دہرا نظام ، انصاف اور طوفان

پنجاب حکومت نے صوبے میں آٹے کی سپلائی کو بہتر بناتے ہوئے بیس کلو آٹے تھیلے کی قیمت بارہ سو اسی روپے مقرر کردی. جبکہ خیبر پختونخواہ کی طرف آنیوالے چیک پوسٹوں پر رینجرز تعینات کردئیے ہیں تاکہ کمی کمین اپنے لئے بارہ سو اسی روپے میں آٹے کا تھیلا نہ لے جاسکیں. اسی طرح اسی تھیلے کی قیمت دوگنی یعنی چوبیس سو روپے مقرر کردی گئی ہیںاور نو سو روپے میں سرکاری آٹا جس میں بیشتر چوکر ملا ہوتا ہے اور سیاسی بنیادوں پر ملتا ہے ایک ہزار تھیلے کیلئے خیبرپختونخوا کے بیشتر علاقوں میں لوگ گدھوں کی طرح بھاگتے اور کتوں کی طرح لڑتے دکھائی دیتے ہیں.

مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں صوبے ایک ہی فیڈریشن یعنی اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے چھتر ی تلے ہیں ایک طرف افغانستان ہیں جبکہ دوسری طرف بھارت ، ایک طرف ہماری ازلی دشمنی اور دوسری طرف ہماری اسلامی اخوت اور بھائی چارے کے دعوے ، خیر چھوڑیں ، دونوں صوبوں میں تبدیلی والی سرکار کی حکومت ہے.لیکن دونوں میں انصاف بھی انوکھا ہے.جوزیادہ غریب ہے اس پر زیادہ قیمت اور جو کم غریب ہے اس پر کم قیمت آٹا فروخت کیا جارہا ہے.دونوں صوں میں برسراقتدار حلقوں نے نے تبدیلی کی وہ راہیں کھول دی ہیں کہ اب مائیاں یعنی آنٹیاں کھلے عام ڈانس کرتی ہیں اور ان کی بیٹیاں جلسوں میں آکر کہتی ہیں کہ اگر ہمارا لیڈر ہمارے ماں سے شادی کرے تو بھی ہمیں منظور ، اور اگر ہمارے ساتھ کرے تو بھی ہمیں منظور ، دونوں صوبوں میں انصاف کی اکائیاں کس طرف ہیں. یہ الگ بات ، لیکن دونوں صوبوں میں ایک بات مشترکہ یہی ہے کہ کسی زمانے میں اگر کسی کو یہ کہتا کہ کیا تم میرے ماں کے خصم ہو ، تو یہ گالی سمجھی جاتی تھی اب لوگ جلسوں میں آکر کہتے ہیں کہ فلاں لیڈر آکر میری ماں کا "خصم "بن جائے تو ان کیلئے یہ فخر کی بات ہے.

بس اتنی سی تبدیلی آئی ہے اور ہم نے اپنے آنیوالے نسلوں کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ نہ ہمارے نام نہاد لیڈروں میں انصاف نام کی کوئی چیز ہے نہ ہی انصاف کے دعویداروں کو یہ چیزیں نظر آتی ہیں اور نہ ہی ان جلسوں میں شرکت کرنے والوں میں حیا ء و شرم نام کی کوئی چیز باقی رہ گئی ہیں.

خیبر پختونخواہ کے مختلف دریائوں سے نکلنے والے پانی سے نہ صرف صوبہ بلکہ بڑے بھائی پنجاب کے بیشتر علاقے سیلاب ہوتے ہیں ، کہیں پر قدرتی طور پر اور کہیں پر غازی بھروتا جیسے منصوبے بنا کر ، دوسری طرف اسی صوبے کے دریائوں پر بننے والی بجلی جو سب سے کم قیمت ہیں کو براہ راست نیشنل گرڈ سٹیشن میں بھیجی جاتی ہیں اور یہ لولی پاپ دیا جاتا ہے کہ صوبے کو اس کی رقم ملا کرے گی تبدیلی والی سرکار کے دور میں کم و بیش سات سو ارب روپے کی رقم جو این ایف سی مد میں تھی بقایا تھی اور تبدیلی والی سرکار نے اسے دینے سے انکار کردیا ، مزے کی بات یہ ہے کہ کم قیمت پر بجلی پیدا کرنے والے صوبے میں بجلی دیگر صوبوں کی طرح مہنگی ہے ، اب یہاں پر پھر قانون اندھا ہے ، اتنا اندھا کہ اسے نظر نہیں آتا کہ جس صوبے میںپیداوار ہوگی اس کا پہلا حصہ ہوگا لیکن آئین کا یہ حصہ کسی کو یاد نہیں ، نہ یہ بھی یاد ہے کہ اس صوبے کے غریب عوام کس طرح کم قیمت بجلی دیکر زیادہ قیمت پر بجلی لینگے ، اس معاملے میں بڑا بھائی ، بھی ظالم ہے یہ نہیں کہتا کہ چلو دو روپے میں بناتے ہوں ، پانچ روپے میں آپ استعمال کرو ، باقی ملک کیلئے الگ قانون ہوگا لیکن یہاں پر بھی بھی تبدیلی والی سرکار کی آنکھیں بند تھی ، بند ہیں . یہی صورتحال سوئی گیس کے ذخیروں کے بھی ہیں ، خام تیل سمیت گیس کے ذخائر جنوبی اضلاع میں ہیں اور ریفائنری اٹک اور میانوالی میں بنائی گئی ہیں کیا روزگار ، نوکری ، ملازمت اس صوبے کا حق نہیں ، ، کیا اس غریب صوبے کے عوام کا کوئی حق نہیں. چلو چھوڑ یں. اس صوبے کے عوام میں اتنی عقل و احساس کہاں.

آپ اگر اس پر بات کرتے ہیں یا لکھتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ یہ تعصب ہے لیکن اگر دوسرے صوبے کرتے ہیں اورخیبر پختونخواہ کا حق کھاتے ہیں تو یہ تعصب نہیں وہ اپنے حق کیلئے آواز اٹھائے تو وہ ٹھیک ہے لیکن اگر یہاں پر اس طرح کی آواز اٹھتی ہے تو یہ تعصب ہے .سوال یہ نہیں کہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے افراد کو یہ نظر کیوں نہیں آتا. سوال یہ بھی ہے کہ اقتدار کے ان کرسیوں میں اسی صوبے کے بڑے بڑے خانوں ، جاگیرداروں ، مولویوں سمیت آج کی تبدیلی والی سرکار کے پھٹ .. آن .. جب پہنچ جاتے ہیں تو اپنے صوبے کے عوام کے حقوق کیوں بھول جاتے ہیں اپنے صوبے کے بھوکے ننگے لوگ ، بیروزگار نوجوان انہیں نظر کیوں نہیں آتے .اس لئے کہ اقتدار کا نشہ انہیں انکی اصلی اوقات میں لے آتا ہے اور وہ اپنی اصلی چہروں کے ساتھ سامنے آتے ہیں.

آج کا نوجوان مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کا آلہ کار بن کر بنیادی چیزیں بھول بیٹھا ہے جس طرح نشی پہلی مرتبہ نشہ ملنے کے بعد مزے لیتا ہے ،چیختا ہے اور پھر جب بدن ٹوٹنا لگتا ہے اور نشہ نہیں ملتا تو پھر وہ اس نشے کی خاطر کبھی کبھار چوری بھی کرتا ہے ، کبھی کبھارہاتھ بھی اٹھا لیتا ہے یعنی کبھی جان لیتا ہے اور کبھی جان دے بھی دیتا ہے کیا اقتدار کے نشے میں بدمست سارے "الف سے لیکر ی یعنی اے سے لیکر زیڈ " تک کیا مذہبی رہنما ، کیا سیاستدان ، کیا فوجی کیا عدلیہ اور کیا میڈیا ، آنیوالے اس صورتحال اور طوفان کیلئے تیار ہے کیونکہ طوفان جب آتا ہے تو پھر وہ یہ نہیں دیکھتا کہ مکان کچا ہے کہ پکا ، غریب کا ہے کہ امیر کا ، کوئی مر رہا ہے یا جی رہا ہے، طوفان کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی وہ آکر سب کچھ تہس نہس کرکے چلا جاتا ہے .یہ طوفان اگر آج سے اگر پانچ دہائیاں آیا تھا اور ملک دو ٹکڑے کر گیا تھا تو امکان ہے کہ احساس محرومی ، زیادتیاں اس سے بڑے طوفان کو لاسکتی ہیں ، صرف زبانی کلامی خدانخواستہ کہنے ، دوسروں کو برا کہنے اور اپنے آپ کو بھلا اور ٹھیک کہنے کی عادت نہیں ، بلکہ اپنے گریبانوں میں ہر شعبہ زندگی کے لوگوں کو کو دیکھنے کی ضرورت ہے ، کہ کہیں ہم اس طوفان کی طرف تو نہیں جارہے جس کے بعد ہمارے پاس کچھ بھی نہیں بچے گا.ہاں اگر ہمیں کوئی چیز بچا سکتی ہے تو وہ صرف اور صرف اسلام کا حقیقی نظام انصاف ، جس میں ہر شہری ہر لحاظ سے برابر اور یکساں ہے ورنہ ہم تو وہ منافق قوم ہیں کہ پاکستان کیلئے الگ اسلام اور افغانستان کیلئے الگ اسلام سپورٹ کرنے والے ہیں.اور اللہ منافقوں اور دوہرے انداز اپنانے والوں کو ڈھیل تو دیتا ہے لیکن معاف کبھی نہیں کرتا..
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 422551 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More