نہایت مزیدار اور معلوماتی کالم
گوجرانوالہ جی ٹی روڈ کے بلکل ساتھ سروس روڈ پر آپ کو بہت قدیم سنگم سینما
جو بعد میں تھیٹر میں تبدیل ہوگیا اس کی چاردیواری کے اندر ہی آپ کو معروف
سنگم مرغ چنے کا بورڈ نظر آے گا ۔ یہ ایریا ماڈل ٹاون ہے بلکل ساتھ ہی ٹرسٹ
پلازہ ہے ۔ دوستو اگر آپ نے ابھی تک سنگم ھوٹل کا کھانا نہیں کھایا تو پھر
یقینا آپ لذت اور ذائقے سے محروم رہ گئے مجھے امید ہے کہ میرا یہ آرٹیکل آپ
کے دماغ کی بتی ضرور جلاۓ گا یہی نہیں یہاں سے کھانا کھانے کے بعد آپ کی
زبان( ٹیسٹ بڈز ) اس منفرد ذائقہ کی عادی ہوجائیگی آرٹیکل میں آگے جا کر
اسکی وضا حت بیان کرتا ہوں ۔
1970 میں اس ہوٹل کو عوامی خدمت کے لیے رب کریم کے " چنے ہوے " خدمت گار
محترم یعقوب صاحب عرف " کوبی " نے شروع کیا ۔ وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ تہجد
پڑھنے کے بعد گھر میں ہی ایک بہت بڑے دیگچے میں چنے بنانا اللّه کے پاک نام
سے شروع کرتے ہیں اس میں نہایت صفائی ، نفاست اور تجربہ کاری کے ساتھ گھر
میں ہی تیار شدہ مصالحہ جات ڈالتے ہیں اور اسی طرح زندہ صحت مند بکرا لے کر
ایک طرف اسکے گوشت کا بہترین قورمہ، اور اسکے کمال قسم کے قیمے کے ساتھ
کوفتے تیار کرتے ہیں ۔ پھر ضلع میانوالی و جھنگ سے منگواۓ گئے اصلی اصیل
دیسی مرغ کا قورمہ تیار کیا جاتا ہے اور پھر سب سے خوبصورت بات یہ کہ تمام
تر اللّه کی نعمتوں کا حسین "سنگم "
انہی چنوں میں شامل ہوتا ہے اسلیے جو افراد صرف سادہ چنے بھی کھاتے ہیں
انکو ذائقہ میں دیسی مرغ دیسی بکرے اور مٹن کوفتوں کے اثرات و لذت یکجا
ملتے ہیں1978 میں جب میری عمر 13 برس تھی میرے ابا جان مجھے اور میرے بڑے
بھائی جان کو گرمیوں کی ایک شکر دوپہر ہمیں سنگم ہوٹل پر پہلی بار لے کر
گئے تو مجھے اچھا لگا کہ انکل یعقوب صاحب مرحوم نے میرے ابا جی مرحوم کا
بہت احترام کیا "ماسٹر جی کیسے ہیں ؟ یعنی وہ ابا جی مرحوم کے دوستوں میں
سے تھے ۔ انکل یعقوب کے چنوں نے میرا تو جیسے دل موہ لیا اور وہ ذائقہ عرصہ
دراز تک میری زبان پر رہا کھانا کھا چکنے کے بعد ابا جی نے جب بٹوہ نکالا
تو انکل یعقوب نے کہا ماسٹر جی " آپ ہمارے بچوں کو اس دیس کے مستقبل کو
زیور تعلیم سے فی سبیل اللّه آراستہ کررہے ہیں انکی آعلیٰ تربیت کررہے ہیں
۔ والدین کو تو محنت مزدوری سے ہی فرصت نہیں ہے اپنے بچوں کے لئے تو آپ ہم
پر احسان کررہے ہیں ہمیں بھی تھوڑا موقع دیں کہ آپ کی خدمت کرسکیں یہ میرے
لیے اعزاز کی بات ہے ۔ اسلئے پرزور اصرار کے بعد ابا جی انکی محبت میں مانے
اور شکریہ ادا کرتے وہاں سے رخصت ہوے ۔
پھر ابا جی کی وفات کے کافی عرصہ بعد ایک بار ہم دونوں بھائی اسی هوٹل پر
دوبارہ کھانا کھانے گئے ۔ باوجود اس کوشش کہ نا پہچانے جائیں انکل یعقوب
صاحب نے پہچان لیا کہ آپ تو ہمارے ماسٹر جی کے صاحب زادے ہیں ہم یہ بے ادبی
نہیں کرسکتے ۔ اور بل نہیں دینے دیا کیونکہ اس سادہ ہوٹل میں زیادہ تکلفات
نہیں ہیں ۔ بل ویٹر نہیں دیتا ۔ اسکے لئے کاونٹر پر جانا ہوتا ہے ۔ پھر ہم
نے ایک طویل مدت باوجود اس ہوٹل کے منفرد ذائقے کے جانا چھوڑ دیا کہ چونکہ
انہوں نے ہم سے بل وصول ہی نہیں کرنا پھر کبھی کبھار انکے کسی ناواقف آدمی
کو ہم بھیج کر کھانا منگوا لیا کرتے ۔ اب درحقیقت جو اس ہوٹل پر ہی بیٹھ کر
کھانے کا مزہ ہے وہ الگ اور نرالا ہے کیونکہ ایک طرف تندور سے گرما گرم
دیسی روٹیاں اترتی ہیں اور ساتھ ساتھ کھلائی جاتی ہیں لسی اور رائتے کا بھی
آعلیٰ انتظام ہے ۔ 2013 میں انکل یعقوب عرف " کوبی چنے والے " اللّه کو
پیارے ہوگئے ۔ بچے بڑے ہوچکے تھے جن میں انکل کے دو بڑے بیٹے خرم شہزاد اور
شعیب احمد ہیں جو نہایت خوش اخلاق اور سادہ منش انسان ہیں اب یہ کاروبار
سنبھالتے ہیں ۔ بس انکے والد اس دنیا میں نہیں رہے مگر وہی منفرد ذائقہ وہی
لذت وہی مصالحے اور وہی انداز ہے وہی پرانے ملازم ہیں جو انکے عزیز ہی ہیں
۔ سنگم سینما کے مالک چوہدری ظفر اللّه وڑائچ بھی انکے رشتہ دار ہیں اور
ورکرز میں شامل بھائی صفدر علی عرف منها بھائی اختر ٹیبل مین انکل مشتاق
سلاد والے اور تندور پر کام کرنے والے پھر ایک بابا سائیں اور ایک دوسرا وہ
بھی سائیں یہ انکل یعقوب کے زمانے کے ہی ہیں یہ سب ایک فیملی کی طرح ہی ہیں
صبح 9 بجے یہ ہوٹل ناشتہ دینا شروع ہوجاتا ہے اور پھر لنچ بھی فراہم کیا
جاتا ہے تقریبا 4 بجے سہ پہر تک انکا تازہ کھانا چلتا رہتا ہے ۔ جب سینما
بینی اپنے عروج پر تھی تو صفدر علی منها کئی کئی سو پلیٹیں چنے تیار کرکے
بیٹھے ہوتے تھے جبھی فلم میں انٹرول آتا تو فلم بین ان سے خرید کر کھاتے ۔
اب بھی ویسے ہی منوں کے حساب سے چنے اور گوشت ماشاءالله روز بکتے اور پارسل
ہوتے ہیں
میں نے تو یوں سمجھیں چنوں کے ٹیسٹ میں پی ایچ ڈی کررکھی ہے ۔ لاھور کی
مختلف فوڈ سٹریٹس کے " چکڑ چنے " ملائی چنے ، مرغ چنے ، مکھنی چنے ،
گوجرانوالہ کی متعدد رہڑ یوں سے ہوٹلوں تک کے چنے ٹرائی کرچکا ہوں
گوجرانوالہ کے بھی شوکت کے چنے جاوید کے چنے چھچھر والی نہر کے پاس والے
چنے اسلام آباد کی میلوڈی مارکیٹ سپر مارکیٹ ستارہ مارکیٹ اور کراچی کمپنی
کے چنے ۔۔ مگر سنگم کے چنوں کی بات ہی کچھ اور ہے ۔ ان میں برکت ہے تہجد کے
وقت اٹھ کر اللّه میاں کو منانے کی ۔ شائد اگلے جہاں اگر جنت میں جاسکا تو
وہاں پر بھی سنگم کے چنوں کی ریکویسٹ کردوں ۔
چنے صحت کے اعتبار سے بہت سی خوبیوں کے حامل ہوتے ہیں جن میں اہم پروٹین
کاربو ہائی ڈرےٹس اور دیگر فائدہ مند اجزاء شامل ہوتے ہیں ۔ اسکا چھلکا اور
دانہ کھا کر گھوڑے کتنا زیادہ وزن اٹھاتے ہیں ۔
مزے کی بات یہ ہے سنگم کے چنے یہ سارے سنگم والے اور انکے گھر والے خود بھی
روزانہ کھاتے ہیں کیونکہ انکو پتہ ہے کہ انہوں نے صفائی ستھرائی اور گھریلو
مصالحہ جات اور بہتر گھی سے تیار کیا ہے ۔۔ نہیں تو اکثر ہوٹل والے اپنے
ہوٹل کا کھانا کم ہی کھاتے ہیں ۔
یہ نوجوان بھائی خرم شہزاد اور شعیب احمد انکے بچے ماشاءالله حافظ قرآن بن
رہے ہیں
ان بھائیوں کے لئے میں کافی عرصہ تک اجنبی ہی رہا لیکن بلاخر انہیں بات چیت
اور سوشل میڈیا کے توسط سے میرا پتہ چل گیا اور اب پھر وہی انکل یعقوب صاحب
مرحوم والا سلسلا پھر سے چل پڑا ہے اب کیا کیا جاسکتا ہے اللّه کا حکم ۔
میری دعا ہے کہ اللّه اس "گلشن یعقوب " کو یونہی شاد آباد اور تادیر قائم و
دائم رکھے اور چچا منھو بھی اسی طرح اس ڈیرے پر آتے رہیں اور محفلیں سجاتے
رہیں ۔
|