برساتی مینڈک، بھرتیاں اور بڑے صاحب
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
سنا تھا برسات کے بعد مینڈک نکل آتے ہیں جسے برساتی مینڈک کہتے ہیں بچپن میں ہم نے بہت ساری برساتی مینڈک دیکھے تھے لیکن پھر گاؤں سے شہر آئے اور گاؤں بھی وہ گاؤں نہ رہے اور شہر میں نہ برسات کا پتہ چلتا ہے نہ کسی اور موسم کا، کیونکہ گرمی میں لو گ اے سی لگا کر عیاشی کرتے ہیں اور سردی میں ہیٹر لگا کر. رہی برسات کی بات تو اللہ کی شان ہے کچھ ہمارے اعمال ایسے ہیں اور کچھ کردار، کہ برسات کے موسم میں یا تو بارش نہیں ہوتی یا پھر ایسے بارشیں ہوتی ہیں کہ ہم سے چنائی شہر بھول جاتا ہے جہاں ہر روز صبح و شا م بارش ہوتی ہے. اب تو ایک بڑی بیورو کریٹ خاتون نے بھی کہہ دیا ہے کہ اتنی بارشیں ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے.خیر یہ ان کا تجربہ ہوسکتا ہے، لیکن اتنے گناہ گار تو غریب لوگ نہیں جتنے یہ بیورو کریٹ ہیں لیکن کرسی پر بیٹھنے والوں کا جو "خیال شریف " ہوتا ہے وہ اہم ہوتا ہے غریب کی سچی اور بڑی بات بھی " بکواس " ہی ہوتی ہے. خیر اسے ہمارے اعمال کی سزا کہیے یا ماحولیاتی تبدیلی، لیکن اتنے بارشوں کے باوجودشہر میں برساتی مینڈک نہیں نکلتے. اب برساتی مینڈک کھیلوں کے میدان میں نکلتے ہیں.
ان برساتی مینڈکو ں کا طریقہ واردات بھی عجیب سا ہے ضلعی انتظامیہ کے کسی بڑی شخصیت کیساتھ تعلق بنا لیتے ہیں صبح و شام ان کے دفتر میں " جی سر یس سر " کہتے ہوئے نظر آتے ہیں پھر ان سے کہتے ہیں کہ ہم نے فلاں کھیلوں کے مقابلے منعقد کروانے ہیں، صاحب لوگوں کا دل تو نہیں دکھتا وہ بھی پوچھتے کہ آپ کا کھیلوں سے کیا کام، نہ ہی انہیں غریب عوام کے ٹیکسوں پر دل دکھتا ہے.وہ پوچھتے ہیں کتنا " خرچہ پانی"دوں، جواب میں بڑی رقم کا مطالبہ کرکے ان کے نام سے کھیلوں کے مقابلے منعقد کروائے جاتے ہیں پھر بڑے صاحب کو کہاجاتا ہے کہ آپ اپنے چھوٹے چھوٹے صاحبان جو مختلف اضلاع میں تعینات ہیں ان کو ہدایت کریں کہ ہمارے سا تھ تعاون کریں، اور پھر مختلف اضلاع میں صاحب کا پیغام لیکر " فنڈز "وصول کئے جاتے ہیں اور آخر میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں آکر یہی کہا جاتا ہے کہ فلاں صاحب نے بھی مدد کی ہے، فلاں نے بھی کی ہے بس ہمیں فری میں گراؤنڈ چاہئیے.اورپھر صاحب لوگوں کے ہاتھ میں شرٹ دیکر تصاویر نکال دی جاتی ہیں، ہماری کمزوری تو ویسے بھی زر، زن اور زمین ہے اس لئے کبھی کبھار اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کیلئے "یس سر کہنے والے"افراد زن بھی ساتھ لے جاتے ہیں اور پھر منظوری بھی مل جاتی ہیں.
اب آتے ہیں انٹری فیس کے نام پر ٹیموں سے وصولی، تو یہاں پر بھی ڈنڈی ماری جاتی ہیں مزے کی بات کہ مقابلے کسی اور ڈویژن کے ہونگے اور کسی اور ڈویژن کی ٹیمیں حصہ لینگی.سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ جو ٹیمیں مقابلے میں آئینگی ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں.کیونکہ بعض کھیلوں کیلئے تو ابھی کمیٹیاں بنی ہیں اور سب کچھ نارملائزیشن کمیٹی پر ہوگا تو پھر قانونی حیثیت میں ٹیمیں بنیں گی. اب سوال یہ ہے..کیا ضلعی انتظامیہ کو یہ معلوم نہیں کہ قانونی طور پر کام کرنے والے لوگ کونسے ہیں،چلیں انہیں تو پتہ نہیں، یہ تو بیورو کریٹس ہیں، بڑے افسر ہیں، وزراء بلکہ سیاسی وابستگیوں کی بنیادوں پر اعلی عہدوں پر بیٹھے ہیں لیکن کیا سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے " بڑے صاحب" کو نہیں پتہ. کہ کیا کھیل جاری ہے.یا تو " بڑے صاحب" جان بوجھ کر آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں یا پھر... لمبی خاموشی..
جان بوجھ کر آنکھیں کرنے پر یاد آیا، گذشتہ دنوں پشاور میں مردان کیلئے بھرتیاں سپورٹس ڈلائریکٹریٹ کے زیر انتظام کرائی گئی، انٹرویو ماشاء اللہ، ناموں کی چیکنگ حال ہی میں بھرتی ہونیوالے ڈیلی ویج ایف کے طالب علم کررہے تھے.سب سے افسوسناک بات جو کہ دیکھنے میں آئی کہ مردان سپورٹس کمپلیکس کیلئے بھرتیاں پشاور میں کروائی گئی،صبح سویرے پشاور جم خانہ کیساتھ واقع قائد اعظم ٹینس کورٹ میں ایک سو سے زائد نوجوان پہنچے تھے، جن میں انجنیئر تک موجود تھے. ملکی حالات سے نالاں یہ نوجوان اعلی تعلیمی قابلیت کے حامل تھے پیٹ کی خاطر ڈیلی ویج کی نوکری کیلئے آئے تھے، اب سوال یہ ہے..
مردان میں سب سے زیادہ یعنی چالیس کے قریب مستقل ڈیلی ویج ملازمین موجود ہیں جبکہ کوچ بھی ہیں تو پھر نئے آٹھ نئے ملازمین کی ضرورت کیا ہے حالانکہ مردان سپورٹس کمپلیکس میں کوچز کی ضرورت ہے اور وہاں پر صرف ایک کوچ تعینات ہے جو کہ گریڈ سترہ کا ہے.مردان سپورٹس کمپلیکس میں باکسنگ، کلائمبنگ وال، کرکٹ ، ہاکی،سوئمنگ سمیت مختلف کھیلوں کیلئے الگ الگ جگہیں قائم ہیں مگر وہاں پر کوچز تعینات نہیں کئے جارہے. کیا بھرتیوں کا طریقہ کارصاف و شفاف تھا اور کیا مردان کی بھرتی پشاور میں ہوسکتی ہے.یہ سب سے بڑااہم اور سوالیہ نشان ہے.حالانکہ ضرورت وہاں پر کوچز کی ہے تاکہ نوجوان نسل کو کھیلنے کے مواقع ملے اور مثبت سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہو.لیکن چونکہ " بڑے صاحب" کا مطلوب اچھے تعلقات رکھنا ہے اس لئے اب مردن میں بھرتیاں کی جارہی ہیں.
سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ اپنی روایتی سست روی کے باعث ڈیلی ویجز کوچز کی تعیناتی تین ماہ سے مکمل نہیں کرسکی ہے، ہیڈ کوارٹر میں بیٹھے افراد نے الگ کمیٹیاں بنا رکھی ہیں حالانکہ ان ڈیلی ویجز ملازمین نے کئی سال ملازمتیں یہاں پر کی ہیں. خلاء میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ ان سے کام لے رہا ہے، ان ڈیلی ویجز کوچز کا ذہن کتنا مطمئن ہوگا اور وہ کس طرح کھلاڑیوں کو تربیت دیتے ہونگے یہ تو اللہ ہی جانے، لیکن سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ دو ماہ کی تنخواہیں ان ڈیلی ویجز کوچز کو ادا کردی گئی، تیسرے ستمبر کی بھی انہیں مل جائیگی لیکن نہیں ملے تو صرف ٹینس کی خاتون کوچ کو، کیونکہ اس نے اپنے ساتھ جانبداری کے حوالے سے میڈیا پر بات کی تھی، ساتھ میں اس خاتون نے یہ بھی کہا تھا کہ مجھے یہ دھمکی دی گئی کہ تمھار ے کاغذات جعلی ڈکلیئر کروائے جائیں گے، ساتھ میں صحافیوں کے بارے میں "کہا گیا کہ" یہ کتے ہیں "، ہاں یہ اس وقت کتے نہیں ہوتے جب سپورٹس ڈائریکٹریٹ کیلئے لکھتے ہیں لیکن اگرکسی کھلاڑی، کوچ، زیادتی پر لکھتے تو انہیں آگ لگتی ہے.اور پھر صحافی بھونکتے ہیں.یہاں تو ایسے واقعات بھی ہوئے کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں "بیٹھے وڈے افسران "نے کہہ دیا کہ صحافی کتے ہیں تو سامنے بیٹھے صحافی نے اعتراض کردیا کہ یہ کہہ رہے ہیں تو جواب دیا جاتا ہے کہ آپ تووہ والے کتے نہیں کتے وہ دوسرے ہیں.حالانکہ ہم اقرار کرچکے ہیں کہ کتوں کی قسمیں ہیں " کوسہ ڈب " السیشن، پپی اور "غیر ملکی بلڈ ہاؤنڈ" جو سب کو نظر بھی آتے ہیں. سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں بیٹھے " وڈے افسران"یہ سجھتے ہیں کہ ہم جو کہتے ہیں وہ ٹھیک ہیں باقی سب غلط ہے. کھیلوں کی پروموشن سب کا حق ہے.کوریج بھی سب کا حق ہے لیکن غلط چیزوں کی نشاندہی بھی بقول وڈے افسران "انہی کتوں " کی ذمہ دار ی ہیآخر میں حیران کن بات، کہ ڈیلی ویج کوچز کیلئے تعلیمی قابلیت کی اہمیت کیا ہے، ہاں اپنے کھیل میں مہارت ضروری ہے. اور کیا قانون سب کیلئے یکساں نہیں، یا پھر ایک کیلئے الگ قانون تو دوسرے کیلئے الگ قانون..لیکن " بڑے صاحبان"کو کون یہ سمجھائے. جنہیں کرسی کا نشہ ہے.
|