میں شہر کے مشہور مہنگے پرائیویٹ ہسپتال میں اپنے دوست کی
تیمار داری کے لیے آیا ہوا تھا جس کا دل کا کامیاب آپریشن ہوا تھا آپریشن
تھیٹر کے اندر جانے سے پہلے اُس کا مجھے فون آیا تھا سر میں ڈاکٹروں کے
حوالے ہوں آپریشن تھیٹر جانے لگا ہوں یہ مجھے نشے کی نیند سلا دیں گے مجھے
بہت زیادہ خوشی ہو گی جب میں ہوش کی دنیا میں واپس آؤں تو آپ کا چہرہ اور
آواز دیکھ سکوں ۔دوست کا آپریشن کا میاب ہوا تو اُس کی بیوی کا فون آیا
بھائی آپ کے دوست کا کامیاب آپریشن ہو چکا ہے سارے رشتے دار مل چکے لیکن
صاحب کو آپ کے دیدار کی انتظار ہے سارا شہر مل کر چلا جائے جب تک آپ نہیں
آئیں اِن کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں آئے گی لہذا ہم سب کی خوشی کے لیے آپ
برائے مہربانی آجائیں جب تک آپ آکر حوصلہ نہیں دیں گے ان کو قرار نہیں آنا
نہ ہی خوشی ہونی ہے لہذا میں اپنے دوست سے ملنے ہسپتال آیا اُس کے پاس بہت
سارا وقت گزارنے کے بعد اُس کو ریلیکس اور خوش کر نے کے بعد واپسی کی اجازت
مانگی واپسی پر بھی رش کا سیلاب ویسے کا ویسا جیسے سارے شہر کے لوگ بیمار
ہیں وہ شفا یابی کے لیے اِس ہسپتال پر حملہ آور ہیں پنجاب بلکہ پاکستان کے
دور دراز کے مختلف رسم و رواج تہذیبوں کے مالک مختلف لباسوں حلیوں وضع قطع
میں علاج کے غرض سے اِس ہسپتال میں آئے ہوئے تھے ہسپتال کا عملہ مہذب پڑھا
لکھا جلادوں کا گروپ اِن کے جسموں کی چیڑ پھاڑ کے ساتھ اِن کے پیسوں پر بھی
چاقو چھریاں چلا رہے تھے وطن عزیز کے طول و عرض میں ایسے سینکڑوں ذبح خانے
ہیں جو دن رات بے بس عوام کو لوٹ مار کے ساتھ چیڑ پھاڑ بھی کر رہے ہیں
پاکستان میں حکومتی بے حسی اور تو جہ نہ دینے کی وجہ سے پرائیوٹ سرمایہ
داروں نے ڈاکٹروں کے جتھے بھرتی کر کے یہ ذبح خانے کھول رکھے ہیں جہاں پر
بے دردی سے عوام کی چیر پھاڑ جسمانی اور مال جاری کوئی اِن کو پوچھنے والا
نہیں اِن کا ہاتھ رکونے والا نہیں ہے لواحقین اپنے پیاروں کے علاج ان کی
تیمار داری کے لیے سیڑھیاں پھلانگتے اترتے نظر آرہے تھے ہسپتال کی لفٹیں
انسانوں سے لدی اوپر نیچے جا رہی تھیں میں داخلی دروازے کی طرف بڑھ رہا تھا
کہ اچانک ایک ادھیڑ عمر کی عورت میرا بازو پکڑ کر مجھے اپنی طرف متوجہ کیا
دیکھنے پر میں پہچان گیا آستانے پر سینکڑوں لوگوں کی طرح یہ با جی بھی آتی
تھیں میں آشنائی لہجے میں بولا جی باجی آپ یہاں کیا کر رہی تھی تو وہ بولی
سر آپ ادھر کیا کر رہے ہیں یا کسی سے ملنے آئے میں کرونا کے بعد آپ نے
آستانہ بند کر دیا اِس وجہ سے میں آپ کی طرف نہ آسکی یہاں پر میں بوڑھے
والد صاحب داخل ہیں اُن کی تیمار داری کے لیے آئی ہوں آپ آئیں پلیز ان کے
لیے بھی دعا کر تے جائیں میں جذبہ خدمت خلق کے اُس بیچاری کے ساتھ چل پڑا
راستے ہیں پوچھا باجی آپ کے والد صاحب کو کیا بیماری ہے تو وہ بولی سر کوئی
سیریس بیماری نہیں ہے بس بڑھاپا اور نمونیہ ہے ابوجی کی عمر اسی سال سے
زائد ہے وہ صحت مند چلتے پھرتے بھر یو زندگی گزارتے ہیں صبح کی سیر کی بچپن
سے عادت ہے سردیوں میں صبح سویرے اکثر سردی لگنے سے نمو نئے کا شکار ہو
جاتے ہیں اِس بار تو سردیوں سے پہلے ہی بیمار ہو گئے اِس وقت وہ کہاں ہیں
تو وہ بولی سروہ آئی سی یو میں وینٹی لیٹر پر ہیں ہم اندر نہیں جاسکتے ہیں
دورسے ہی دیکھ کر ہی آپ دعا کر دیجئے گا مجھے آپ کی دعاؤں پر یقین ہیں وہ
انشاء اﷲ ٹھیک ہو جائیں گے وہ نمونیہ بڑھاپا وینٹی لیٹر بے ہوشی کا سن کر
میں پریشان سا ہو گیا کیونکہ عام طور پر جب بھی کسی مریض پر یہ علامات آتی
ہیں تو وہ وینٹی لیٹر سے واپس نہیں آتا یہ آخری وقت ہو تا ہے میں چلتے چلتے
رک گیا گری نظروں سے باجی کی طرف دیکھا جو امید بھری نظروں سے میری طرف
دیکھ رہی تھیں میری پریشانی بھانپ کر بولی سر آپ پریشان نہ ہوں میرے والد
صاحب اِس پہلے بھی تقریبا بیس بار سے زاہد بار وینٹی لیٹر پر بے ہو ش رہنے
کے بعد واپس آتے ہیں یہ وہ پہلی بار بے ہوش یا وینٹی لیٹر پر نہیں گئے یہ
تو ہمارے لیے اب روٹین کا کیس بن گیا ہے انشاء اﷲ وہ اب کی بار بھی صحت یا
ب ہو کر گھر آئیں گے اِسی دوران میں ہم آئی سی یو کے باہر آگئے شیشے کے اس
پار باباجی وینٹی لیٹر پر آرام فرما رہے تھے ہم دونوں دعا مانگ کر واپس
ہوئے تو میں باجی سے بولا باجی اِس بار جب والد صاحب صحت یاب ہو کر گھر
واپس آئیں تو مجھے بتائیے گا میں والد صاحب کا حال پوچھنے گھر آؤں گا تو
باجی پر جوش آواز میں بولی یہ تو بہت خوشی کا موقع ہو گا والد صاحب آپ کو
جانتے ہیں آپ کی کتابیں بھی پڑھ چکے ہیں آپ سے مل کر ہم سب بہت زیادہ خوش
ہو نگے پھر میں اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا اِن سوچھوں میں گم کہ عام طور
پر جب بھی کوئی وینٹی لیٹرپر جاتا ہے تو واپسی کے امکانات نہ ہونے کے برابر
ہو تے ہیں بلکہ ڈاکٹر صاحب موت کا اعلان کر دیتے ہیں کہ صرف پھیپڑے وہ کام
کر رہے ہیں جیسے ہی ہم وینٹی لیٹر اتار دیں گے ان کا مریض موت کی چادر اوڑھ
لے گا لیکن یہ کیسا مریض ہے کیا راز ہے کون سی خاص بات ہے کہ بار بار موت
کے فرشتے کو شکست دے کر واپس زندگی کی رنگ رلیوں میں مصروف ہو جاتا ہے میں
شدت سے باباجی کی صحت یابی کا انتظار کر نے لگا اور پھر مجھے زیادہ طویل
انتظار نہیں کر نا پڑا تین دن بعد ہی باجی کا فون آیا کہ اﷲ کے فضل سے ابا
جان ہوش میں آگئے ہیں اور گھر تشریف لے آئیں لہذا آنے والے اتوار کو اگر آپ
ہمارے گھر آئیں تو ہم سب خوش ہو نگے پھر میں اتوار کے دن ان کے گھر گیا تو
باباجی صحت مند چاکل و چوبند ہشاش بشاش صوفے پر براجمان تھے مجھے دیکھ کر
گرم جوشی سے ملے میری کتابوں کا تذکرہ ااور تعریفیں کر تے رہے میں دیر تک
اُن کی صحبت میں بیٹھا باتیں کر تا رہا ایک معصوم شریف انسان جس نے سادہ
زندگی گزاری تھی واپسی پر باجی مجھے دروازے پر چھوڑنے آئی تو میں نے پوچھا
باباجی آپ کے والد صاحب کونسا خاص عمل یا نیکی کر تے ہیں جو دوسرے لوگ نہیں
کرتے تو سوچھتے ہوئے بولیں آج تک کسی سے ناراضگی جھگڑا نہیں کیا کینے بغض
سے پاک ہیں ایک خاص بات پچھلے ساٹھ سالوں سے فجر کی نماز کے بعد فصلوں
پارکوں میں جا کر کیڑوں اور پرندوں کو دانہ ڈالتے ہیں موسم جیسا بھی ہو
انہوں نے یہ کام یا نیکی نہیں چھوڑی مجھے چھوٹی سی نیکی کی سمجھ آگئی کہ
کیوں قدرت اُن پر بار بار مہربان ہو جاتی ہے کیا ہماری زندگیوں میں کوئی
ایسی چھوٹی سی نیکی ہے جو دوسرے لوگ نہیں کرتے یہ چھوٹی نیکی ہی خدا کو
متوجہ کر تی ہے ۔
|