زہ سہ وایم اوتورڑئی مے سہ وائی اور سوات کا آسٹرو ٹرف
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
|
پشتو زبان کازبان زد عام ایک محاورہ ہے" وائی چہ غریب خدا ئے کڑے نو دلا چا کڑے " جس کے لفظی معنی کچھ یوں بنتے ہیں کہ ٹھیک ہے کہ غریب تجھے اللہ تعالی نے بنا دیا ہے لیکن کمینہ تمھیں کس نے بنا دیا .پتہ نہیں کس نے اور کن حالات میں یہ محاورہ کہا گیا تھا جو اب ایک ضرب المثل بھی ہے . پشتو محاورے سے آغاز اس لئے کیا کہ گذشتہ روز سوات میں آنیوالے سیلاب کے بعد مکان باغ کے علاقے میں بننے والے سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کی زیر انتظام زمین پر ہاکی آسٹرو ٹرف کے حوالے سے تصاویر اور ویڈیو شیئر کی اور غلط منصوبہ بندی اور ناقص میٹریل کی نشاندہی کرتے ہوئے وزیراعلی خیبر پختونخواہ سمیت ان کے ہی ڈیپارٹمنٹ کو مبارکباد دی تھی جو مثبت رپورٹنگ تھی ، کہ وزیراعلی نے کتنی خوبصورتی سے ہاکی کے فروغ کیلئے اقدامات اٹھاتے ہوئے ہاکی گرائونڈ و آسٹرو ٹرف بنایا ، کے پی ہاکی لیگ منعقد کروائی لیکن انہی کی ڈیپارٹمنٹ کے بیورو کریٹس نے سوات سمیت دیگر جگہوں پر بننے والے آسٹرو ٹرف کا وہ حال کیا جو یاد رکھنے کے قابل ہے . نشاندہی اس لئے کی کہ اس پر عوامی ٹیکسوں کا پیسہ لگایا گیا ، وزیراعلی خیبر پختونخواہ خود بھی ہاکی کے اچھے کھلاڑی رہے اور اسلامیہ کالج میں ہاکی بھی کھیلتے رہے یہی وجہ ہے انہوں نے اسلامیہ کالج و یونیورسٹی میں بھی ہاکی گرائونڈ میں آسٹرو ٹرف بنانے کے احکامات دئیے لیکن ان کے ان احکامات پر کیسا آسٹرو ٹرف بنا وہ دیکھنے کے قابل ہے.اگر وزیراعلی خیبر پختونخواہ کسی دن خود چکر لگا کر دیکھ لیں تو انہیں لگ پتہ جائے.
سوات کے آسٹرو ٹرف پر بننے والے ویڈیو اور تصاویر دیکھ کر سوات کے کھلاڑیوں ، کچھ ٹھیکیداروںنے بجائے اس کے مکان باغ کے علاقے میں بننے والے آسٹرو ٹرف کی حالت زار پر بات کرتے ، راقم کو گالیاں دینا شروع کردی بلکہ بعض نے بدتمیزی کرتے ہوئے بد دعائیں دینا شروع کردی انہوں نے سوات کے سیلاب کو اللہ کا عذاب قراردیا ان کے بقول مساجد بھی شہید ہوگئیں لوگوں کا روزگار تباہ ہوا ایسے میں آسٹرو ٹرف کی نشاندہی کرنا غلط اقدام ہے.ہمیں سیلاب کی صورتحال کا بھی اندازہ بھی ہے لیکن اسے عذاب قرار دیکر جان چھڑانے کے بجائے کیا ہم ان چیزوں پر توجہ نہیں دیتے کہ زمینی حقائق کیا ہے.کیا سوات کے آبی نالوں کے قریب لوگوں نے تجاوزات نہیںکی ، ان نالوں کی صفائی کون اور کب سے کررہا ہے کسی کو یاد ہے اور کیا انہی نالوں میں شہریوں نے گھروں اور دکانوں کا گند نہیں ڈالا ، کیا نالوں کو چوڑا نہیں کیا گیا ، حالانکہ کہا یہ جاتا ہے کہ ٫پانی اپنی زمین کبھی نہیں چھوڑتی ، جس جگہ سے گزری ہوتی ہے اسی جگہ پر ہی گزرے گی. اس صورتحال میں کیا سرکاری اداروں کیساتھ عوام کی اپنی ذمہ داریاں نہیں جسے وہ پورا نہیں کررہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بارش کے بعد سیلابی ریلے لوگوں کے گھروں سمیت روزگار بھی بربادہو جاتے ہیں. انسان کو اللہ تعالی نے اشرف المخلوقات بنایا ہے اور اسے عقل و شعور بھی دیا .کیا کوئی آبی گزرگاہ کے قریب گھر ، دکان یا سرکاری جگہیں یا آسٹرو ٹر بنا کر اور اس آبی گزرگاہ کو چوڑا کرکے یہ سمجھ سکتا ہے کہ اس پر سیلابی ریلا نہیں آئیگا اور اگر آگیا تو اسے اللہ کا عذاب کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کرے گا.
اب آتے ہیں سوات کے آسٹرو ٹرف پر ، کیا یہ آسٹرو ٹرف جب بن رہا تھا تو اس پر پاکستان ہاکی فیڈریشن کی جانب سے بنائے گئے خصوصی کمیٹی جنہوں نے سوات کا دورہ کیا تھا مکان باغ میں بننے والے ہاکی سٹیڈیم پر اعتراضات نہیں اٹھائے تھے.اوراس بارے میں رپورٹ بھی سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کو جمع کرائی تھی ، اس کمیٹی میں صوبائی ہاکی ایسوسی ایشن کے صدر سید ظاہر شاہ ، سوات سے تعلق رکھنے والے اولمپئین رحیم خان اور کمیٹی کے تیسرے رکن یاسر اسلام نے تحفظات کا اظہار نہیں کیا تھا. سب سے پہلا اعتراض ان کا نالہ جسے پشتو زبان میں خوڑ کہتے ہیں کے قریب ہاکی آسٹرو ٹرف کی تعمیر کو غلط قرار دیاتھا .ساتھ میں اسٹروف کیلئے بنائے گئے بیس ، سول ورکس کے حوالے سے بھی ان کے تحفظات تھے ، اسی کے ساتھ اس آسٹرو ٹرف کے قریب واقع گھروں کے سیوریج لائن کو بھی غلط قرار یا تھا کہ آسٹرو ٹرف نیچے ہیں اور گھروں سے نکلنے والے سیوریج لائن کی پائپ اوپر ہیں اور یہ مستقبل میں کسی بھی نقصان کا باعث بن سکتا ہے اس لئے اس کی جگہ کسی دوسرے جگہ پر اسے بنایا جائے.
مزے کی بات یہ ہے کہ ان تحفظات کو ختم کرنے کے بجائے اسی طرح کام جاری رکھا گیا ، ہاکی ایسوسی ایشن نے بھی وزیراعلی خیبرپختونخواہ کے اس کاوش کو بہتر جانتے ہوئے کہ سوات میں ایک آسٹرو ٹرف بن رہا ہے اس حوالے سے رپورٹ جمع کرائی لیکن زیادہ زور نہیں دیا کہ آسٹرو ٹرف تو بن رہا ہے اور ویسے بھی ان کی ذمہ داری صرف رپورٹ جمع کرنے تک تھی ، ڈنڈا لیکر ٹھیک کرنے کی ذمہ داری کمیٹی کی نہیں تھی ، اسی کے ساتھ کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ سوات میں لگنے والے آسٹرو ٹرف کی منظوری کس نے دی ، کسی نے آسٹرو ٹرف کو چیک کیا ، کیا جن لوگوں نے آسٹرو ٹرف کو چیک کیا وہ اس کے ایکسپرٹ تھے ، کیا اولمپئن رحیم خان سے بہتر کوئی جان سکتا ہے لیکن اس معاملے میں بھی انہیں بھی نظر انداز کیا گیا.حیران کن امر یہ ہے کہ اس منصوبے کی نگرانی براہ راست سی اینڈ ڈبلیو نے کی ، حالانکہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبرپختونخواہ کا اس حوالے سے اپنا ونگ بھی کام کررہا ہے ، جو اب یہ کہہ کر جان چھڑا رہاہے کہ یہ منصوبہ سی اینڈ ڈبلیو نے کیا تھا اور اس کی نگرانی ان کی ذمہ داری نہیں ، لیکن سوال یہ ہے کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ میں لاکھوں روپے تنخواہیں عوامی ٹیکسوں سے لینے والے انجنیئرنگ ونگ یہ کہہ کر اپنی جان چھڑا سکتا ہے کہ انہوں نے اس منصوبے کی مانیٹرنگ نہیں کی .کیا اس صوبے کے چیف ایگزیکٹو اور ہاکی کے کے کھلاڑی وزیراعلی محمودخان اپنے ہی علاقے سوات میں بننے والے آسٹرو ٹرف کی کھلواڑ پر اس کھیل میں شامل افراد کے خلاف کارروائی کرنا پسند کرینگے. کیونکہ پی ایچ ایف کی طرف سے سوات آسٹرو ٹرف کی نگرانی کیلئے بننے والے کمیٹی کے ممبران سید ظاہرشاہ اور اولمپئن رحیم خان نے ہاکی کے کھیل کے شائق اور کھلاڑی وزیراعلی خیبر پختونخواہ سے اس معاملے میں نوٹس لینے کا بھی مطالبہ کیا ہے.
سوات میں آنیوالے سیلاب کے بعد مکان باغ کا آسٹرو ٹرف جو مچھلی کے تالاب کا منظر پیش کررہی تھی کی صفائی کیلئے مقامی کھلاڑیوں نے موقع پر پہنچ کر بیلچوں سے گندگی اور مٹی کو ہٹانا شروع کردیا ، حالانکہ اسے پانی کے بڑے پریشر پائپ سمیت مخصوص مشینوں سے صاف کیا جاسکتا تھا لیکن بیلچوں سے کی جانیوالی صفائی نے نئے آسٹرو ٹرف کی رہی سہی گرا س بھی اسٹرو ٹرف کی اڑا دی.ویسے یہ صفائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ملازمین کا کام تھا تاہم کھلاڑیوں کا ہاکی کے کھیل سے بے پناہ لگائو نے انہیں صفائی کے کام پر لگا دیا .لیکن کم و بیش تعمیراتی منصوبے پر دس کروڑ روپے جو عوامی ٹیکسوں کے ناقص میٹریل سے بنے والے آسٹرو ٹرف کی نذر ہوگئے.سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ اسی طرح کا ایک اور آسٹرو ٹرف سوات بائی پاس کے پاس بھی بن رہا ہے جس پر اگر توجہ نہیں دی گئی تو مستقبل میںاسی طرح کی صورتحال بن سکتی ہے.
ویسے اس سیلابی ریلے نے ٹھیکیدار سمیت اس منصوبے کے تخلیق کار کو بھی کلین چٹ دیدی ،کیونکہ اب ہر کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ سیلاب نے صورتحال ایسی بنا دی ہے اور بیس سے لیکر گندگی کے نالوں اور تھرڈ کلاس آسٹرو ٹرف پر بھی اعتراض ختم ہو جائیگا.حالانکہ ہالینڈ کے جس کمپنی سے یہ آسٹرو ٹرف خریدا گیا تھا اس سے رابطہ کرکے صورتحال سے آگاہی کے بعد انہیں تبدیل بھی کیا جاسکتا ہے لیکن اگر آسٹرو ٹرف واقعی ہالینڈ کا ہوا تو..ورنہ... ذ ہم سوات کے کھلاڑیوں اور ٹھیکیداروں سمیت عام شہریوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہر قسم کے اختلافات سے بالاتر ہو کراپنے علاقے میں واقع آسٹرو ٹرف کی معیاری کام اور اس سے پہلے والے منصوبے کی مانیٹرنگ کیلئے آواز اٹھائیں گے کیونکہ بہر حال ٹیکسوں کی ادائیگی انہوں نے ہی کرنی ہے.اور اس آسٹرو ٹرف کی رقم انہی لوگوں کے جیبوں سے مختلف مدوں میں نکالی جارہی ہیں اور اگر انہیں یہ شعور نہیں کہ ان کیساتھ سرکاری ادارے کیسا کھلواڑ کررہے ہیں تو پھر یہی کہا جاسکتا ہے " کہ غریب تو اللہ تعالی نے بنا دیا لیکن کمینہ کس نے بنا دیا ، .. لیکن سوشل میڈیا پر چلنے والی بحث اور گالیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں بھی یہ محاورہ لکھنا پڑے گا کہ "چی زہ سہ وایم او زما تورڑئی سہ وائی٫ ...
|