سیلاب کی تباہ کاریاں اور منحیث القوم ہماری ذمہ داریاں

اخبارات ریڈیو ٹیلیویژن اور سوشل میڈیا غرض جس طرف پڑھو سنو دیکھو آگاہی دی جارہی ہے ان تباہیوں کی جو شدید بارشوں کیوجہ سے ہو رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسی ایسی وڈیوز بنا کر شئر کی جارہی ہیں کہ جنکو دیکھ کر دل دہل جاتا ہے تو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جن پر بیترہی ہو گی تو قیامت سے کیا کم ہوگی۔ جن کا گھربار ملیامیٹ ہو گیا خاندان کے لوگ اس دنیا سے اس آفت کا مقابلہ کرتے ہوۓ چلے گۓ ان کے لیۓ قیامت یہی تو ہے۔

اس وقت بہت سی فلاحی تنظیمیں اور دینی جماعتیں اپنی بھرپور کوششیں کررہی ہیں کہ کسی طرح ان پھنسے ہوۓ لوگوں کو محفوظ جگہ پر پہنچایا جاۓ پھر سب سے پہلے سر پر چھت اور کھانے کو کچھ دیا جاۓ کہ پورا کے پورا خاندان کئ کئ دن سے بھوکا ہے۔ مگر یہ تنظیمیں بھی اسی حد تک کچھ کرسکیں گی جتنا انکے بس میں ہے۔ جیسے جیسے شہروں سے ان کے پاس ضرورت کے مطابق سامان پہنچے گا چاہے خوراک ہو خیمے ہوں اور ایسی مشینری جس کی مدد سے لوگوں کو افتاد زدہ علاقوں سے نکالا جاسکے۔ عسکری ادارے اپنے طور پر ہمیشہ کی طرح مصروف عمل ہیں کیونکہ لوگ انہی کی طرف دیکھتے ہیں ایسی مشکل گھڑیوں میں۔

اس ساری آزمائش والی صورتحال کو دیکھ کر بحیثیت ایک فرد ہمیں اپنے آپ سے سوال کرنا چاہیۓ کہ ہم کیا سمجھتے ہیں صرف ایک دوسرے کو بتا کر یا پوسٹ ڈالکر یا وڈیو شئر کر کے ہم اپنی ذمہ داری سے فارغ ہو گۓ۔ صرف افسوس کرنے والے نہ بنیں رابطوں کی کوشش کریں ان تنظیموں سے جو اس کارخیر میں مصروف ہیں۔ وہ بتائیں گی کہ سب سے زیادہ کس چیز کی ضرورت ہے پھر خود اپنے طور پر یا گروپ بنا کر مخیر حضرات سے رابطہ کریں جو آپ کے واقف ہوں کیونکہ بداعتمادی کی فضا میں کوئی آپ سے کیوں تعاون کرے گا بہرحال اسکو اپنا مشن بنا لیں۔ گھر میں رکھے اضافی کپڑے برتن اور ضروریات زندگی کی اشیاء کا جتنا زیادہ انتظام ہوسکے کریں۔ یہ کار خیر ہے اس کا اجر اللہ تعالی کے ھاں ہے۔

اس خدمت کے جزبے کو بڑھانا اس سے افضل ہے کہ ہم تنقید کرتے رہیں حکومت پر اپوزیشن پر یا کسی پر بھی کیونکہ ایسا کرنا ہمیں محروم کردے گا ثواب سے اور اللہ بھییقینی طور پر ناپسند کرتا ہے کسی بھی ایسے عمل کو کہ ہم دوسروں کو برا کہیں طعنے دیں۔

ھم سب کو رب کریم کا شکر گزار ہونا چاہیۓ کہ اس نے ہمیں اس قسم کی آزمائش سے محفوظ رکھا اور ہم پرسکون انداز سے موسم کو انجواۓ کرتے رہے۔ تھوڑے بہت تو معاملات اوپر نیچے ہر جگہ ہو ہی جاتے ہیں جو زندگی کا حصہ ہیں۔

اپنے پاس کچھ پس انداز کر کے صرف اس مقصد کے تحت متاثرین کی مدد کرنے کی کوشش کریں ہر صاحب ثروت زکواتہ اور صدقہ کا رخ ادھر ہی موڑ دے تو ان لوگوں کے بہت سے مسئلے حل ہو سکتے ہیں۔

اگر ہم نے اپنی ان ذمہ داریوں کا احساس نہیں کیا تو یہ بیحسی کے زمرے میں آۓ گا اور بیحسی کی زندگی گزارنا دنیا کا سب سے آسان کام ہے۔


 

Tariq Asif Siddiqui
About the Author: Tariq Asif Siddiqui Read More Articles by Tariq Asif Siddiqui: 7 Articles with 4066 views I am a 63 years old retired banker, who has a passion to write what he percieves about social and political issues of this country, also tries his bes.. View More