لیام ڈاسن جب کریز پر آئے تو ان کی ٹیم پچھلے قدموں پر جا چکی تھی۔ حارث
رؤف اور محمد حسنین کسی بلے باز کو بازو کھولنے کا موقع نہیں دے رہے تھے۔
افتخار اور محمد نواز نے پہلے ہی جینا دوبھر کر رکھا تھا۔
کراچی کی اس پچ پر نہ صرف سپنرز کے لیے گرفت موجود تھی بلکہ ریورس سوئنگ کے
لیے بھی بھرپور سہولیات میسر تھیں۔ دونوں اننگز کے اواخر میں ہمیں بھرپور
سوئنگ دیکھنے کو ملی۔ اگر کوئی گیند 145 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے
یارکر لینتھ پر گرنے سے عین پہلے ذرا سی ڈگمگا جائے تو تگڑے بلے باز بھی
نڈھال ہو جاتے ہیں۔
لیام ڈاسن اگرچہ بہت کم وقت کریز پر موجود رہے مگر ان کی وہ 34 رنز کی
اننگز پانچ چوکوں اور ایک چھکے سے مزین تھی۔ اور اس ایک اوور میں محمد
حسنین جس تشدد کا نشانہ بنے، اس کا درد کوئی ایسا فاسٹ بولر ہی سمجھ سکتا
ہے جو اپنے پہلے تین اوورز میں صرف 16 رنز دے کر دو وکٹیں حاصل کر چکا ہو
مگر اس کا آخری اوور اس کی ٹیم کو چوبیس رنز میں پڑے۔
جو انگلش اننگز انہدام کی جانب گامزن تھی، لیام ڈاسن پلک جھپکتے میں ہی اسے
اپنے پاؤں پر لے آئے۔ اپنے تئیں وہ میچ کی سمت متعین کر چکے تھے اور نتیجہ
نوشتۂ دیوار تھا۔
اگرچہ پاکستانی صحافت میں کوئی دن جاتا نہیں کہ حارث رؤف چہ مگوئیوں کی زد
میں نہ آتے ہوں، مگر یہ ایک شماریاتی حقیقت ہے کہ وہ ان گنے چنے پلئیرز میں
سے ایک ہیں جو ڈیتھ اوورز کے بلے بازوں کی نفسیات پہ عبور رکھتے ہیں اور
انہی کے بل پہ بابر اعظم بھی کسی جارحانہ اپروچ کے متحمل ہو سکتے ہیں۔
وقار یونس نے ایک بار عثمان سمیع الدین کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ کچھ
میچز ایسے ہوا کرتے تھے جہاں پاکستان میچ کے اختتامی مراحل میں یقینی شکست
کی جانب گامزن ہوتا تھا مگر اچانک کہیں سے کوئی ایسا کیچ یا ڈائریکٹ تھرو
پہ رن آؤٹ ہو جاتا اور اچانک ایک جان سی آ جاتی۔
جس کے بعد پاکستانی بولنگ سبھی تخمینوں کو روندتی ہوئی شکست کے منہ سے فتح
اچک کر لے جاتی۔
عثمان نے اس کیفیت کو واضح کرنے کے لیے تصوف کی اصطلاح 'حال' کا حوالہ دیا
تھا۔ یہاں پاکستانی ٹیم پہ بھی گویا کوئی 'حال' ہی طاری ہوا جب حارث رؤف نے
اپنی لوک داستان تخلیق کر ڈالی۔
اپنے آخری اوور کی پہلی گیند کے لیے دوڑے تو سامنے کھڑے ڈاسن تب تلک میچ کو
اپنے تئیں ختم کر چکے تھے اور مطلوبہ رن ریٹ ہنسی خوشی حاصل کیا جا سکتا
تھا۔
دوسری ہی گیند پر انھوں نے ڈاسن کے ریفلکسز کو چیلنج کرنے کی کوشش کی مگر
اندازے کی ذرا سی غلطی نے متوقع باؤنسر کو شارٹ پچ میں بدل دیا اور ڈاسن نے
ہاتھ کھول کر اسے باؤنڈری کے پار پھینک دیا۔ پاکستانی شائقین ایک بار پھر
مبہوت ہو گئے۔
تیسری گیند فیصلہ کن تھی کہ میچ وہیں ختم ہو سکتا تھا مگر حارث رؤف نے اس
بار کسی ریاضیاتی درستی سے وہ باؤنسر پھینکا جس نے ڈاسن کو ایسا الجھا کر
رکھ چھوڑا کہ وہ پیس سے ہی اپنا بیچ بچاؤ کرتے رہ گئے۔
اور اس باؤنسر کے بعد حارث رؤف کی اگلی گیند جس رفتار اور درستی سے آف سٹمپ
کے اوپری کنارے سے ٹکرائی، ساری کہانی ایڑی کے بل گھوم گئی۔
انگلینڈ کے اس تاریخی دورے پر ایسی ناقابلِ یقین فتح اس ڈریسنگ روم کے لیے
یادگار رہے گی۔ صرف یہی نہیں، دو براعظموں کے اطراف شائقینِ کرکٹ بھی اس
لمحے کو سالوں یاد رکھیں گے جس لمحے میں حارث رؤف پہ 'حال' طاری ہوا تھا
اور ڈاسن ایک جیتی ہوئی بازی ہار بیٹھے تھے۔
|
|
Partner Content: BBC Urdu |