لغت میں اعتکاف کا مفہوم یہ ہے
کہ انسان کسی چیز کو اپنے اوپر لازم کر لے اور اس پر قائم رہے ۔
شریعت کی اصطلاح میں ”دنیا کے سارے کاروبار چھوڑ کر تقرب الی اللہ اور طاعت
کی غر ض سے مسجد میں گوشہ نشیں ہوجانے کو اعتکا ف کہتے ہیں “۔
اعتکاف کی مشروعیت :یہ رمضان المبارک میں اداکی جانے والی ایسی ثابت سنت ہے
،جس کو آپ ﷺنے تاحیات اپنی زندگی میں باقی رکھا،بلکہ وفات کے سال نبی رحمت
ﷺ نے 20 دن کا اعتکاف کیا ۔جیسا کہ بخاری میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ
روایت منقول ہے کہ آپ ﷺ ہر سال رمضان میں 10دنوں کا اعتکاف کیا کرتے تھے ،انتقال
کے سال آپ نے 20د ن کا اعتکاف کیا ۔(بخاری ،حدیث نمبر:2044)
اسرار ومقاصد :
امام ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ اس ضمن میںفرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے
اعتکاف کو مشروع قرار دیا، جن کا مقصود اور جس کی روح یہ ہے کہ انسان کا دل
اللہ تعالٰی کے ساتھ وابستہ ہوجائے ،وہ دنیوی مصروفیات سے آزاد ہو اوراسے
اشتغال بالحق کی نعمت میسرہوجائے ۔اس کی ہر فکر اللہ کی رضاجوئی اور اس کے
تقر ب کے حصول کے لئے ہو ۔یہ ہے اعتکاف کا عظیم مقصد جو رمضان کے افضل ترین
دنوں یعنی آخرے عشرے کے ساتھ مخصوص ہے ۔(زادلمعاد، 86-87/2 تلخیص)
اعتکاف کی قسمیں :
علمائے کرام نے اس کی 3قسمیں بیان کی ہیں :واجب ،سنت موکدہ اور مستحب(المو
سو عہ الفقہیہ 5/208)
(۱)واجب :اگر کسی نے اعتکاف کی نذر مان لی تو اس پر اعتکاف واجب ہے (المغنی
4/456)چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے جب رسول کریم ﷺ سے کہا کہ میں نے دور
جاہلیت میں یہ نذر مانی تھی کہ مسجد حرام میں ایک رات اعتکاف کروں گا ،تو آ
پ ﷺ نے فرمایا َ:”اپنی نذر پوری کرو “(بخاری ،حدیث نمبر 2043،مسلم ، حدیث
نمبر 4269)امام ابن منذر حمہ اللہ کہتے ہیں کہ اعتکاف واجب نہیں ہے ،لیکن
اگر کسی نے اس کی نذر مان لی تو پورا کرناواجب ہوجاتاہے۔(مر عاةالمفاتیح
،7/142)
(۲)سنت موکدہ :رمضان المبارک میں آخری عشرے کااعتکاف کرنا سنت ہے (حوالہ
سابق)اور اس بارے میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول حدیث گزری کہ آپ ﷺ
ہر سال رمضان میں اعتکاف کیا کرتے تھے اور وفات کے سال آپ ﷺ نے 20دن کا
اعتکاف کیا ۔
(3)مستحب :واجب اور سنت کے علاوہ اعتکاف مستحب بھی ہے۔
اعتکاف کے شرائط :
(1)اعتکاف کے لئے جنابت سے پاک ہونا ضروری ہے ،اسلئے کہ جنابت کی حالت میں
مسجد میں ٹھہرنا جائز نہیں چنانچہ اگر معتکف طبعی جنبی ہوجائے تو فوراََ
غسل کرلے۔
(2)حیض و نفاس والی عورت کا اعتکاف درست نہ ہوگا ، البتہ مستحاضہ عورت
اعتکاف کرسکتی ہے ،عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ” نبی کریم ﷺ کی
بیویوں میں سے کسی نے آپ ﷺ کے ساتھ اعتکاف کیا ،حا لانکہ وہ استحاضہ کی
حالت میں تھیں“ (بخاری ،حدیث نمبر2037،ابو داود ،حدیث نمبر2476)
(3)اعتکاف کے لئے مسجد بنیادی شرط ہے ۔اللہ تعالٰی فرماتا ہے”ولاتباشرو ھن
وانتم عاکفون فی المساجد “(البقرة :187)اور جب تم مسجد میں اعتکاف کی حالت
میں ہو اپنی بیو یوں سے مباشرت مت کرو۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ” اگر مسجد کے باہر اعتکاف
درست ہوتا تو آیت مذکور میں مباشرت کی حرمت مسجد کے ساتھ ذ کر نہ کی جاتی
،اس لئے کہ بیوی سے مباشرت اعتکاف کے منافی ہے “۔(فتح الباری ، 4/271-272)
شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں ” اعتکاف صرف اسی مسجد میں جائز
ہے جہاں جماعت کے ساتھ نماز اداکی جاتی ہو “۔(غنیہ الطالبین 1/7)
(4)روزہ ،عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں”ولا اعتکاف الا الصوم “ روزے کے
بغیر اعتکاف نہیں ۔اور یہی مسلک امام ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ کابھی ہے
۔جمہور سلف اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اسی بات کو
راجح قرار دیا ہے ۔(زاد لمعاد 2/87-88)لیکن امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح
میں فرماتے ہیں کہ ”من لم یر علیہ صوماََاذا اعتکف “باب کے تحت اعتکاف نذر
کی عمر رضی اللہ عنہ والی روایت اس بات پر دال ہے کہ اعتکاف کے لئے روزہ
شرط نہیں ۔
دونو ں روایت کے مابین تطبیق کی صو رت یہی ہو گی کہ رمضا ن کے علاوہ ایام
میں معتکف کے لئے روزہ شرط نہیں ہے ۔جیسے عمر رضی اللہ عنہ نے نذر کااعتکاف
ایک رات کیا ۔رہی بات رمضان کے اعتکاف کی تو وہ روزہ کے ساتھ خاص ہے ،
اسلئے کہ بحالت روزہ ہی آپ ﷺ سے اعتکاف ثابت ہے ،پھر آپ ﷺ کی وفات کے بعد
آپ ﷺ کی ازواج مطہرات اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی روزہ
ہی کی حالت میں اعتکاف کا ثبوت ملتا ہے ۔یہی وہ ٹھوس دلائل ہیں جس سے
استدلال کرتے ہوئے جمہور سلف ،امام ابن القیم الجوزیہ اور امام ابن تیمیہ
رحمہما اللہ نے اعتکاف کےلئے روزہ کے شرط والی بات کو راجح قرار دیاہے
۔واللہ اعلم بالصواب
(5)اعتکاف کی شرط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان پاگل نہ ہو خبط الحواس نہ
ہو ،چونکہ ایسی صورت میں وہ اچھے اور برے عمل کے درمیان تمیز نہیں کر سکتا۔
مستحبات اعتکاف :
(1)امام ابن قدامہ مقدسی لکھتے ہیں کہ ”معتکف کے لئے مستحب یہی ہے کہ وہ
لایعنی اور فضو ل باتوں سے بچ کر زیادہ سے زیادہ اپنے قیمتی اوقات کو نماز
،تلاوت قر آن ،ذکر الہی اور دیگر طاعات کے کاموں میں لگائے ۔زیادہ باتیں نہ
کرے ،کیوں کہ زیادہ باتیں بنانے والا ہی زیادہ ٹھو کر کھا تاہے ۔ابو بسرہ
رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فر مایا ”ہر فضو ل بات یا کام
کو ترک کر نا انسان کے حسن اسلام میں سے ہے “۔(ترمذیحدیث نمبر،2318،ابن
ماجہ ،حدیث نمبر3976)جنگ وجدال ،لڑائی جھگڑے اور بر ابھلا کہنے سے بچیں کیو
ں کہ یہ تمام باتیں جب عام حالت میں ناپسندیدہ ہیں تو حالت اعتکاف میں تو
بدرجہ اولی ناپسندیدہ ہوں گی “۔(المغنی، 4/479-480)
(2)مسجد کے اندر کو ئی مخصو ص جگہ بنا لے، نافع کہتے ہیں کہ ”عبداللہ بن
عمر رضی اللہ عنہما نے مجھے مسجد میں وہ جگہ دکھائی جہاں آپ صلی اللہ علیہ
وسلم اعتکاف کیا کر تے تھے ۔ (مسلم ،حدیث نمبر 1171)
شرعی علم کا مطالعہ ،کتب تفسیر وحدیث کاپڑھنا ، انبیاءوصالحین کی سیرو
سوانح اور دیگر کتب فقہیہ و دینیہ کا مطالعہ بھی مستحبات میں شامل ہے ۔(فقہ
السنة 4/423)
مباحات اعتکاف :
(1)معتکف کے لئے حوائج ضر وریہ جیسے کھانے پینے اور قضائے حاجت کے لئے باہر
نکلنے کی اجا زت ہے ۔اسی طر ح غسل جنابت یا وضو کےلئے بھی مسجد سے باہر
نکلنا جائز ہے ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ ثابت ہے کہ” رسول ﷺ اعتکاف کے
دنوں میں گھر صرف حوائج ضروریہ (بول وبزار )کے لئے ہی آتے تھے “۔(بخاری
،حدیث نمبر 2029،مسلم ،حدیث نمبر297)
(2)بحالت اعتکاف جائز ہے کہ انسان مسجد میں کسی کو ضر ورت کے وقت خریدو فر
وخت کی ہدایت کرے ،عمدہ لباس پہنے ، سر میں تیل لگائے ،خو شبو کا استعمال
کرے اور ناخن تراشے وغیرہ ۔
(3)اعتکاف کی حالت میں اپنی بیوی سے اپناسر دھلو انا جائز ہے ۔ عائشہ رضی
اللہ عنہا کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوران اعتکاف مسجد
سے باہر اپنا سر بڑ ھاتے اور میں آپ کا سر دھلتی،حالانکہ میں حیض سے ہوتی
تھیں ۔ (بخاری ،حدیث نمبر 2028،ابوداود،حدیث نمبر 2469)
(4)معتکف مسجد میں چارپائی بھی لے جاسکتاہے ،شرط ہے کہ جگہ تنگ نہ ہو اور
نمازیوں کو تکلیف نہ پہنچے۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ”
جب محمد ﷺ اعتکاف فرماتے تو ”توبہ “نامی کھمبے کے پاس آپ کا بستر ڈال دیا
جاتا یا چار پائی رکھ دی جاتی “۔(ابن ماجہ،حدیث نمبر1774)
مبطلات اعتکاف :
یعنی جن کاموں کے کرنے سے اعتکاف باطل ہوجاتاہے ۔
(1)معتکف اپنی بیوی سے بوس و کنار یامجامعت کر لے ۔اللہ کافرمان ہے کہ ”اور
تم مسجد میں حالت اعتکاف میں ہو تو اپنی بیویوں سے مباشرت نہ کرو ،یہ اللہ
کی حدیں ہیں ان کے قریب بھی نہ جانا۔(بقرة ، 187)
(2)جنون یا نشہ طاری ہو جانے کی وجہ سے عقل چلی جائے ،تو بھی اعتکاف باطل
ہوجائے گا۔اسلئے کہ عقل لحیح اور غلط کے مابین فرق کرنے والی ہے وہ اعتکاف
کی شر ائط میںسے ہے ۔اب اگر شرط ہی فوت ہو تو مشروط کا کیا کرنا ۔
(3)عورت کے لئے حیض ونفاس کا خون شروع ہونے سے اعتکاف باطل ہوجائے گا ۔کیو
ں کہ ایسی صور ت میں طہارت وپا کیزگی کی شرط باقی نہیں رہتی ۔
(4)ارتداد سے بھی اعتکاف باطل ہو جائے گا ۔فرمان الہی ہے ”اگر تونے شرک کیا
تو بلاشبہ تیر ا عمل ضائع ہو جائے گا اور با لیقین تونقصان اٹھانے والو ں
میں سے ہوگا“۔(الزمر ،65)
( 5)بغیر ضرورت کے عمداََ تھو ڑی دیر کے لئے ہی سہی باہر نکلنے سے اعتکاف
باطل ہو جائے گا ،اسلئے کہ مسجد میں ٹھہرے رہنااعتکاف کی شر ط یا رکن ہے۔
(6)معتکف مریض کی عیا دت بھی نہیں کرسکتا اور نہ ہی جنازے میں شریک
ہوسکتاہے۔عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ”معتکف کے لئے سنت یہ ہے کہ
کسی بیمار کی عیادت نہ کرے ،نہ جنازہ میں شریک ہو ، نہ عورت کو چھوئے ،نہ
مباشرت کرے اور نہ ہی حوائج ضروریہ(کھانا،پینا،پیشاب ،پاخانہ) کے علاوہ
باہر نکلے“۔(ابوداود ،حدیث نمبر2473)
عورتوں کا اعتکاف :عا ئشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم پوری زندگی رمضان کے آخری عشر ہ میں اعتکاف کر تے رہے ،اور
آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے بھی اعتکاف کیا “۔(بخاری ،حدیث نمبر2026،
مسلم ،حدیث نمبر 1172)اس حدیث کے ضمن میں البانی ر حمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
”اس حدیث سے معلوم ہو ا کہ عورت بھی اعتکاف کرسکتی ہے ۔ لیکن بہر صورت یہ
اولیاءکی اجازت اور مردوں کے میل جول کے فتنے سے بچنے کے ہی صورت میںیہ
جائز ہے ۔ اس قیدو شرائط کی بے شمار دلیلیں ہیں ، اور فقہی قاعدہ بھی ہے کہ
”مفاسد کو ختم کرنا مصالح کے حصول پر مقدم ہے “۔(قیام رمضان اور اعتکاف
،30-31)
یہاں یہ بھی واضح رہے کہ عورتوں کے اعتکاف کی جگہ بھی مسجد ہی ہے ۔ معاشرے
میں عورتوں کے اعتکاف کے بارے میں جو مشہو ر ہے کہ’ وہ اعتکاف گھر میں کریں
گی ‘تو اس کے شو اہد دور نبوی میں نہیں ملتے اور نہ ہی اس بارے میں کوئی
صحیح نص ثابت ہے۔
آج یہ سنت متروک ہو تی چلی جارہی ہے ۔کیاہی بہتر ہو تا کہ ہم اپنے قیمتی
اوقات سے اعتکاف کیلئے وقت نکالتے،اور اجر وثواب سے اپنے دامن مراد کو بھر
لیتے ۔بڑے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں اللہ نے اس کی توفیق بخشی ۔ |