رسیلی دعا

گنے کا رس پینے یا ایٹمی دھماکے کر نے سے قبل لوازمات پورے کرنے پڑتے ہیں

جی ٹی روڈ کے کنارے رکشے پر ایستادہ گنے کا رس بنانے والی مشین دور سے ہی نظر آگئی تھی۔ جب ہم اس کے پاس آکر رکے۔تو جین کی پینٹ اور کھلی سی ٹی شرٹ پہنے نوجوان نے مشین کو اسٹارٹ کیا۔ گنا بیلا اور تین گلاس رس بنا کر ہمیں پیش کر دیا۔ ہم نے دوبارہ سفر شروع کیا تو شفقت نے کہا ہمارے رس پینے کے عمل میں پانچ منٹ سے بھی کم وقت خرچ ہوا ہے۔

وقت ازل سے ہی قیمتی رہا ہے۔ گاڑی اور جہاز انسان کا وقت بچانے ہی لیے معرض وجود میں آئے ہیں۔ وقت بچانے کے جتنے بھی حالات اور علوم موجود ہیں۔ ان پر بھی وقت صرف ہوتا ہے۔ گاڑی کے بننے میں طویل وقت اور بہت ساری انسانی کاوش شامل رہی ہے۔ پانچ منٹ میں تین گلاس گنے کا رس حاصل کرنے ہی کو دیکھیں۔ رس بنانے کے سسٹم کو معرض وجود میں لانے کے لیے کتنا وقت اور کاوش ہوئی۔

کسان نے کھیت تیار کیا۔ کھیت تک پانی لایا۔ٹریکٹر اور بیج مہیا کیا۔ بیج بو کر چھ ماہ فصل کی نگہداشت کی۔پھر فصل کو کاٹا، اسے منڈی تک پہنچایا، بیوپاری اور دوکان داروں کے ہاتھوں سے ہوتا ہوا گنا۔ رس بیلنے والی مشین تک پہنچا۔ نوجوان نے ہمیں دیکھتے ہی مشین سٹارٹ کی اور تین گلاس بنا کر پیش کر دیے۔ سسٹم مکمل ہونے کے لیے مگر زمین، موسم نے بھی موافقت کی۔ رس بنانے میں مشین کا کردار بنیادی ہے۔ مشین کی تکمیل میں انسانی عقل، محنت کا استعمال ہوا۔ ٹولز اور توانائی مہیا کی گئی۔ مشین خریدنے کے لیے وسائل جمع ہوئے۔ یعنی تین گلاس رس پانچ منٹ میں حاصل کرنے کے پیچھے ایک لمبا سسٹم کارفرما ہے۔ جو ماہ و سال کی وسعت پر پھیلا ہوا ہے۔ہر سہولت و ایجادوقت اور انسانی کاوش کے بعد معرض وجود میں آتی ہے۔

انسانی معاشرہ بھی وقت کے پنجرے میں بند ہوتا ہے۔ یہ بھی وقت پر، مثبت سوچ اور سعی کے بعد ترقی کرتا ہے۔ یہ کام لکھ کر یا بیان کر کے نہیں بلکہ عمل سے کیا جاتا ہے۔

پاکستان نے 1998میں ایٹمی دھماکے کیے تھے۔ مگر 1956میں جوہری توانائی کمیشن کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ طویل مدت تک پلاننگ ہوئی، دنیا بھر سے آلات و مواد اکھٹا کیا گیا۔ بہترین دماغ استعمال ہوئے، عزم و ایثار رقم کیا گیا اور پھر ایک بٹن دبانے پر مطلوب صلاحیت کا مظاہرہ ہو گیا۔

ہمارے نبی رحمت ﷺ کے پاس ایک ملاقاتی آیا۔ اس سے پوچھا گیا کس سواری پر آئے ہو تو اس نے بتایا اونٹنی پر جس کو مسجد کے باہر بٹھا کر اللہ کی نگہبانی میں دے دیا ہے۔اسے نصیحت کی گئی پہلے جانور کا پاوں باندھو اس کے بعد اللہ کی نگہبانی میں دو۔

خدا کا حکم ہے (جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں)

مالک دو جہان کو پکارنے سے قبل مگر:

گنے کا رس پینے یا ایٹمی دھماکے کر نے سے قبل لوازمات پورے کرنے پڑتے ہیں۔ اللہ تعالی شافی ہے مگر ہسپتال بنانا معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ عادل کا انصاف دنیا میں دینے کے لیے اہل منصف کو کرسی پر بٹھانا معاشرے کا فرض ہے۔اللہ کی حکمرانی سے مستفید ہونے کے لیے ایسے حکمران کو ووٹ دینا معاشرے کا فرض ہے جو خوف خدا رکھتا ہو۔ رزاق پر یقین کامل اسی صورت ہوتا ہے جب رزق کے وسائل کی تقسیم منصفانہ ہو۔

دعائیں بیت اللہ میں مانگی جائیں یا گھر میں صلاۃ تہجد کے بعد، فقیروں کے آستانوں پر مانگی جائیں یا موحدوں کی عبادت گاہوں میں، اٹھے ہوئے ہاتھ خواہ معصومین کے ہوں یا اللہ کی راہ میں نکلے مجاہدین کے۔ قبول اسی وقت ہوں گے جب سسٹم کی پیروی کی جائے گا۔

اپنے ارد گرد نظر دوڑا کر دیکھ لیں جو معاشرہ اللہ کے اس سسٹم کی پیروی کرتا ہے (اللہ کا وعدہ ہے انھیں زمین کا حاکم بنا دیتا ہے جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا تھا )

 

دلپذیر
About the Author: دلپذیر Read More Articles by دلپذیر: 135 Articles with 169328 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.