مضبوط اُمت مسلمہ، ایک سوچ ، ایک منصوبہ

اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔

ڈاکٹر خان تحریک کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں

اگر ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنی نئی نسل کو ایک مثبت سوچ تو دے سکتےہیں۔ کم از کم ایک منصوبہ تو تیار کر سکتے ہیں۔ کیا پتہ وہ منصوبہ خدا کو پسند آجائے اور ہمیں اُس پر قدم اٹھانے کی توفیق، جرأت اور طاقت عنایت کردیں۔

ہم یہ جانتے ہیں کہ اس وقت دنیا میں تقریباً 150 کروڑ مسلمان آباد ہیں۔ دنیا کے تقریباً 57 ممالک میں مسلمان اکثریت سے رہتے ہیں جن میں چند مسلمان ممالک کا شمار دنیا کے امیر ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ مگر اس وقت کوئی بھی مسلمان اکثریتی ملک ویٹو پاور کی حیثیت نہیں رکھتا، ٹیکنالوجی میں مسلم اُمہ کا یہ حال ہے کہ اسرائیل جیسا چند لاکھ آبادی والا ملک پورے عرب پر بھاری ہے۔ امریکہ اور اسرائیل جب چاہے کسی بھی اسلامی ملک کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے تہس نہس کرسکتا ہے۔ جبکہ پوری اُمت مسلمہ میں یہ طاقت نہیں کہ وہ ان دونوں ممالک کو انسانوں کے قتل عام سے روک سکے۔ ان کو بیٹھ کر بات کرنے پر مجبور کرسکے۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ ان دونوں ممالک میں ٹیکنالوجی کی طاقت کا نشہ ہے اور ان کو بیٹھ کر بات کرنے پر مجبور کرنے کے لئے ہم مسلمانوں کو اتحاد اور جدید ٹیکنالوجی کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ (القرآن) اللہ نہیں بدلتا حالت کسی قوم کی جب تک کہ (نہ) بدلے وہ ان (اوصاف) کو جو اس میں ہے۔ (سورۃ الرعد۔11)۔ یہ حقیقت ہے کہ مسلم اُمہ ایک زنجیر کی طرح ہے اور اس میں موجود مختلف قومیں اس زنجیر کی کڑیاں ہیں اور یہ زنجیر تب ہی مضبوط ہو سکتی ہے جب اس کی ہر کڑی دوسری کڑی کے ساتھ مضبوطی سے جُڑی ہوئی ہو۔

چلیں آج اسلام کی خاطر اپنے اندر موجود تعصب اور فرقہ واریت کے جھگڑوں کو بھول کر اس مسلمہ اُمہ کو، اس زنجیر کو، اس زنجیر کی ہر کڑی کو دنیا میں قیام امن کی خاطر مضبوط بنانے کے لئے متحد ہو کر قدم اُٹھائیں۔ مگر قدم اُٹھانے سے پہلے ہمارے لیے یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ یہ کائنات ہمارے خالق اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے۔ ہم تمام انسان چاہے وہ مسلمان ہے یاکافر، انسانیت کے لحاظ سے برابری کی سطح پر اللہ تعالیٰ کے مخلوق ہیں۔ انسانوں کے درمیان قوم قبائل پہچان کے لیے ہیں تاکہ انسان گروپوں کی شکل میں ایک دوسرے کے قریب رہے اور بہ وقت ضرورت ایک دوسرے کی مدد کرے۔ جب کہ زبان ہر قوم کا قومی شناختی کارڈ ہے۔ اسی طرح تمام مسلمان اللہ تعالیٰ کے دین (قانون) کو نافذ کرنے والے ملازمین ہیں جبکہ قوم قبائل کا کردار اس میں مختلف کام کرنے والے اداروں کا ہے۔

اب آتے ہیں مسلم اُمہ کی اس زنجیر اور اس زنجیر کی ہر کڑی کو مضبوط بنانے کے لیے انتہائی ضروری اقدامات پر:
یاد رہے (القرآن) یقیناً ہر مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے۔ (سورۃ الم نشرح۔6)

۱) یکساں نصاب تعلیم: تمام اسلامی ممالک میں سرکاری، نیم سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے سلیبس کے درمیان مطابقت ہونی چاہیے جو کہ مسلم اُمہ کی سوچ کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے ضروری ہے۔

۲) عربی زبان: تمام اسلامی ممالک کے نظام تعلیم میں ملکی زبان کے ساتھ ساتھ عربی زبان کو خصوصی توجہ دینی چاہیے تاکہ اسلامی ممالک اپنا تشخص اور اتحاد برقرار رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے قریب رہے اور چونکہ ہمارا منشور (قرآن) عربی زبان میں ہے، اس لیے جب تک ہم مسلمان اپنے منشور کو سمجھیں گے نہیں تب تک اس پر عمل کس طرح کر سکتے ہیں؟

۳) مادری زبان میں تعلیم: اسی طرح ہر مسلمان ملک کے لیے اس بات کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ بچوں کو تین مضامین اسلامیات، سائنس اور معاشرتی علوم اُن کی اپنی مادری زبان میں پڑھائیں تاکہ بچوں کو ایک تو سمجھنے میں آسانی ہو اور وہ ان مضامین میں ریسرچ کے لائق بن سکے۔ جو کہ ملکی دفاع اور ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ دوسرا مادری زبان میں نظام تعلیم اُس قوم کی قومی اتحاد اور اُس کی پہچان کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ کیونکہ یہ قوم قبائل اللہ تعالیٰ نے پہچان کے لیے بنائے ہیں اور جس طرح مختلف کاموں کے لیے مختلف ادارے بنائے جاتے ہیں بالکل اُسی طرح قوموں کا کردار بھی دنیا میں اداروں کا ہے اور یقیناً ہر قوم کے ذمے کوئی نہ کوئی کام سپرد ہے۔ فرض کیجئے کہ ملک میں ایک ادارے کے ملازمین کو دوسرے ادارے کے ملازمین (جن کا کام بالکل مختلف ہو) کی جگہ کام پر لگایا جائے تو کیا ملک کا نظام درست چل سکتاہے؟ اور چونکہ یہ کائنات اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے اور ہم تمام انسان اللہ تعالیٰ کے مخلوق ہیں لہٰذا ہم انسانوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ اللہ نے ہمیں جس قوم (ادارے) میں پیدا کیا ہمیں جو زبان (شناخت) دی اُس کو برقرار رکھیں تاکہ یونٹ بن کر انسانیت کی خدمت میں اپنا فرض ادا کریں۔

سوچئے! کہ حضورﷺ نے یہ کیوں کہا۔ جس نے اپنے نسب سے انکار کیا وہ ملعون (لعنتی) ہے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر خدانخواستہ یہ قومیں اپنی پہچان کھو بیٹھتی ہیں تو دنیا ایک ہجوم کی شکل اختیار کر لے گی، خاندان جو یونٹ کی ابتداء ہے، ختم ہوجائے گی، شخصی زندگی کا آغاز ہو جائے گا۔ ماں باپ بڑھاپے میں اولڈ ہاؤس میں رہائش پذیر ہوجائیں گے، حیاء اور غیرت نامی چیز دنیا سے ختم ہوجائے گی۔ میں یہاں پر والدین کو بھی یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آج اس سائنسی دور میں میڈیکل اور نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ مادری زبان میں تعلیم بچے کو لکنت اور احساس کمتری جیسے کئی بے شمار امراض سے بچاتی ہے لہٰذا اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے ذہنی اور نفسیاتی طور پر مضبوط رہیں، کسی فیلڈ میں ریسرچ کے لائق بنے تو اس کے لیے مادری زبان میں تعلیم پر توجہ دینی انتہائی ضروری ہے۔

۴) دینی (روحانی) علوم: دینی (روحانی) علوم کی طرف توجہ انتہائی ضروری ہے کیونکہ دینی علوم کے بغیر روحانی (لاشعوری) مضبوطی ممکن نہیں، دینی علوم انسان کو دوسرے انسان کی عزت نفس (غیرت) کا خیال رکھنے کا پابند بناتی ہے کیونکہ جب تک کوئی انسان دوسرے انسان کی عزت نفس (غیرت) یا حق کا خیال نہیں رکھتا تب تک وہ انسان انصاف کرنے والا نہیں بنتا۔ حضورﷺ کا ارشاد ہے۔ میں غیرت مند ہوں اور جو شخص غیرت نہ رکھتا ہو وہ اندھے دل کا آدمی ہے۔ سوچئے اندھے دل کا انسان کیا انصاف یا حق دینے والا بن سکتا ہے؟ کبھی نہیں۔ آج اگر دنیا میں امن کا فقدان ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم اپنے لیے تو انصاف یا حق مانگتے ہیں مگر انصاف یا حق دینے والے نہیں بنتے، لہٰذا دنیا میں ترقی کے لیے امن اور امن کے قیام کے لیے سمجھ کی حد تک دینی علوم کا حصول انتہائی ضروری ہے۔

۵) سائنسی (شعوری) علوم: سائنس در اصل شعور ہے اور شعور کے بغیر انسان اور حیوان میں بس نام کا فرق رہ جاتا ہے۔ جتنا انسان کائنات کو کھولتا رہے گا اُتنا ہی وہ اللہ تعالیٰ کی حقیقت سے واقف ہوتا رہے گا۔ آج جب سائنس تھوڑی بہت ترقی کر چکا ہے ایک حقیقت پسند اور مثبت سوچ رکھنے والا انسان قرآن حکیم کی سچائی تسلیم کیے بغیر نہیں رہ پاتا۔ دراصل سائنس اور کچھ نہیں، جو باتیں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بیان کی ہیں، جو راز اللہ تعالیٰ نے اپنے بنائے ہوئے کائنات میں ہماری آنکھوں سے اوجھل رکھے ہیں، اور خود ہمیں حکم دیا ہے کہ میرے بنائے ہوئے کائنات میں وہ راز ڈھونڈو اور غور کرو تاکہ تمہیں اندازہ ہو کہ تمہارا خالق کتنا عظیم ہے۔ بس انہی باتوں اور رازوں کو ڈھونڈنے اور ثابت کرنے کو سائنس کہتے ہیں۔ لہٰذا سائنسی علوم شعوری بیداری کے لیے انتہائی ضروری اور شعوری بیدارے اپنے خالق کی حقیقت، عظمت اور طاقت کو پہچاننے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ (القرآن) جو یاد کرتے ہیں، اللہ کو کھڑے بیٹھے اور اپنے پہلوؤں کے بل اور غور و فکر کرتے رہتے ہیں، تخلیق میں آسمانوں اور زمین کی (پھر بے اختیار بول اٹھتے ہیں) اے ہمارے رب نہیں پیدا کیا تو نے یہ سب بے مقصد، پاک ہے تو ہر نقص و عیب سے، پس بچا لے ہم کو دوزخ کے عذاب سے(سورۃ العمران۔191)۔ لہٰذا سائنس در اصل اپنے خالق کی حقیقت، عظمت اور طاقت کو جاننے کا علم ہے۔

۶) جدید ٹیکنالوجی: آج کی دور میں اتحاد، امن اور اپنی عزت نفس (غیرت) کو برقرار رکھنے کے لیے دفاعی اور معاشی مضبوطی انتہائی ضروری ہے جبکہ دفاعی اور معاشی مضبوطی کے لیے جدید ٹیکنالوجی انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ سوچئے! اگر عراق اور افغان حکومت کے پاس امریکہ یا اسرائیل جتنی ٹیکنالوجی ہوتی تو کیا امریکہ ان پر حملے سے پہلے ہزار بار نہ سوچتا؟ کیا یہ ممالک امریکہ کی ٹیکنالوجی کے سامنے اپنے اتحاد اور عزت نفس (غیرت) کو برقرار رکھ سکے؟ (القرآن) اور مہیا رکھو اُن کے مقابلے کے لیے جہاں تک تمہارا بس چلے زیادہ سے زیادہ طاقت! (سورۃ الانفال۔60) افسوس ہم خود کو مسلمان اور مجاہد اسلام تو کہتے ہیں مگر اپنے منشور (قرآن) کو غور سے نہیں پڑھتے۔ اسلام در اصل امن چاہتا ہے اور امن ہی کی خاطر مجاہد سے جنگ کا وعدہ لیا گیا ہے تاکہ بدامنی پھیلانے والوں کو حدیبیہ جیسے راضی ناموں پر مجبور کیا جاسکے۔ (القرآن) اور اگر جھکیں وہ صلح کی طرف تو تم بھی جھک جاؤ اُس کی طرف اور بھروسہ کرو اللہ پر، بے شک وہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ (سورۃ الانفال۔61) لہٰذا اگر آج ہم مسلمان امن کی خاطر دشمن کو بیٹھ کر بات کرنے یا صلح پر مجبور کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے مسلم امہ میں اتحاد کے ساتھ ساتھ دفاعی اور معاشی مضبوطی انتہائی ضروری ہے۔

محترم دوستو! میں اس تحریر کو اور زیادہ پھیلانا نہیں چاہتا کیونکہ پھر یہ تحریر ایک کتابی شکل اختیار کرلے گی جس کا آپ سب کو مفت پہنچانا مشکل ہوجائے گا۔ دوسرا آپ اس کو پڑھنے کے لیے وقت اور توجہ نہیں دے سکیں گے لہٰذا آپ میری اس تحریر کو غور سے پڑھیں، پھر آئیں مل کر اس پر بحث کریں۔ اگر اُس کے بعد آپ کو لگتا ہے کہ اس سوچ پر عمل پیرا ہونا ضروری ہےتو پھر مل کر پہلا قدم اُٹھاتے ہیں اور وہ ہے اس سوچ کو زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کے ذہنوں تک پہنچانا، کیونکہ فصل اُگانے سے پہلے اُس کے لیے زمین تیار کرنا انتہائی ضروری ہے۔

مجھے آپ کے جواب کا، آپ کے بُلاوے کا، آپ کے آنے کا انتظار رہے گا۔
Muhammad Idrees
About the Author: Muhammad Idrees Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.