواحی گاؤں ونڈالہ سندھواں ڈسکہ (سیالکوٹ )میں کبڈی کا ایک میلہ سجا یا گیا جس میں علاقے کے نوجوان اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کیلئے بے تاب تھے۔ چار ہزار سے زائدافراد کا مجمع کبڈی کے اس ٹکراؤ کو دیکھنے ک لئے غول در غول امنڈ آیا تھا۔ہر چہرہ ہشاش بشاش اور حوش و خرم تھا اور اور اپنی اپنی ٹیموں کو بڑھ چڑھ کر داد دے رہا تھا۔ایک موقع پر مخاصمت اور ٹکراؤ کا ماحو بھی پیدا ہوا لیکن انتظامیہ کی بر وقت مداخلت سے یہ مرحلہ ٹل گیا۔عوام کا شورو غل کبڈی کے کھلاڑیوں میں مزید جوش و جذبہ پیدا کر رہا تھا ۔ قیصر زمان،چوہدری اشفاق، چوہدری وقاص اورمحمد فاروق ا س کبڈی میچ کے روحِ رواں تھے۔ان کے قد کاٹھ اور گٹھے ہوئے جسم اس بات کی چغلی کھا رہے تھے وہ خود بھی ماضی میں کبڈی کے کھلاڑی رہے ہوں گے ۔شاندار ٹرافیوں کے علاوہ کھلاڑیوں میں ٹی شرٹس تقسیم کی گئیں جبکہ فاتح ٹیم کو ایک لاکھ اور رنرز اپ ٹیم کو پجاس ہزار کے انعام سے نوازا گیا۔کھلاڑی خوش تھے کہ ان کے فن کو سراہنے کیلئے نوجوانوں کی کثیر تعداد گراؤنڈ میں موجود تھی ۔طارق حسین بٹ شانؔ اس میچ کے ناظمِ اعلی چوہدری وقاص کی خصوصی دعوت پر سیالکوٹ سے وڈالہ سندھواں تشریف لائے تھے۔وہ اس میچ کے مہمانِ خصوصی تھے۔رانا قیصر نے فاتح ٹیم کو پہلے انعام کیلئے ایک لاکھ کے انعام سے نوازا تھا جبکہ چوہدری اشفاق نے رنرز اپ ٹیم کو پچاس ہزار کے انعام سے نوازا تھا ۔ٹرافیاں اور ٹی شرٹس چوہدری وقاص کی طرف سے عطیہ کی گئی تھیں ۔ کھیلوں سے ان کی دلچسپی قابلِ ستائش ہے کیونکہ انھوں نے اپنے علاقہ کے مکینوں کو کبڈی جیسے کھیل سے محظوظ ہونے کے مواقع مہیا کئے تھے۔کھیلوں کے میدانوں کی رونق انہی کے دم قدم سے قائم ہے۔ ،۔

کبڈی کا آخری مرحلہ بڑا دلچسپ تھا کیونکہ اسی نے میچ کی فاتح ٹیم کا فیصلہ کرنا تھا۔علاقے کے دو نامی گرامی کھلاڑی ایک دوسرے کے مدِ مقابل تھے اور انہی کی ہار جیت سے کبڈی کے میچ کا فیصلہ ہونا تھا۔محمد حفیظ اپنے علاقیکا نامی گرامی کھلاڑی جس کی دور دور تک دھوم ہے اور علاقے کے لوگ اس سے بے پناہ محبت کرتے ہیں لہذا جیسے ہی ان کا نام پکارا گیا گراؤنڈ میں ہنگامہ بپا ہو گیا عوام اپنے کھلاڑی کی دادو تحسین کیلئے کسی کو خاطر میں لانے کے لئے تیار نہ تھے ۔حاضرین محمد حفیظ کو دیکھتے ہی گراؤ نڈ کے اندر گھس گے اور اپنے کھلاڑی کو کندھوں پر اٹھا لیا ۔ عوامی ردِ عمل پر ریفری کو کھیل چند لمحوں کیلئے روکنا پڑا کیونکہ عوام کی موجودگی میں میچ کو جاری رکھنا ممکن نہیں تھا ۔میچ شروع ہوتے ہی محمد حفیظ نے اپنے مخالف پر چپیڑوں کی بارش کر دی اور اسے بالکل سنبھلنے کا موقع نہ دیا۔، محمد حفیظ کے غیر متوقع حملے سے مخالف کھلاڑ ی کے قدم اکھڑگے اور یوں محمد حفیظ نے اپنے مخالف کو دھول چٹا دی۔مخالف کھلاڑی محمد حفیظ سے زیادہ جوان، با ہمت تھا اور تگڑا تھا لیکن محمد حفیظ کا تجربہ ،فن اور ہمت اپنے مخالف کھلاڑی سے زیادہ تھی اور یہی جو ش و جذبہ اس کی فتح کی بنیاد تھا۔مجھے خود بھی محمد حفیظ کی جیت پر حیرانگی ہوئی تھی کیونکہ محمد حفیظ کی عمر اپنے مخلاف سے کافی زیادہ تھی۔بہر حال کھیلوں میں ایسے ہی ہوتا ہے۔اس دن وقت محمد حفیظ کے ساتھ تھا لہذا وہی فاتح قرار پایا تھا۔ریفری نے جیسے ہی محمد حفیظ کی جیت کا اعلان کیا گراؤنڈمیں بھنگڑے اور نعروں کا سلسلہ شروع ہو گیا جسے با رش کی بوندوں نے اپنے ا حتتام کو پہنچایا۔جیسے ہی میچ ا حتتام پذہوا تیز بارش شروع ہو گئی اور یوں کبڈی کا یہ خو بصورت میلہ اپنے انجام کو پہنچا۔ ایک یادگار دن جس میں پنجاب کی ثقافت اپنے پورے جوبن پر دیکھی جا سکتی تھی۔پنجاب کے گھبرو نوجوانوں کی جوانیاں اپنی پوری طاقت کا مظاہرہ کر رہی تھیں اور عوام انھیں دادو تحسین سے نواز رہے تھے ۔کبھی کوئی گرتا ،کبھی کوئی اٹھتا ،کبھی کوئی للکارتا،کبھی کوئی بھڑک مارتا،کبھی کوئی بازو ہوا میں لہراتا۔کبھی کوئی ڈانس کرتا،کبھی کو ئی سر خرو ہوتا اور کبھی کوئی بھنگڑا ڈالتا۔ہر ایک پوائنٹ پر بڑھکوں اور نعروں کی گونج سے سینے پھول رہے تھے اور عوام ان سے محظوظ ہو رہے تھے ۔بقولِ شاعر۔ (پلٹنا جھپٹنا جھپٹ کر پلٹنا،لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ )کبڈی کا یہ میچ اسی شعر کی تفسیر تھا۔،۔
 
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515963 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.